کوئی شخص جگہ یا زمانہ یا تو اپنی اچھی خوبیوں کی وجہ سے
عوام، سماج اور اہل دنیا کے سامنے متعارف ہوتا ہے،یاپھر اجناس مذکورہ سے
چمٹے برے اوصاف اسے دوسرے ناحیے سے دنیا کی نظرمیں پیش کرتے ہیں ،جس کا کسی
عہد کا سماج حامی نہیں،اور نہ ہی اسے قدر کی نگاہ حاصل ہے۔
آئیے ہم خوبیوں پر بات کرتے ہیں جس بنیاد پر ہی کسی بھی چیز کے اہم یاغیر
اہم ہونے کا حکم لگایا جاسکتا ہے، خواہ وہ شیئ حسی ہویا معنوی ۔ کسی
شخص،جگہ یا زمانہ کی اہمیت کی تین وجہ ہوسکتی ہے،اس طور پر ان کی تین قسمیں
بھی بن جائیں گی:
۱-وہ شخص یا جگہ یا زمانہ بذات خود اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔اور اس
پہچان کی وجہ اس شخص کی جوہری شخصیت ہے جو اسے دوسروں سے منفرد کرتی ہے۔اسی
طرح بعض جگہیں قدرتی اعتبار سے بطور معدینیات یا پھر اپنی دیدہ زیب
اورپرکشش خوبصورتی کی بنیاد پر اور دیگر جگہوں کی نسبت اپنی ایک الگ شناخت
رکھتی ہیں۔اور یہی بات زمانے کے ساتھ بھیجڑی ہوئی ہے کہ اس کے خالق نے اس
کی قسم کھا کر اس کی شان اور عظمت کو بیان کیا ہے اور اس کے قرون بھی
فضیلتواہمیت میں متفاوت ہیں۔
۲-وہ شخص یا جگہ یا زمانہ بذات خود کسی اہمیت کا حامل نہ ہو،البتہ اس شخص
سے جڑا کوئی فرد اس کی پہچان بڑھاتا ہو۔بعینہ جگہ کی قدرتی کوئی امپورٹینس
تو نہ ہو لیکن اس جگہ سے کچھ تاریخی ایسی باتیں جڑی ہوں جو اسے دیگر
جگہوںسے پہچان میں الگ کرتی ہوں۔اسی طرح اس زمانے کی بطور خاص کوئی اہمیت
تو نہ ہو البتہ اس عہد سے جڑے واقعاتو عجائب اسے ایک منفرد مقام دیتے ہوں۔
۳-وہ شخص یا جگہ یا زمانہ خود بھی اہمیت کا حامل ہو اور اس سے جڑے افراد
اور واقعات واحوادث بھی اپنی ایک مثالی شان رکھتے ہوں۔
یہ تیسری اور آخری وجہ یا تقسیم، رمضان المبارک کے مبارک ایام سے گہرا تعلق
رکھتی ہے۔
چناں چہ شخص یا جگہ یا زمانےکی آخری تصنیف کی روشنی میں ماہ رمضان کی دیگر
مہینوں کے اوپر
اپنی ایک الگ سرداری ہے،جس کی وجہ ایک تو یہ ہےکہ یہ مہینہ بذات خود اہمیت
والا ہے،اس لیے اس کے پیدا فرمانے والے رب العالمین نے اسے یہ مقام بخشا
ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عمومی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں:"ایک رمضان دوسرے رمضان کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہے،
شرط ہے کہ وہ گناہ کبیرہ نہ ہوں"۔یہی فضیلت پنجوقتہ اور جمعہ کی نمازوں کو
بھی حاصل ہے۔اس حدیث کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جس کو امام مسلم نے
اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
اسی اللہ تعالی نےفرمایا:((شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدى للناس
..))[بقرۃ:۱۸۵]یہوہماہمبارکہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو لوگوں کی ہدایت
کا ضامن ہے۔
دوسرے یہ کہ اس ماہ سے جڑی خاص عبادتیں اس کی شان بڑھاتی ہیں جیسے:
روزہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:)) يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كماكتب
على الذين من قبلكم لعلكم تتقون))[بقرۃ:۱۸۳]
اےایمان والو تم پراسی طرح روزےفرض کیےگئے جس طرح یہ پچھلی امتوں پر فرض
تھے تا کہ تم اللہسے ڈ رنےوالے بن جاو۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:((من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہماتقدم من ذنبه))جس نےاخلاص
اوراجر کی امید سے ماہ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے تمام(چھوٹے) گناہ
بخش دیے گئے۔(بخاری)(بڑے گناہ توبہ سے معاف ہوتےہیں)
اور اس کے اجر وثواب کی حد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:"الصوم لی
وانا اجزی بہ"یعنی اس کے ثواب کی کوئی حد نہیں ،اس لیے کہ یہ میرے لیے اور
اس کا بدلہ میں دوں گا [جس کی کوئی تعیین نہیں ہمارے نزدیک، یہ ہماری عظمت
