پاکستان میں مختلف مکتب فکر کے علما نے ملک کے کونے کونے
میں دینی مدارس قائم کر رکھے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مدارس میں
قوم کی لاکھوں بچیاں اور بچے زیر تعلیم ہیں اگر مدارس کے منتظمین کو دیکھا
جائے تو تعلیمی معیاراور دینی اقدار کے فروغ کے حوالے سے مایوسی ہوتی ہے اس
لئے کہ ان مدارس سے اکثر و بیشتر ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ ہر انسان کا
سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ان مدارس میں معصوم بچوں پر جہاں جسمانی تشدد کیا جاتا ہے وہاں ایسے شرمناک
واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن میں دینی قاری صاحبان یا منتظمین معصوم بچوں
کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کرتے ہیں انہی مسائل کے پیش نظر مخلتف مسالک کے
علما نے دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدارس کے روایتی سسٹم کو
ایک نئی جہت دی اور اپنے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم
کا بھی سلسلہ شروع کیا ایسے علما میں سے سر فہرست نام علامہ ڈاکٹر طاہر
القادری کا ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر پاکستان میں ایسے ماڈل مدارس قائم
کئے اس کے بعد انہوں نے ان جدید مدارس کا ایک مربوط سسٹم پوری دنیا میں
پھیلا دیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا مرکزی مدرسہ یا یونیورسٹی لاہور میں قائم ہے جس
کو منہاج القرآن کے دیگر اداروں کے لئے مادر علمی ہونے کا اعزاز حاصل
ہے۔منھاج یونیورسٹی میں گزشتہ روز پیش آئے ایک واقعہ نے جدید طرز کے دینی
مدارس کی کارکردگی پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔یہ یقین سے کہا جا
سکتا ہے کہ ایسا واقعہ کوئی اکلوتا نہیں ہے بلکہ اسی نوعیت کے واقعات ہر
روز قدیم و جدید طرز کے مدارس میں پیش آتے رہے ہیں واقعہ یہ ہے کہ منھاج
اسلامک یونیورسٹی کی طالبات نے سحری میں ناقص غذا کی فراہمی کے حوالے سے
یونیورسٹی انتظامیہ کے نوٹس میں لانا چاہا تو یونیورسٹی کے منتظم اور ڈاکٹر
طاہر القادری کے دست راست سمجھے جانے والے خرم نواز گنڈا پور نے نوجوان
بچیوں کے ساتھ اتنہائی قابل اعتراض رویہ اپنایا جس کی ویڈیو اس وقت سوشل
اور الیکٹرانک میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
ایک اسلامک یونیورسٹی میں جس طرح گنڈا پور صاحب نے اسلامی اخلاق و تہیذیب
اور اسلامی اقدار کا جنازہ نکالا اس پر جنتا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اس
پر مستزاد جب گنڈا صاحب کی بچیوں کے ساتھ ناروا اور بدسلوکی کی ویڈیو سامنے
آئی تو انہوں نے اپنے غیر اخلاقی رویے پر معذرت کرنے کی بجائے جھوٹ کا
سہارا لیتے ہوئے معصوم بچیوں کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ
بچیاں رات کے وقت کسی پارٹی میں شرکت کی اجازت چاہتی تھیں اس لئے میں نے ان
سے سخت لہجے میں بات کی۔حالانکہ وائرل ہونے والی ویڈیو میں صاف دیکھآ جا
سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں گنڈا پور صاحب بے بچیوں کو بولنے کی ہی
اجازت نہیں دی اس کے علاوہ خود بچیوں کا موقف سامنے آچکا ہے جس میں ان کا
کہنا ہے کہ ہم ناقص غذا کے حوالے بات کرنا چاہتی تھیں لیکن ہمیں نفسیاتی
طور پر اتنا ٹارچر کیا گیا کہ ہم بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہیں
پائیں۔
منھاج اسلامک یویورسٹی کے گزشتہ دن کے شرمناک واقعہ نے یہ ثابت کر دیا ہے
کہ اسلام کے نام پر جدید تقاضوں سے ہم دینی مدارس بھی اسی ڈگر پر چل رہے
ہیں جس پر روایتی دینی مدارس چل رہے ہیں۔اس حوالے سے کسی ایک مسلک کی تخصیص
نہیں ہے بلکہ تمام مسالک کے روایتی و غیر روایتی مدارس میں صورت حال بہت
خراب ہے۔حتی بہت سے واقعات میں جدید طرز پر قائم مدارس میں بچیوں کو جنسی
ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن معاشتی مجبوریوں کی وجہ سے بچیاں ایسے
واقعات پر خآموشی اختیار کرتی ہیں لیکن اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اس واقعہ
کو ایک ٹیسٹ کیس سمجھتے ہوئے پورے پاکستنان میں قائم روایتی و جدید دینی
مدارس کے تعلیمی و انتظامی سسٹم کا جائزہ لیا جائے۔اور قوم کے مستقبل معصوم
بچوں اور بچیوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھنے والوں کے خلاف کاروائی کی
جائے۔
ایک اسلامک یونیورسٹی میں خرم نواز گنڈا پور نے چند بچیوں کی عزت نفس کی
دھجیاں نہیں بکھیری ہیں بلکہ پوری قوم کی بچیوں کی عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالا
ہے اس صورت حال میں وزیر اعظم پاکستان،آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کو
فوری نوٹس لینا چاہیئے تاکہ دینی مدارس کے نام پر کاروبار کرنے والوں کو
قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہ ملے سکے۔
|