بیٹیاں سانجھی نہیں ہوتیں

 سن رکھاتھا کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں مگر جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں وہاں ننھی معصوم بچیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک مسلسل جاری ہے ، یہ کہاوت اب ایک مذاق لگنے لگی ہے،،جنسی ہوس کے مارے درند ے ننھی منی نوخیز کلیوں کو جس طرح مسل رہے، بھنبھوڑ رہے ہیں یہاں کوئی بیٹی سانجھی نہیں لگتی، امیر کی بیٹی اور غریب کی بیٹی ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے ،غریب کی بیٹی نظروں کی بھوک اتارنے کے کام آنے سے سے لے کر چیرپھاڑ ہونے تک ہمیشہ ہی بے عزت اور بے توقیر رہتی ہے جبکہ سرمایہ داروں کی بیٹیاں اپنی الگ دنیا میں محفوظ ہیں ،دولت انکی محافظ ہے ،غریب کی عزت غیر محفوظ ہونے کی سب سے بڑی وجہ اسکی غربت ہے ،یہ غربت ہی ہے کہ سلامت مسیح جیسے معاشرے کے پسے ہوئے ، محکوم اور مجبور افراداپنی بیٹیاں جو انکی عزت ہوتی ہیں اپنی مجبوریوں،فاقہ کشی اور محرومی کے باعث چند سو روپوں کے عوض تکبر، دولت اور طاقت کے نشے میں چور ایسے سرمایہ داروں اور با اثر لوگوں کے پاس چھوڑ آتے ہیں باوجود اسکے کہ انکی عزت محفوظ رہنے کی وہاں کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ، بلکہ عزت ہی نہیں غریب کی توسانسیں تک ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہوتیں، چنانچہ خود بہنوں بیٹیوں والے ہونے کے باوجود ان طاقت والوں کا ہاتھ غریب کی بچی کو بے لباس کرتے اور اسکی معصومیت کو تارتار کرتے ہوئے نہیں کانپتا، دولتمند گھرانوں کے بگڑے ہوئے امیر زادے کام والیوں کے عزت لوٹنے کو محض ایک کھیل اور چند لمحوں کی تفریح سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ،بابا کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی کائنات بھی نہیں جانتی تھی کہ کمسنی میں گھرکے معاشی حالات کابوجھ اسکے ننھے کاندھوں پر پڑ جائے گا ، مہینے کے چند سو روپوں کے عوض اسے موسم کی سختیوں سے قطع نظر برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ کس مشقت سے گزرناہوگا کہ اس میں اسکی جان تک چلی جائے گی ، اسے نہیں پتا تھا کہ ایک دن آئے گا جب وہ طاقت والوں کے صرف ایک وقت کے نشے کو پورا کرنے کے کام آجائے گی اور چند لمحوں کی آسودگی کے لئے درندگی کاشکار ہو جائے گی ،جب وہ لٹے گی تو اسکی چیخیں اور آہ بکا کئی کئی کنال پر پھیلے ہوئے با اثر مالکوں کے گھروں میں گھٹ کے رہ جائیں گی ،کوئی اسکی چیخ و پکار، سسکیاں اور آہیں نہیں سن پائے گا، کئی دن ہونے کو ہیں ،غریب ، مجبوریوں کے ہاتھوں پسے ہوئے مفلسوں کی کائنات لٹ چکی ہے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بارے میں علم ہوا تو درد کی ایسی لہر سینے میں اٹھی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ، رپورٹ کے مطابق کائنات کو گلا گھونٹ کر مارا گیا ، اور قتل سے پہلے اسکے ساتھ زیادتی بھی کی گئی ، جسم پر زخم کا نشان بھی موجود ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح ہے کہ کائنات نے خود کشی نہیں کی بلکہ اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا، پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکل آفیسر کے مطابق متوفیہ کے گلے پررسی کے گول نشانات ہیں ، اگر پھندا لے کر خود کشی ہوتی تو یہ نشانات لمبائی میں ہوتے اور ایسی صورت میں گلے کی ہڈی بھی ٹوٹ جاتی ہے ، ملازمہ کے ساتھ 24تا36گھنٹے قبل جنسی تشدد کی گیا ،زیادتی کے دوران دائیں کلائی پر3سے 5سینٹی میٹر کازخم جبکہ بائیں بازو پر رگڑ کا نشان ہے جومتوفیہ کی جانب سے مزاحمت کی علامت ہے، اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ بااثر حکومتی سیاسی خاندان کی جانب سے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ردو بدل کے لئے سخت دباؤ ڈالا جاتا رہا ، اسی طرح متوفیہ کائنات کے لواحقین کو بھی مبینہ طور پر ایم ایل اے کے اہل خانہ کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا تھا ، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملزمان جو پہلے غائب رہے اور عبوری ضمانتیں کراتے رہے ،کائنات کے