میں انگلینڈ 1994 سے کچھ دنوں کے لیے ھر سال آتا رھا ھوں
، یہاں کے معاشی اقدار، انفرا سٹرکچر، ریاستی پالیسیز ، قانون اور اس پر
عمل درآمد، اداروں اور ذمہ داروں کی مکمل خود مُختیاری اور اخلاقی اقدار
وغیرہ وغیرہ سے کافی حد تک آگاہی ھے اور اب تو 2016 سے یہاں کا نیشنل بھی
ھو گیا ھوں۔ یہاں شراب کی زیادتی اور کپڑوں کی کمی کے علاوہ ھر امر میں
اقدار کی اعلی مثالیں ھیں ، انسانی ناطہ سے کمی اور غلطی ھونے کے امکان کے
علاوہ ھر کام میں perfection ratio بہت زیادہ ھے۔ ان کے کسی بھی شعبہ میں
کوئ جھول نہ ھے لیکن پھر بھی اسکی بہتری کی کوشیش میں لگے رھتے ھیں۔
ھم اپنی دینی اور معاشرتی تعلیمات کے مقابل اپنی اقدار اور حالات کا تقابلی
جائزہ لیں تو سواۓ شرم سے سر جھکانے کے علاوہ کوئ چارہ نہ ھو گا۔
ھمارے ھاں جب قاتل عدالت سے نکل کر آتے ھیں تو میڈیا کو دیکھ کر V کا نشان
بناتے ھیں ، 80s کی بات ھے لاھور ھائ کورٹ کے جج کوثر نے گنپت روڈ کے
کاغذوں کے تاجر سلیم کو سہاگ رات کو چھری سے قتل کرنے والی اسکی بیوی ثمینہ
جو شاھدرہ کی رھنے والی زمیندار تکڑی فیملی سے تعلق رکھتی تھی تین میڈیکل
بورڈز کی واضع رپورٹ کہ یہ قتل ھے اس کو اور اس کے فرسٹ کزن جس وہ محبت
کرتی تھی ڈیڑھ کروڑ روپیہ رشوت لے کر ھفتہ کی رات فیصلہ سنا کر بری کر دیا
اور وہ دونوں سوموار کو غیر ملک پروز کر گۓ۔ دوران اسیری اُن کے کاغذات بھی
تیار ھوتے رھے فیصلہ بھی پلاننگ سے ھفتہ کی رات کو آیا کہ اگلے دن دوسری
پارٹی stay نہ لے سکے۔ زندہ باد اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں نہ اسلام ھے
اور نہ جمہوریت ھے۔ ان کافر انگریزوں نے ھندوستاں سے دولت لوٹی اور ھمارے
سے اسلام چھین کر اپنے آپ اور اپنی قوم کو مظبوط کیا۔ انگلستان کے ایک وزیر
اعظم چرچل سے کسی کہا کہ آپ کے ملک کا زوال قریب ھے چرچل نے پوچھا کہ کیا
نظام عدل فیل ھو گیا ھے تو جواب ملا نہیں عدالتیں تو ٹھیک کام کر رھی ھیں
چرچل نے کہا پھر انگلستان کو کچھ نہیں ھو گا۔ ھمارے مُسلمان حکمران اپنی
بیگم کی فرمائش پر تاج محل کی بنیاد رکھ رھے تھے جب کہ یہ غیر مُسلم ھاورڈ
یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رھے تھے، واۓ قسمت ، کہاں تک سُناوں کہاں تک سُنو
گے۔
ھمارے آج کے حکمرانوں کی حالت دیکھ لیں، پاسبان حرم کی بات اور اُن کی
کرتوتیں دیکھ لیں وھاں کے لوگوں کی اخلاقی اقدار دیکھ لیں،
غار حرا جو آپ ص کا عبادت کا مسکن ھوتا تھا اور پہلی وحی کا وہیں نزول ھوا۔
زائرین اسکی زیارت کے لیۓ وھاں جاتے ھیں راستہ میں جگہ جگہ فقیر بیٹھے ھیں
وھاں ایک عجیب و غریب نوعیت کا کام ھوتا ھے کہ وھاں پر مقامی لوگوں نے بندر
سدھاۓ ھوۓ ھیں جو موقع لگنے پر غار حرا کی زیارت کے لیۓ آۓ لوگوں کے بیگ جن
میں آن کے پاسپورٹ اور نقدی ھوتی ھے کھنچ کر اوپر پہاڑ کی طرف بھا گ جاتے
ھیں ۔ متاثرین بندروں کے پیچھے کچھ اوپر تک تو چڑھتے ھیں لیکن کہاں تک ۔
کافی بلندی پر آن کے مالکان چھپے بیٹھے ھوتے ھیں جو اس میں سے قیمتی چیزیں
نکال خالی بیگ ایک طرف گرا دیتے ھیں۔
اناللہ واناالیہہ راجعون
چشم زن (انسان کی آنکھ)
چشم آھو (ہرن کی آنکھ)
چشم فلک (آسمان کی آنکھ)
میں سے صرف آسمان کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولے گی جب کہ انسانی اور حیوانی
آنکھ مصلیحت کی وجہ سے در وٹ جاتی ھے۔
ندیم اقبال،نیلسن.
|