لا قانونیت کا ننگا رقص

 تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
ایک بادشاہ متعدد علاقے فتح کرنے کے بعد اپنی فوج کے ہمراہ واپس اپنی سلطنت کی جانب رواں دواں تھا کہ اُسے راستے میں ایک صحت مند اور خوبصورت دوشیزہ نظر آئی جسے بادشاہ نے پکڑا اور اپنی سلطنت میں لے آیا جہاں پر بادشاہ نے اپنی کنیزوں کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس دوشیزہ کی خوراک اور لباس کا خاص خیال رکھا جائے جس پر کنیزوں نے اُس دوشیزہ کی خوراک اور لباس میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن دوشیزہ دن بدن کمزور ہوتی گئی جس کو دیکھ کر بادشاہ نے اپنے وزیر خاص کو طلب کر کے اس کمزوری کی وجہ پو چھی جس پر وزیر خاص نے بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مناسب خیال کرے تو محل کے ہر کونے میں جالہ بنوا کر اس دوشیزہ کی خوراک رکھ دے انشاء اﷲ تعالی اس دوشیزہ کی کمزوری کا معمہ حل ہو جائے گا وزیر خاص کی اس بات کو سن کر بادشاہ نے محل کے ہر کونے میں جالے بنانے کا حکم دیکر وہاں پر دوشیزہ کی خوراک کو رکھنے کے احکامات صادر کر دیئے دوشیزہ کو جب بھوک لگتی تو وہ ہر جالے کے پاس جا کر صدا لگاتی کہ جالہ دے نوالہ اور وہ وہاں سے اپنی خوراک نکال کر کھا لیتی کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ نے اُس دوشیزہ کو دیکھا تو وہ اُسے تندرست اور خوبصورت نظر آئی جس پر بادشاہ نے اپنے وزیر خاص کو طلب کر کے دوشیزہ کی تندرستی اور خوبصورتی کے راز کے بارے میں پو چھا تو وزیر خاص نے بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ درحقیقت تو یہ ہے کہ دوشیزہ کسی خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھتی تھی اسی لیے آپ کی جانب سے جو عزت و احترام کے ساتھ دوشیزہ کو خوراک ملتی تھی وہ اُسے راس نہیں آتی تھی لیکن جب اُسے بھیک میں ملنے والی خوراک ملی وہ تندرست اور خوبصورت بن گئی بالکل اسی طرح آج ہمارے ملک میں خانہ بدوش خاندان کے متعدد مذہبی و سیاسی قائدین جعلی پیر اور بالخصوص بیوروکریٹس جب تک لا قانونیت کا ننگا رقص نہ کر لیں انھیں امن و سکون نہیں ملتا تاریخ گواہ ہے کہ انگریز جب پورے ہندوستان پر قابض تھا تو اُس نے اپنے دور اقتدار میں کسی خانہ بدوش خاندان کے کسی فرد کو اعلی عہدے پر فائز نہیں کیا تھا چونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جس طرح ملاوٹ شدہ اشیا کے اثرات غلط نکلتے ہیں بالکل اسی طرح اگر خانہ بدوش کے کسی فرد کو اعلی عہدے پر فائز کیا تو اس کے اثرات بھی غلط نکلے گے ہاں البتہ وہ خانہ بدوش خاندان کے متعدد افراد کو کر نل اور بر یگیڈیر کے خطابات کے ساتھ ساتھ جاگیریں محض اس لیے دے دیتے تھے کہ وہ اپنوں کے ساتھ غداری اور اُن کے ساتھ وفاداری کرنے کے ماسٹر ماہنڈ تھے افسوس صد افسوس کہ 1947کے بعد خانہ بدوش خاندان کے افراد نے ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت بانی پاکستان لیاقت علی خان کو ایک جلسہ عام میں مروا دیا جبکہ اُس کے قاتل کو وہی پر محض اس لیے مروا دیا کہ کہیں اُن کے منحوس چہروں کو قاتل بے نقاب نہ کر دے لیکن بعد ازاں بے رحم وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ پورے پاکستان پر خانہ بدوش خاندان کے افراد نے قبضہ کر کے اعتماد پیار و محبت امن و امان بھائی چارے رشتے ناطوں کا خاتمہ جبکہ لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے یہی کافی نہیں مذکورہ خا نہ بدوش خاندان کے افراد اقتدار کے نشہ میں دھت ہو کر قانون کی ایسی دھجیاں اُڑانے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے کہ آج پورے ملک کے تمام اداروں میں لا قانونیت کا ننگا رقص جاری ہے جس کی چند ایک مثالیں میں اپنے قارئین کی نظر کر رہا ہوں کہ آپ اپنے ملک کے کسی تھانے میں چلے جائے وہاں آپ کو پڑی ہوئی کرسیاں زنجیروں میں جکڑی ہوئی نظر آئے گی بازاروں اور گلیوں میں لگائی گئی پانی کی سبیلوں کے گلاس زنجیروں سے جکڑے ہوئے نظر آئے گئے مساجدوں کے باہر دوران نماز پولیس کا پہرہ نظر آئے گا قومی تہواروں پر نماز پڑھنے والے افراد پرانی جوتیاں پہنے