والد سے 164کے تحت اپنے حق میں بیانات دلوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ،لیکن کائنات کا زخم زخم لاشہ جاتے جاتے حقیقت کھول گیا ہے ، درندگی اور شیطانی کھیل کے بعد اسکے لٹے پٹے معصوم جسم نے میڈیکل افسروں اور غسل دینے والی عورتوں کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی ساری کہانی بیان کر دی ہے ، جن چند اخبارات نے پوسٹ مارٹم رپورٹ شائع کرنے کی جرات کی ہے ، وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ،جنہوں نے گول مول لکھا ہے ، وہ بیٹی کی محبت کے لمس سے شاید ناواقف ہیں ، یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ شاید فرانزک رپورٹ اور ڈی این اے ٹیسٹ میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ کی جائے ، اسکی وجہ حکومتی اثرورسوخ اور دولت کی فراوانی ہے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ایم ایل اے کو بیٹوں کو بے گناہی کی قسمیں کھانے کی بجائے تحقیقات میں تعاون کرنا چاہئیے تھا ، کیا لیگی ایم ایل اے بتا سکتے ہیں کہ لڑکی کی موت جسے وہ اور انکے اہل خانہ خود کشی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کرتے چلے آرہے ہیں کے بعد انہوں نے موقع پر پولیس کو بلانا کیوں ضروری نہیں سمجھا ، کیا اب تک کوئی پولیس والا کرائم سین دیکھنے میں کامیاب ہو سکا ہے ، کیا شواہد مٹا کر لڑکی کو دفنانے کی کوشش نہیں کی گئی ،کیا پوسٹ مارٹم رپورٹ بدلنے کے لئے نوٹوں کی بوریوں کے منہ نہیں کھولے گئے ،کیا سول اسپتال کے اردگرد رپورٹ بدلوانے کے لئے سارا دلال نہیں پھرتے رہے ، یہ ساری حرکتیں ثابت کرتی ہیں کہ کائنات کے ساتھ ایم ایل اے کے گھر میں شیطانی کھیل کھیلا گیا ، جسے بعد میں خودکشی بنانے کے لئے بات 164کے بیانات تک پہنچ گئی ہے،سلامت مسیح جس نے ایک لاکھ روپیہ بھی کبھی زندگی میں نہیں دیکھا ہوگا اسکی مری ہوئی بچی کے عوض کئی لاکھ ادا کئے گئے ہوں گے ، شاید اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے ، چنانچہ ملزمان کی مرضی سے بیانات دینے میں اس نے بھی دیر نہیں لگائی ، جب سودا ہو گیا تو دیر کیسی ، مگراﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے ، وہ ضرور برس کے رہے گی ، سچ ہے بیٹیاں سانجھی نہیں ہوتیں ،غریبوں کی بیٹی کی عزت کا بھی مول ہوتا ہے اور اسکی مسخ شدہ لاش کی بھی قیمت لگانا کچھ مشکل نہیں ہوتا، یااﷲ غریبوں کو بیٹیاں دیتا ہے تو انکی حفاظت بھی خود کیا کر، کہاں ان بھیڑیوں میں معصوم کلیوں کو بھیج دیتا ہے جو کلیاں مسل کر ہاتھ جھاڑ تے ہوئے قانون جو پتا نہیں کہیں ہے بھی یا نہیں اس سے صاف بچ نکلتے ہیں حکومتی اراکین اسمبلی جو عوام کے منتخب نمائندے ہیں ، اس واقعہ پر چپ سادھ کر بیٹھے ہیں ،زبانیں ہی گنگ ہو گئی ہیں، اپنی پارٹی کا ایم ایل اے اور اسکا بیٹا جو ہیلتھ کمیٹی کا نامزدچیئرمین ہے اسکے بارے بات کرتے ہوئے ان سب کے پر جلتے ہیں ، سب چپ ہیں ، جو دن رات شہریوں کے حقوق کے جھوٹے علمبردار بنے پھرتے ہیں انکی زبانیں بھی گنگ ہوگئی ہیں ایک دن کی خبر بننے والی کمسن لڑکی کے حق میں آوازوں کا قحط ہے ، این جی اوز ، انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں کچھ پتا نہیں، اسکے حق میں کسی نے کیا بات کرنی سرمایہ داروں کی جھوٹی قسمیں کھانے والے بھی پیدا ہوگئے ہیں ، وہ ایسے نہیں ہیں، وہ شریف لوگ ہیں ، کسی کو برادری کی فکر کھائے جا رہی تو کسی کو اپنی پارٹی کا خیال ستا رہا ہے ، نتیجہ یہ کہ کوئی کائنات کی آواز بننے کو تیار نہیں، بیٹیاں واقعی سانجھی نہیں ہوتیں اسلئے کسی کو حکومتی رکن اسمبلی کسی وزیر کسی جھوٹے عوامی خادم اس بیٹی کا درد محسوس نہیں ہو رہا، شہباز شریف کوجلسوں سے فرصت نہیں ملی ، وہ تصویر بنوانے بھی مسیحیوں کی لٹی پٹی بیٹی کے گھر نہیں آیا ، مسیحی اس بدسلوکی پرخود ہی جاگ جائیں ، جن لوگوں کو انکی بچیوں کے لٹنے پر ملال نہیں وہ کیسے انکے لیڈر ہو سکتے ہیں ۔درندوں ، لٹیروں ، دھوکے بازوں اور منافقوں کے اس معاشرے میں سچ بولنے کاسودا بہت مہنگا اورسچائی کی قیمت بہت بھاری ہے ،مگر میرا رب جسے توفیق دے ۔
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.