وکبریائی کے خلاف بات ہے]۔[یہ حدیث قدسی ہے]
روزے سے متعلق مذکورہ تینوں نصوص میں پہلے کا تعلق روزے کی فرضیت اور اس کی
ظاہری حکمت سے ہے جسے اللہ رب العالمین نے صراحت کے ساتھ "تقوی " کا نام
دیا ہے۔
دوسرے نص میں اس کے غیر محسوس ظاہری فائدے کی تحدید کی گئی ہے کہ یہ چھوٹے
گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔
تیسرے نص میں اس کی غیر محدود شان کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کی
نسبت خصوصا اپنی ذات سے کی اور اس کے ثواب کو بھی غیر محدود کردیا کہ اللہ
ہی کو اس کے بدلے کا علم ہے۔
تراویح:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:((من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبه))(بخاری)جس
نے اخلاص اورثواب کی امید سے قیام اللیل کا اہتمام کیا اس کے پچھلے(چھوٹے)
گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
صحیح احادیث کی روشنی میں اس کی تعداد مع وتر گیارہ رکعت ہے، اور یہی تعداد
دیگر ائمہ مسالک کے یہاں بھی مسنون ہے ، جس کی تائید کتب میں موجودان کے
اقوال اور اعترافات سے ہوتی ہے جو انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے
ضمن میں کیے۔
شب قدر:
اگرکسی کو اللہ تعالی کی توفیق سے یہ ایک رات مل گئی تو اس رات کی عبادت کا
ثواب ہزار مہینے کی
عبادت سے بہتر ہے۔جیساکہاللہ رب العالمین نے فرمایا:
((وما أدرك ما ليلة القدر. ليلة القدر خير من ألف شهر))[القدر:۲۔۳]
اور تمہیں کیا معلوم کہ قدر والی راتکیا ہے۔قدروالی رات ہزار مہینوں سے
بہتر ہے۔
یہ رات کسی ایک دن کے ساتھ خاص ہوکر نہیں،جیسا کہ سماج میں دیکھا جاتا ہے
کہ مسلمان اکیسویں، تیسویں،پچیسویں اور انتیسویں شب میں لیلۃ القدر کے لیے
کوشش نہیں کرتے اور ستائیسویں کی رات مساجد میں تل بھرکی جگہ نہیں ہوتی ہے
اور یہ تصور ہوتا ہے کہ یقینی طور پر یہی رات قدر والی ہے ،حالاں کہ اسے
عوام کی کم علمی یا جہالت یا پھر سماج میں چل پڑے رواج پر محمول کرسکتے ہیں
جس کا معالجہ ضروری ہے ۔
اس رات کے اس قدر فضائل ومناقب کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن سب سے اہم سبب یہ ہے
کہ اللہ رب العزت
نے اپنا کلام اسی رات لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر نازل کیا،جیساکہ اللہ
تعالی کا ارشاد ہے:
((َإنا أنزلناه في ليلة مباركة...)) [الدخان:۳]
بے شک ہم نے اس [قرآن] کو مبارک رات میں نازل کیا۔ صحیح قول کے مطابق اس
آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد "لیلۃالقدر"ہے۔یعنی قدر والی رات یا شب قدر۔
[تفسیر الطبری]
اور اس رات کی قدرومنزلت کے لیے اتنا ہی کافی تھا لیکناللہ رب العزت نے اس
رات کی
عبادتوں کو ہزار مہینے کی عبادات سے بہتر قرار دیا۔ اب جو رات اس قدر اہم
ہو اس کی شایان شان کچھ خاص ہوناہیچاہیے ،اسلیے سورۃ قدر کی آخری آیت سے
ماقبل کی آیت کا صرف ترجمہ ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی کے حکم سے فرشتے اور
جبرئیل امین بطور خاص اترتے ہیں اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ،سکون
وطمانینت اور ایک خاص قسم کا احساس پیش کرتی ہے۔
اعتکاف:
عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:"أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف
العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله،ثم اعتكف أزواجه من بعده"(بخاری
ومسلم)نبیکریمصلیاللہعلیہ وسلم نےرمضان کے آخری دس ایام کا اعتکاف کرتے تھے
یہاں تک کہ آپ نے وفات پائی، آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے
اعتکاف کیا۔
امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف سنت
ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے[تاحیات] مداومت برتی،اور ان کی وفات کے
بعد ان کی ازواج مطہرات نے نے اس عمل کو جاری رکھا۔[سبل السلام شرح بلوغ
