اسلام اور غیر اسلام کی آمیزیش کو تحلیل کیجئے!

 رمضان المبارک کی آمدنہ صرف امت مسلمہ کے افراد کے لیے بلکہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی خبر ہوتی ہے۔رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے لہذا اس مہینہ میں ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے اندر تقویٰ وپرہیزگاری اور راہِ خدا میں استقامت جیسی صفات پیدا ہوں۔اِسی کا نتیجہ ہے کہ اس ماہ میں ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت اور جذبہ خیر خواہی و خدمت ِ خلق میں بھی مسلمان عام دنوں کے مقابلہ زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں ۔یہ مہینہ جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اﷲ اور رسولؐ سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے قلب و فکر اور قول و عمل میں اُن اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کے لیے شعوری طور پر تیار ہونا چاہیے جن کا تقاضہ یہ مہینہ کرتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اِس کے عشروں کو اعلیٰ ترین خصوصیات سے مزین کیا گیا۔ پھر اسی ماہ میں زکوٰۃ وانفاق اور فطرے کا اہتمام بھی ہم کرتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں رمضان المبارک کی عبادات کے درجات مزید بلند کر دیے جاتے ہیں۔لہذاضروری ہے کہ اس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا جائے۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد ہو ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے تیار کر لیں۔ظاہر و باطن کو پاک کرنے اورتیار کرنے میں نیزتقویٰ کی روش اختیار کرنے میں سب سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ "روزہ"ہے۔اسی لیے اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ شعبان میں ادا کیے اور یہی عمل اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان المبارک کے تین اہم واقعات نے دنیا کی تصوری بالکل ہی تبدیل کر دی۔یہ تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد ،کامیابی سے ہمکنار ہوں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن نے حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے۔یہ واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی ان تمام نعمتوں کو اﷲ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے عطا کی ہیں۔اﷲ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اﷲ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جاتے ہیں۔اﷲ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریۂ ہائے افکار و نظریات سے چھٹکارا پایااور دلایا جا سکتا ہے۔اﷲ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اﷲ کے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔اﷲ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل بہت سے کام وہ ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اﷲ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس کی ضرورت نہیں ہے۔حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان کو وہی کامیابی میسر ہوگی جوہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے مقابلے ہوتی رہی ہے۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے ۔ یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت کی کامیابی تو ابدی ہے۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اﷲ کا گھر اور وہ مقام جو اﷲ کی عبادت کے لیے مختص کیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے ہمیشہ پاک رہنا چاہیے۔مسجد کی زمین اﷲ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اﷲ کے نام لینے والے اﷲ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اﷲ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، ان کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ مزیدوہ اﷲ کے آگے جھک جانے والے بن جاتے ہیں ساتھ ہی انسانوں سے خیر خواہی کے جذبات ابھرتے ہیں۔یہ تین واقعات ہمیں اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال یعنی رمضان المبارک کے استقبال میں ہمیں اپنے ظاہرو باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینا چاہیے اور ان چیزوں پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جن کے اختیار کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں لازماً کامیابی حاصل ہوگی انشااﷲ۔

متذکرہ گفتگو کے پس منظرمیں آج اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد و ملت ،بقا و تحفظ کے لیے اﷲ کی رسی کو چھوڑ کر ہمیں ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رائج ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی کہلائے گیبلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں ہوگی۔علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں،اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں ۔لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اﷲ کا دین غالب آجائے یا اﷲ کا کلمہعوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشت،نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔اس پس منظر میں یہ سوال لازماً اٹھنا ہی چاہیے کہ وہ کامل پروگرام کیا ہے جس کی بنا پر ہمہ جہت تبدیلی ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھیہمیں خسارے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لہذا وہ لوگ جو اسلام کو اسلامی نظام ِ حیات کی شکل میں نہ صرف اختیا ر کرتے ہیں بلکہ قائم بھی کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ اسلام اور غیر اسلام کی اس آمیزش کو ،جسے صدیوں کی رویات نے پختہ کر رکھا ہے،تحلیل کریں اور قدامت کے اجزاء کو الگ کرکے خالص اسلام کے اس جوہر کولے لیں، جو قرآن و سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ اس سب کے لیے نہ صرف بلند حوصلوں کی ضرورت بلکہ مضبوط سیرت اور صالح اخلاق و مستحکم ارادے کے انسان درکار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آپ خود کو اس کام کے لیے تیار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟یہ وہ کام ہے جو بنا یکسوئی کے ہو ہی نہیں سکتااور یہی رمضان المبارک کا وہ پیغام ہے جس کا ہم استقبال کیا چاہتے ہیں!
 

Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 145446 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.