وردہ صدیقی۔۔ نوشہرہ کینٹ
رمضان شریف کے آتے ہی جہاں آخرت کا سامان سستا ہوتا ہے وہاں دنیا کا سامان
مہنگا ہوجاتا ہے ، اشیا ء خورد و نوش کے نرخ آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔ لوٹ
مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ہر چیز کی قیمت اس کے اصل سے دگنی چگنی کردی
جاتی ہے۔ سب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ایک ماہ میں پورے سال کا کوٹہ پورا
کر لیا جائے۔ بقول تاجر ۔۔۔ " یہی تو کمائی کا سیزن ہے ۔۔۔۔ کمائی کا مہینہ
ہے"
رمضان المبارک سے قبل ہی ہمارے تاجر بھائی خوب ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں اور
اشیا ء ضرورت نا ملنے کی بنا پر عوام بڑی تکلیف کا شکار ہوتی ہے۔ پھر جیسے
ہی رمضان شروع ہوتا ہے ذخیرہ شدہ اشیا ء کو نکال کر دگنی قیمت پر فروخت کر
کے خوب کمایا جاتا ہے۔ امیر تو امیر ہے اسے کیا پریشانی ۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقت اس
ظلم کی چکی میں مفلس و نادار لوگوں کو پیسا جاتا ہے۔
ذرا سوچیے !جس قوم کی اکثریت غربا ء پر مشتمل ہو۔ وہاں اس زیادتی کا کیا
عالم ہوگا۔۔۔
دیگر ممالک میں خاص موقعوں اور تہواروں پر 50% سے 70% ڈسکاونٹ پر سیل اور
پیکج وغیرہ لگا دیا جاتا ہے تاکہ غریب عوام آسانی سے اپنی ضرورت کی اشیا ء
خرید سکیں اور خوشیوں میں سب کے سنگ برابر کے شریک رہیں۔ لیکن ہمارے ہاں
بلکل الٹ ہی نظام ہے خاص مواقع اور تہوار آتے ہی قیمتیں %25 سے %50 تک
بڑھاکر عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔اورایسے پیکج لگا کر عوام پر احسان بھی
کیا جاتا ہے۔ دراصل وہ خیر خواہی نہیں ظلم ہوتا ہے۔ ڈسکاونٹ کا لیبل لگا گر
ناقص مال فروخت کر کے دھوکہ دیا جاتا ہے۔
شریعت میں احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے بارے میں وعیدیں نازل
ہوئی ہے ۔ اصطلاح میں احتکار کا مفہوم ہے۔ ہر ایسی چیز جو انسان یا حیوان
کی غذائی ضرورت ہو گراں بازاری کے زمانے میں جب کے مخلوق خدا کو غلہ کی
زیادہ ضرورت ہو ایسے وقت میں غلہ خرید کر اس نیت سے رکھے کہ جب زیادہ گرانی
ہو تو بیچوں گا۔ یہ احتکار کہلاتا ہے۔
شرعی نقطہ نظر سے احتکار حرام ہے اس قابل نفرت فعل میں مبتلا ہونے والا شخص
انتہائی ناپسندیدہ ہے۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ " تاجر کو رزق دیا
جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے۔" (رواہ ابن ماجہ والدارمی)
صحیح مسلم میں احتکار کرنے والے کے متعلق حضرت معمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا " من احتکر فھو خاطی " "احتکار کرنے والا گنہگار ہے. "
یاد رکھیے کہ اسلام انسان کو اعلیٰ اخلاق سکھاتا ہے اور ہر مسلمان کو اعلی
معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے۔ انہیں اخلاق حمیدہ سے متصف کرنا چاہتا ہے۔
اسی لئے کہا کہ ایک آسودہ حال انسان دوسرے مفلوک الحال انسان کی ہمدردی اور
مدد کرے اور وسعت اور راحت کے وقت اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو نا بھولے ۔۔۔۔
اسراف سے کنارہ کش ہوکر راہ حق میں انصاف کا دامن تھام لے ۔ نہ کہ ایسا
کنجوس ، بخیل اور حریص بنے کہ مخلوق اس سے نفرت کرنے لگے اور نہ اتنا مبذر
بنے کی خالق ناراض ہوجائے۔
رمضان المبارک تو غمخواری، ہمدردی، بھائی چارے، سخاوت، ضرورت مند کے ساتھ
احسان کرنے ، مالک کیلئے سب کچھ قربان کرنے ، ایک دوسرے کا درد سمجھنے اور
بانٹنے کا مہینہ ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں حضور ﷺ سب سے زیادہ صدقات دیا کرتے تھے عبداﷲ بن
عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ "آپ ﷺ خیر میں سب سے زیادہ سخی تھے
اور ان کی سخاوت کا سب سے زیادہ اظہار رمضان کے مہینے میں ہوتا تھا ،اور
جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان کے مہینے میں اخیر رمضان تک آپ سے ملاقات
کرتے تھے رسول ﷺان کو قرآن سناتے تھے اور جب جبرائیل آپﷺ سے ملاقات کرتے تو
آپ ﷺ بارش برسانے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے. "
کیا ہی اچھا ہوگا کہ ماہ رمضان میں اپنے نبی کی سنت کوزندہ کیا جائے لہذا
اپنے نبی کا طریقہ اپنائیے ۔ احتکار کو چھوڑ کر احسان کا معاملہ کیجیے تاکہ
دنیا کی تجارت کے ساتھ ساتھ آخرت اور جنت کا سامان بھی خرید لیا جائے تاکہ
روز قیامت انبیا ء و صدیقین کے ساتھ حشر ہو بجائے اس کے کہ دھوکہ دہی،
ناجائز منافع ، ظلم و زیادتی، بے کار اور گھٹیا مال فروخت کرکے اپنے لئے
جہنم کا راستہ استوا رکیا جائے اور فساق وفجار کے ساتھی بنائے جائیں۔
بہرحال کوشش کیجیے کہ رمضان المبارک میں منافع کم سے کم رکھ کر عوام کو
راحت پہنچائیں اور کم منافع پر اجر و جزا کی امید اﷲ سے رکھیں۔
پیکج لگائیں تو دھوکہ و فریب سے پاک ہو۔ خالص اشیا ء فروخت کریں۔
اس کے ساتھ اپنی تاجر برادری سے ایک گذارش ہے کہ رمضان المبارک بھی اﷲ کی
طرف سے لگائی ہوئی سیل اور کمائی کا سیزن ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اﷲ نے مؤمنین سے ان کے جان و مال کے بدلے جنت
کا سوداکرلیا ہے " (سورۃ توبہ)
اﷲ نے اس ماہ میں عبادت کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا ہے۔ جنت کا راستہ آسان
بنایا اور جہنم کے دروازے بند کر دیے ہیں شیاطین کو قید کردیا ہے۔
یہ اﷲ کی رحمتوں، برکتوں ، نعمتوں اور انوارات کی برسات کا موسم ہے۔ ایسا
نہ ہو کہ آپ دنیاوی کاروبار میں لگ کر اس چند روزہ مہمان کی برکتوں سے
محروم رہ جائیں۔ لہذا کوشش کیجیے کہ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ عبادات،
تلاوت ، ذکر واذکار کی ایسی ترتیب بنائیں جس سے آپ دارین کا خوب منافع حاصل
کر سکیں ۔
اﷲ پاک ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے سب کی حفاظت فرمائے اور انبیاء علیھم
السلام کی طرح تجارک کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے (آمین )
|