المرام[۱/۵۹۳]
یہ رمضان کے آخری دس ایام کا خاص وقوف ہے،جس میں مسلمان اپنی جملہ ضروریات
سے فارغ ہوکر اللہ کے ذکر کے لیےخود کو ہلال عید تک مسجد میں روکے رکھتا
ہے۔اور یہی اعتکاف کہتے ہیں، اور یہ چند شرائط ،پابندیوں اورقیود کے ساتھ
منضبط ہے، جس کا ذکر ان شاء اللہ اس کے مستقل مضمون میں آئے گا۔
اس کے علاوہ عام ایام کی بعض عبادتیں بھی اس ماہ معظم سے جڑ کر ثواب وجزاء
میں بڑھ جاتی ہیں،
جیسے:ماہ رمضان میں اداکیا گیا عمرہ، ثواب میں حجمبرور کے برابر ہوجاتا
ہے۔جیسا کہ عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عمرۃ
في رمضان تعدل حجة"(مسلم)
امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" رمضان کا عمرہ حج کےبرابر ہوجاتا ہے"
یہ ثواب میں ہے، ایسا نہیں کہ یہ حج کی جگہ لے سکتا ہے اور جس پر حج فرض
ہوچکا ہے اس سے ساقط ہوجائے گا،اس لیے کہ علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے
کہ عمرہ فرض حج کی جانب سے کفایہ نہیں کرسکتا۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير [۲/۱۴۸]
تلاوت قرآن مجید:
اسی طرح تلاوت قرآن مجید اور اس کے مذاکرے کا اہتمام اس ماہ عظیم اور مبارک
کی ایک انفرادیت ہے ، حالاں کہ عام ایام میں بھی اس کی تلاوت باعث اجرو
ثواب ہے ، قرآن کا اچھا قاری نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا بروز قیامت ۔ ان
تمام فضائل کے باوجود رمضان المبارک میں جملہ عبادات کے لیے ملنے والی
توفیق یہ اللہ جل شانہ کی جانب سے بیش بہا تحفہ ہے ، جس کا بدل دیگر ایام
میں بہت کچھ لٹا کر بھی ممکن نہیں۔ اور اسی توفیق کا ایک جزء تلاوت قرآن
مجید ہے کہ بندہ خواہ قرآن مجید کا حافظ ہو یا غیر حافظ ،اللہ تعالی کی
رضاء وخوشنودی کے لیے وہ اس کی تلاوت کا کثرت سے اہتمام کرتا ہے ،بلکہ سید
الانبیاء امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رمضان کی ہر رات جبرئیل امین سے ملاقات کرتے
تھے اورقرآن کا مذاکرہ کرتے تھے۔اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی
صحیح میں نقل کیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ معظم میں قرآن کا مذاکرہ
کیوں نہ کرتے جب کہ اس ماہ کا سب عظیم تحفہ دنیائے انسانیت کے لیے قرآن
مجید کا اتارا جانا ہیہے جس کے بغیر پوری دنیا جام ہدایت کے لیےپیاسی تھی
اور جس کی ایک آیت نے اہل دنیا کی دنیا وآخرت دونوں بدل دی۔اللہ تعالی نے
فرمایا:((شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدى للناس ..))[بقرۃ:۱۸۵]
ماہ رمضان وہ مہینہ ہےجس میں قرآن نازل لیا گیا،جو لوگوں کو ہدایت دینے
والی کتاب ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ مہینہ کوئی عام مہینہ نہیں اور نہ ہی اس کے شب وروز عمومی
حیثیت کے حامل ہیں۔بلکہ یہ مہینہ اپنی جنس اور خود سے جڑی متنوععبادتوں اور
احداث و واقعات کے لحاظ سے مرتبت اورفضیلت میں بہت بڑھا ہوا ہے،جس کا
اندازہ اس کے ابتدائے ایام سے ہی لگا یا جاسکتا ہے،چناں چہ یہ مہینہ ہم پر
جوں ہی سایہ فگن ہوتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ،جہنم کے دروازوں
کو بند کردیا جاتا ہے اور شیا طین جکڑدیے جاتے ہیں۔جیساکہ بخاری اور مسلم
کی روایت میں وارد ہے۔ اس طرح خیرات و حسنات کی ایک باد بہارا چل پڑتی ہے ،
جس کی بھینی بھینی خوشبو سے دل ودماغ کو تروتازہ ہوجاتے ہیں۔ رمضان المبارک
اور اس سے جڑی عبادتوں کے احترام میں مسلمان ہرچھوٹے بڑے منکرات سے بچنے کی
کوشش کر لےجاتا ہے اور یہ عام دنوں میں ا س کے لیے آسان نہیں ہوتا۔
اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کو تمام مسلمانوں کی جہنم
سے آزادی کا ذریعہ بنادے،پوری دنیا کے احوال درست کردے، ہمیں ہر اس خیر کی
توفیق دے جس کی ہمارے نبی رحمۃ للعالمین نے دعاء مانگی ہے اور ہر اس
شروروفتن سے محفوظ کردے جس سے انہوں نے پناہ چاہی ہے۔ |