میں نے جب سے ہوش سنبھالی اسے متحرک دیکھا۔ دن ہوتا یا
رات جب بھی اسے پکارا۔اس نے میری بات سنی،سمجھی،اور پوری کی۔ میں نے جب ضد
کی اس نے پوری کی، کبھی سمجھایا تو کبھی دلاسے دئیے۔ مگر کبھی ڈانٹا یا
دھتکارا نہیں۔
وہ ایسی ہی تھیں مشفق،مہربان اور سب کے لیے ماں۔
میں بھی ایسی ہی ہوں اسی فطرت کی مالک،ایک ماں
میں کبھی انہیں مدرز ڈے پر کارڈ بنا کر نہیں دے سکی۔ مجھے بچپن میں چینی
کھانا بہت پسند تھا۔ جب تک وہ زندہ رہیں میری ہر سالگرہ پر دس روپے کو نوٹ
کو پاپ کارن والے لفافے کی طرح بنا کر چینی سے بھر کر ہر تحفے کے ساتھ
لازمی دیتی رہیں،
انہیں پیپسی بہت پسند تھی اور مجھے شیزان مگر، امی جب پیپسی پیتیں میں
ہمیشہ ضد کرتی،نمبروں کے بعد والی میں پئیوں گی اب لاکھ ایک گھونٹ کے بعد
آنکھوں میں پانی آتا میں لازمی پیتی۔ اور اب پیپسی دیکھ کر آنکھیں پانی سے
پھر جاتیں ہیں اور حلق میں نمکین سا ذائقہ محسوس ہوتاہے۔
میں بچپن سے بہت بہادر تھی کبھی ڈری نہیں کیونکہ ماں کہا کرتی تھیں جہاں
ماں ہو وہاں پریاں آتی ہیں جن بھوت نہیں اور پریاں کبھی ڈراتی نہیں۔ میں
پھر بھی ڈرتی تو انہوں نے مجھے چھ کلمے نماز ایمان کی صفات، چاروں قل، آیت
الکرسی درود شریف یاد کروا دیے کہ انہیں پڑھنے سے کوئی جن بھوت تنگ نہیں
کرتا اور زندگی میں پہلی بار نعرے بھی انہوں نے لگوائے۔ نعرہ تکبیر، نعرہ
رسالت اور نعرہ حیدری۔۔۔
ان کے ہوتے پھر میں آج تک نہیں ڈری۔
مجھے بلی سے بہت ڈر لگتا تھا تومیرے تایا ابو اور امی نے ایک جاندار بلی کے
سائز کی بلی منگوائی دن رات ایک کرکے مجھ سے اس بلی کو پٹوا،پٹوا کر مجھے
باہو بلی بنا دیا۔
مجھے کبھی پولیس اور آرمی کے جوانوں سے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ بچپن
سے ہی امی نے سیکھایاوہ فوجی بھائی ہیں ان سے ہاتھ ملا کر آو، ان کوسیلیوٹ
کر کے آو۔ اور آج تک بے ساختہ ہر وردی کو دیکھ کر دل سے احترام امڈآتا ہے۔
جب پہلی بار میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا اکیلے باہر آنا جانا شروع کیا
تو ماں نے کہا میں اتنا جانتی ہوں میری بیٹی جیسی صبح گئی ہے شام کو بھی
ویسی ہی لوٹے گی اور آج تک یہ بات نہیں بھولی میں۔
جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بہت مخالفت ہوئی دل برداشتہ ہو کر قلم چھوڑ
دیا۔ خاموش رہنے لگی تب امی ہی تھیں جنھوں نے حوصلہ دیا اورکہا۔۔ اسلام جب
دنیا میں پھیلا تب بھی بہت مخالفت ہوئی تھی ہم بھی اسی نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ماننے والے ہیں جنھوں نے ہار نہیں مانی تم چاہتی ہو میں نبی صلی اﷲ
علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہو جاؤں کہ میری بیٹی نے روشنی پھیلانے کا کام
ادھورا چھوڑ دیا۔۔
وہ کہتی تھیں تم لکھو، کامیابی تمھارے قدم چومے گی اور تعلیم و ادب میں
تمھاری مشہوری باعث شرم نہیں،باعث صد افتخار ہے۔
آج تک ہمیشہ بے نیاز ہو کر لکھا کہ تحریر کسی کو پسند آتی ہے یا نہیں، کہیں
چھپتی ہے یا نہیں، بس یہی لگتا ہے کہ امی اسی طرح میرے پاس ہیں جیسے بچپن
میں لالٹین کی روشنی میں ہوم ورک لکھتے ہوئے وہ میرے آس پاس رہا کرتی تھیں
کہ اب اس کی لو بڑھانی ہے۔
مجھے اپنی ایسی کوئی خواہش یاد نہیں جسے کبھی انہوں نے رد کیا ہوا۔
وہ سکول ٹیچر تھیں تو بہت دور دراز کے علاقوں میں ان کا ٹرانسفر ہوتا رہا۔
تن تنہا دو بچیوں کو سنبھالتیں۔طوفانوں سے لڑتی،میں نے ان کے لبوں سے کبھی
اﷲ یا میرے بابا کے لیے شکوہ یا گلہ نہیں سنا۔ انہوں نے کبھی محسوس نہیں
ہونے دیا اور ناہی باپ کی دوری کو ہم پر اثرانداز ہونے دیا۔
میں نے کبھی ان کی ٹانگیں نہیں دبائیں کیونکہ انہوں نے کبھی کہا ہی نہیں کہ
میں تھک گئی ہوں۔ وہ جب بیمار تھیں تب بھی صرف میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھیں
جیسے میری مسکراہٹ سے انہیں میرے دل میں چھپے درد کا اندازہ ہو رہا ہو۔
میں بھی ماں ہوں، آج اس درد کو سمجھتی ہوں کہ ہر بچے کے لیے ماں صرف ماں
ہوتی ہے، تنہا ہونا اور تنہائی محسوس کرنا دو الگ کیفیات ہیں یہ سیکھانے
والی میری ماں تھیں۔ اس مدرز ڈے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اپنی ماں کو
کیا دوں؟ کیونکہ میرے بچے تو پتا نہیں کیا کیا سوچ کہ بیٹھے ہیں کہ کارڈ
بنانا ہے،ماما کو سرپرائز گفٹ دینا ہے مگر میرے پاس اپنی ماں کو دینے کے
لیے وہ ہے جو انہوں نے مجھے کبھی نہیں سیکھایا تھا۔ جو انہوں نے اپنی تربیت
میں کبھی شامل ہی نہیں ہونے دیا۔ جی ہاں آنسو۔ آنکھوں کے گوشوں سے بہتی
قیمتی موتیوں کی لڑی میری ماں کے نام۔۔۔
|