حضور ِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی آمد کا
اِس قدر اشتیاق اور انتظار رہتا کہ آپؐ دو ماہ قبل ہی سے اُس کے آنے کی
تیاری اور اُس کے استقبال میں لگ جاتے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ
تعالیٰ سے یہ دُعاء مانگتے: ’’ترجمہ: اے اﷲ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کے
مہینوں میں برکت عطاء فرمادیجئے اور ہمیں رمضان کے مہینے تک (سلامتی کے
ساتھ) پہنچادیجئے!۔‘‘ (مسند احمد)اور جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں سے فرمایا کرتے: ’’ رمضان کے صحیح حساب کی غرض سے
شعبان کے چاند (اور اُس کی تاریخوں کے حساب کو) خوب اچھی طرح محفوظ کرلیا
کرو!۔‘‘ (مستدرک حاکم)اور جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
رمضان کی آمد کی خوشی میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے پوچھتے کہ تم کس کا
استقبال کر رہے ہو اور کون تمہارا استقبال کر رہا ہے؟۔‘‘ (الترغیب
والترہیب)پھر جب رمضان کا مہینہ شروع ہونے کے قریب ہوتا تو آپ رمضان
المبارک کے حوالے سے صحابہ کرام میں وعظ و نصیحت فرماتے ، جس میں ماہِ
رمضان کی عظمت و فضیلت، اُس کے انوارات و برکات اور اُس کے فوائد و ثمرات
بیان کرکے اعمالِ صالحہ اور نیک کاموں کی ترغیب دی جاتی اور اِس کے
بالمقابل اِس ماہِ رمبارک کے حقوق سے پہلو تہی کرنے، اِس کے اجر و ثواب سے
آنکھیں چرانے اور اِس کے فیوض و اثرات سے محروم رہنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کے
عذاب اور اُس کی ناراضگی سے ڈرایا دھمکایا جاتا اور قبر و حشر کی اندگی اور
آخرت کی فکر کا دیا اُن کے ویران دلوں میں جلایا جاتا۔
چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں میں بیان فرمایا کہ اے لوگو! تمہارے
اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا اور مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات
(شبِ قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض
فرمایا ہے، اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔
جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا
ہے جیساکہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کس فرض کو
ادا کرے وہ ایسا ہے جیساکہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا
ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔
اس مہینہ میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ
افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا
اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب
میں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ!
ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے، تو
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب
تو اﷲ تعالیٰ ایک کھجور سے کوئی افطار کرادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا
ایک گھونٹ لسی پلادے اس پر بھی مرحمت فرمادیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس
کا اوّل حصہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ
آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (و خادم) کے بوجھ کو ہلکا
کردے اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی عطاء فرماتے ہیں۔
اور اس میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو، جن میں سے دو چیزوں سے تم اﷲ
تعالیٰ کو راضی کرلو گے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارۂ کار
نہیں۔ وہ دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے وہ کلمہ شہادت اور
استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے
پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے اﷲ تعالیٰ (قیامت کے دن)
میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے
پیاس نہیں لگے گی۔(صحیح ابن خزیمہ)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوئی تو حضور
صلی اﷲ علیہ نے کھڑے ہوکر اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا اے
لوگو! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے دُشمن جنات (شیاطین) سے خود ہی نمٹ لیا ہے( کیوں
کہ انہیں قید کردیا ہے) اور تم سے دُعاء قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے اور
فرمایا ہے: ’’مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔‘‘توجہ سے سنو!
اﷲ تعالیٰ نے ہر سرکش شیطان پر سات فرشتے مقرر فرمادیئے ہیں اور وہ رمضان
ختم ہونے تک چھوٹ نہیں سکتا۔ غور سے سنو! رمضان کی پہلی رات سے لے کر آخری
رات تک آسمان کے تمام دروازے کھلے رہیں گے، اور اس مہینہ میں ہر دُعاء قبول
ہوتی ہے ۔ جب آخری عشرہ کی پہلی رات ہوتی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم لنگی کس
لیتے اور عورتوں کے بیچ میں سے نکل جاتے اور اعتکاف فرماتے اور رات بھر
عبادت فرماتے۔ کسی نے پوچھا لنگی کسنے کا مطلب کیا ہے؟ حضرت علی رضی اﷲ عنہ
نے فرمایا ان دنوں میں عورتوں سے جدا رہتے۔(الترغیب و الترہیب)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جب ماہِ رمضان قریب آگیاتو حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم نے مغرب کے وقت مختصر بیان فرمایا، جس میں ارشاد فرمایا:
’’ رمضان تمہارے سامنے آگیا ہے اور تم اس کااستقبال کرنے والے ہو۔ غور سے
سنو! رمضان کی پہلی رات میں ہی اہل قبلہ (یعنی مسلمانوں میں سے) ہر ایک کی
مغفرت کردی جاتی ہے۔(کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال)
حضرت عبادہ بن صامر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نے رمضان المبارک کے قریب ارشاد فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو
بڑی برکت والا ہے، حق تعالیٰ شانہ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور
اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتے ہیں، خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں، دُعاء کو قبول
کرتے ہیں، تمہارے تنافس کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ سے فخر کرتے ہیں، پس اﷲ
کو اپنی نیکی دکھلاؤ بد نصیب ہے وہ شخص جو اِس مہینہ میں بھی اﷲ کی رحمت سے
محروم رہ جاوے۔(معجم طبرانی)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ
آیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے
جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اِس رات سے محروم رہ
گیا، گویا ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں
رہتا مگر وہ شخص کو حقیقتاً محروم ہی ہے۔(سنن ابن ماجہ)
مذکورہ بالا تمام احادیث سے چند اُمور ثابت ہوتے ہیں: اوّل یہ کہ رمضان
المبارک کے آنے کا استقبال حضور صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان کے ختم ہونے سے
پہلے ہی شروع فرمادیتے تھے اور لوگوں میں وعظ و نصیحت کرکے رمضان المبارک
میں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اﷲ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کے لئے
اُنہیں تیار فرماتے تھے۔دوسرے یہ کہ رمضان المبارک کی سب سے مقدس اور
بابرکت رات (شبِ قدر) میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبادت کرنے کی بہت زیادہ
ترغیب اور تاکید کی ہے کہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ تیسرے یہ کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے روزوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے
اُمت پر فرض قطعی ہونا بتلایا ہے جس کا بغیر کسی عذرِ شرعی کے چھوڑنا کبیرہ
گناہ ہے اور اِس سے آدمی فاسق و فاجر ہوجاتا ہے۔ چوتھے یہ کہ رمضان المبارک
کی مقدس راتوں میں (تراویح کے) قیام کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے سنت قرار
دیا ہے۔ اسی وجہ سے تمام ائمۂ اسلام نے رمضان المبارک کی راتوں میں تراویح
کے سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ |