رمضان المبارک میں حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے معمولات

اﷲ تعالیٰ کے جملہ احکامات و ارشادات اور اوامر و نواہی کو صحیح صحیح بجالا نا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک ادا کرنا حضور ِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک طور طریقوں ، نیک اور حسین اداؤں اور نورانی سنتوں پر عمل کئے بغیر کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ اِس لئے کہ احکاماتِ الٰہیہ کے سب سے بڑے مفسر اور شارح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور آپؐ ہی اُنہیں عملی زندگی کا جامہ پہناکر اقوام عالم کی آنکھوں کے سامنے پیش کرنے کے سب سے زیادہ حق دار بھی ہیں۔

من جملہ اُن احکامات کے ایک بڑا اور اہم ترین حکم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر رمضان المبارک کے روزوں کا ہے، جس کی عملی اور مشاہداتی تفسیر و تشریح رمضان المبارک میں سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک اور نورانی معمولات ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعاء مانگا کرتے : ’’ترجمہ: اے اﷲ! ہمیں رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطاء فرمادیجئے اور رمضان تک ہمیں پہنچادیجئے!۔‘‘ (مسند احمد)اور شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو لوگوں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے: ’’ رمضان کے صحیح حساب کی غرض سے شعبان کے چاند (اور اُس کی تاریخوں کے حساب کو) خوب اچھی طرح محفوظ کرلیا کرو!۔‘‘ (مستدرک حاکم)اور جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کی آمد کی خوشی میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے پوچھتے کہ تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور کون تمہارا استقبال کر رہا ہے؟۔‘‘ (الترغیب والترہیب) اور ماہِ رمضان کے چاند کے دیکھنے کا بڑی خصوصیت اور شوق کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اہتمام فرماتے ۔ اورجب رمضان کا چاند نظر آجاتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعاء پڑھا کرتے: ’’ترجمہ: اے اﷲ! اِس چاند کو ہم پر امن و امان اور سلامتی و اسلام اور اُس چیز کی توفیق کے ساتھ جسے آپ پسند فرماتے ہیں اور جس سے آپ راضی ہوتے ہیں ظاہر فرمادیجئے! (اور پھر چاند سے مخاطب ہوکر فرماتے اے چاند!) ہمارا اور تیرا پالنے والا اﷲ تعالیٰ ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ: (اِس کے بعد) جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنا ازار بند کس لیتے ، پھر جب تک رمضان گزر نہ جاتا اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا، نماز میں اضافہ ہوجاتا ، دُعاء میں آہ و زاری بڑھ جاتی اور آپؐ کا رنگ سرخ ہوجاتا۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں صدقہ و خیرات کے کاموں میں سے زیادہ سخی تھے، اور آپؐکی زیادہ سخاوت رمضان کے مہینہ میں اُس وقت ہوتی تھی جب آپؐ سے حضرت جبریل علیہ السلام ملاقات کرتے تھے ، اور آپؐ سے حضرت جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے تھے، یہاں تک کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم (رمضان میں) حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے تھے۔ پس جب آپؐ سے حضرت جبریل علیہ السلام ملاقات کرتے تھے تو آپؐ صدقہ و خیرات کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے اپنے حجرے کے قریب (باجماعت نمازِ تراویح کے لئے) ایک چٹائی بچھانے کا حکم دیا، تو میں نے ایک چٹائی بچھادی ، پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اُس چٹائی پر تشریف لائے اور مسجد میں موجود حضرات کو رات کے ایک لمبے حصہ تک تراویح کی نماز پڑھائی۔ دوسرے دن بھی یہی عمل کیا۔ پھر جب تیسرا دن آیا تو مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھر گئی لیکن اِس رات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھانے کے بعد گھر تشریف لے آئے اور ترایح کی نماز لوگوں کو نہیں پڑھائیں ، پھر اگلے دن آپؐ نے اِس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ فرمایا کہ میں نے اِس لئے ایسا کیا تھا تاکہ ترایح کی نماز تمہارے اوپر فرض ہی نہ کردی جائے۔‘‘ (مسند احمد مختصراً)بعد میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا بھی آپؐ سے یہی سوال جواب ہواتھا جس سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اپنے نورِ بصیرت اور فراست ایمانی سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منشاء و مقصد کو سمجھ گئے تھے اور پھر جب نمازِ تراویح کی فرضیت کا امکان بعد میں ختم ہوگیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ کے اسی منشاء و مقصد اور لوگوں کے شوق کی تکمیل کرتے ہوئے دوبارہ ایک مسجد میں ایک امام کی اقتداء میں بیس رکعت تراویح کا باقاعدہ اجراء فرمایا جو اُس وقت سے لے کر آج تک اور ان شاء اﷲ قیامت کی صبح تک شرقاً ،غرباً، شمالاً، جنوباً بدستور باقی رہے گا۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ سحری کھاتے ہوئے اگر آپؐ کسی صحابی کر دیکھ لیتے تو اُسے بھی اپنے ساتھ سحری کھانے کے لئے بلالیتے اور ارشاد فرماتے کہ : ’’آؤ! اور برکت کا کھانا کھا لوا!۔‘‘ چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن حارث رضی اﷲ عنہ ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوا کہ آپؐ سحری نوش فرمارہے تھے، توآپؐ نے فرمایا کہ یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اﷲ نے تم کو عطاء فرمائی ہے اِس کو مت چھوڑنا۔

حضرت معاذ بن زہرہ رحمۃ اﷲ علیہ سے مرسلاً روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم افطاری کے وقت یہ دُعاء پڑھتے: ’’ أَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَليٰ رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ ‘‘ترجمہ: اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا۔(ابوداؤد)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ افطار کرنے کی ابتداء کھجور سے فرماتے تھے۔‘‘ ( نسائی) حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم (مغرب کی )نماز پڑھنے سے پہلے چند کھجوروں سے (روزہ) افطار فرماتے تھے۔ اور اگر کھجوریں نہ ملتیں تو چند چھواروں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اور اگر وہ بھی میسر نہ آتے تو چند گھونٹ پانی سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ (ابوداؤد، ترمذی)ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم (مغرب) کی نماز سے پہلے روزہ افطار فرماتے تھے۔ (ترمذی)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کبھی روزہ افطار کرنے سے پہلے مغرب کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا(بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پہلے روزہ افطار فرماتے ) اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کیوں نہ ہو۔( اور اُس کے بعد مغرب کی نماز پڑھتے)(صحیح ابن حبان)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنا تہہ بند مضبوط باندھ لیتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی (عبادت کے لئے) جگاتے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے اہل خانہ کو (عبادت کے لئے) جگاتے تھے۔‘‘ (ترمذی) ایک دوسری روایت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنا تہہ بند مضبوط باندھ لیتے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار فرماتے تھے۔ ‘‘ (سنن بیہقی)ایک اور روایت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ داخل ہونے پر اپنے گھر والوں کو (عبادت کے لئے) جگاتے اور اپنا تہہ بند مضبوط باندھ لیتے تھے۔‘‘ (مسند احمد)حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں جس قدر محنت اور مشقت کے ساتھ عبادت فرمایا کرتے اِس کے علاوہ دوسرے دنوں میں اتنی محنت اور مشقت نہ فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے اور یہ ارشاد فرماتے تھے کہ ’’شبِ قدر‘‘ کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کیاکرو!۔‘‘(صحیح بخاری) حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے بروایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف فرمایا تو آپؐ کو بتایا گیا کہ جس چیز (شبِ قدر) کو آپؐ تلاش فرمارہے ہیں وہ آپؐ سے آگے ہے۔ پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف فرمایا تو آپؐ کو بتایا گیا کہ جس چیز (شبِ قدر) کو آپؐ تلاش فرمارہے ہیں وہ آپؐ سے آگے ہے۔ پھر آپؐ نے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا(جس میں آپؐ کو ’’شبِ قدر‘‘ بتلادی گئی) ۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق)

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.