ہوئے نظر آئے گئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو قانون کے محافظ ان چھوٹے چھوٹے جرائم کا خاتمہ نہیں کر سکتے وہ بھلا بڑے جرائم کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں جن کی سر پرستی خانہ بدوش خاندان کے افراد کر رہے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں ضلعی وائس چیرمین جھنگ محمد اقبال جبوآنہ بڑی شاہانہ انداز میں گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون پر کسی سے باتیں کر رہے تھے کہ اسی دوران ٹریفک پولیس جھنگ کے سب انسپکٹر محسن عباس پکھرانہ نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ وائس چیرمین جھنگ کی گاڑی کو روک کر انھیں بڑے عزت و احترام کے ساتھ انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال نہیں کر سکتے چونکہ اس کے استعمال سے نہ صرف آپ کی جان بلکہ راہ گیروں کی جانوں کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے ویسے بھی قانون سب کیلئے یکساں ہے یہ سن کر مذکورہ وائس چیرمین جھنگ آ گ بگولا ہو کر مذکورہ ٹریفک پولیس جھنگ کے سب انسپکٹر کو کافی تگ و دو کے بعد معطل کروا دیا یہ ہے ہمارے ملک کے قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے والے مذکورہ سب انسپکٹر کا انجام جس کو دیکھ کر باقی ماندہ ٹریفک پولیس جھنگ کے اہلکار ایسے سہم گئے ہیں جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ تو آج میں یہاں بڑی معذرت کے ساتھ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ ساتھ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا یہی انجام ہو نا چاہیے شاید میرے اس سوال کا جواب مذکورہ شخصیات نہ دے سکے چونکہ اس ملک کے سیاست دان الیکشن کے دوران کروڑوں روپے کا عطیہ ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کو دیکر ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور بعد ازاں لاقانونیت کا ننگا رقص کر کے ملک وقوم کو بھکاری ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں یہی کافی نہیں یہ وہ ناسور ہیں جو حرام کی کمائی گئی دولت کے بل بوتے پر متعدد ٹی وی چینل اخبارات اور کیبل مالکان بن بیٹھے ہیں تاکہ ان کے کالے کرتوت عیاں نہ ہو سکے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان ناسوروں کے رکھے گئے ملازمین جن میں نیوز ایڈیٹر اور انچارج نمائندگان سر فہرست ہیں اپنے آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقدس ان اداروں کو طوائف کا کوٹھا بنا چکے ہیں جو وہاں پر آنے والے نمائندوں کو میرٹ پر نہیں بلکہ نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر پریس کارڈ جاری کرتے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ان کا ایک پیروکار صحافی گلے میں کارڈ لٹکائے سارا دن مختلف اداروں میں گھومتا رہا لیکن اُسے کہیں سے کچھ نہ ملا شام کو اُسے بھوک لگی تو واپس اپنے گھر آنے لگا تو اُس کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ تھا تو اُس نے سو چا کہ میں اب گھر کیسے جاؤں گا وہ اسی سوچ میں مبتلا تھا کہ اسی دوران اُسے ایک رکشہ نظر آیا جس پر بیٹھ کر وہ اپنے گھر کے قریب آیا تو یہ کہہ کر وہ رکشہ سے اتر کر جانے لگا کہ تم میرا یہ کارڈ دیکھ رہے ہو کہ میں ایک صحافی ہوں اگر میں چاہوں تو نہ صرف تمھیں بلکہ تمھارے رکشے کو ابھی بند کروا سکتا ہوں لیکن تم ایک غریب رکشہ ڈرائیور ہو جاؤ میں نے تم کو معاف کیا یہ کہہ کر وہ بغیر کرایہ ادا کیے جانے لگا تو اسی دوران رکشہ ڈرائیور نے اُس صحافی کا گریبان پکڑ کر کہا کہ ماما میرا کرایہ تیرا باپ دے گا ویسے بھی تم جس اخبار کے نمائندے ہو میں اُس اخبار کا بیوروچیف ہوں درحقیقت تو یہ ہے کہ ان ناسوروں کی وجہ سے صحافت جیسا مقدس پیشہ جسے پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے بد نام ہو کر رہ گیا ہے
بک گیا دوپیر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک ایک سچ کو لیے یونہی کھڑا رہا

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 471915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.