آج کل معاشرتی مسائل میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوگئی
ہے۔ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ کسی زمانے میں مشترکہ فیملی
سسٹم باعث فخر تھا۔بڑے بوڑھے گھر کی برکت تھے۔وہ چھوٹوں کی نہ صرف رہنمائی
کرتے بلکہ تمام فیصلوں کے حقوق بھی ان کے ہاتھ میں ہوتے۔ گھر کے تمام بیٹے
اور داماد اماں ابا کے ہاتھ میں ایک مقررہ رقم رکھتے اور باقی رقم اپنے گھر
والوں کی ضروریات کے لئے اپنے پاس رکھتے ۔ہر طرف راوی چین ہی چین لکھتا۔پھر
معاشرے میں ترقی کی نام نہاد لہر اٹھی۔ میڈیا نے فاصد خیالات پھیلائے۔
ساس کے لئے اماں بیگم کے بجائے بڑھیا اور بہو کے لئےدلہن بیگم کے بجائے
چڑیل کا لقب غائبانہ طور پر سننے میں ملنے لگا۔ کسی زمانے میں ساس بہوئیں
وضع داری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھصلاح مشورے کرتی نظر آتیں تھیں۔گھر کے
کام کاج بھی مل جل کر کیے جاتے تھے۔رشتے بیاہ کرتے وقت شرافت اور دین داری
کی اہمیت تھی۔صبح دیر سے اٹھنا اور رات گئے تک جاگنا اوباش لوگوں کا خاصہ
سمجھا جاتا تھا ۔مگر اب تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔اب رہن سہن سے لے کر
خاندانی معاملات سب انتشار کا شکار ہیں۔ رہی سہی کسر انڈین سوپ سیریز نے
پوری کردی ہے۔اب خاندانی سیاستیں عروج پر ہیں۔فیشن کے نام پر بے لباسی عروج
پر ہے۔ محبت کے نام پر ہر دوسرے شخص کو بخار چڑھا ہوا ہے۔ طلاق کی شرح بڑھ
گئی ہے ۔اس سارےانتشار کی زمہ داری جہاں مرد حضرات پر عائد ہوتی ہے کیونکہ
اللہ نے انصاف کا میزان ان کے ہاتھ میں دیا ہے۔مگر اس کی زمہ داری عورتوں
پر ذرا زیادہ آتی ہے۔ مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں یہ کہانیاں ،یہ نظمیں
کہاں سے ان کے مرکزی خیال مجھے کہاں سے ملتے ہیں۔تو میرا جواب یہی ہوتا ہے
کہ ایک لکھاری آئینے کی مانند ہوتا ہے وہ وہی دکھاتا ہے جو اس کے گردو پیش
میں رونما ہورہا ہوتا ہے۔اس کا بیان میں نے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے۔
یہ میرا کاغذ اور قلم کا جو ساتھ ہے۔
اس میں چھپی بنت حوا کی ہزار داستاں ہیں ۔
روز دھارتی ہے مونا اک نیا بہروپ
جیتی ہے ہر اک عام ناری کی زندگی۔
ان کے خواب۔۔۔
ان کے اندیشے۔۔۔۔
یہ بنت حوا پر کیسا عذاب ہے؟
مگر اے بنت حوا! تجھ سے بھی کچھ شکوہ ہے مجھے۔
تو عورت ہوکر ہی عورت کی دشمن ہے؟
ساس بھی تو ،بہو بھی تو۔۔۔
ماں بھی تو، بہن بھی تو۔۔۔
سوتن بھی تو،سجنی بھی تو۔۔۔
پھر کیوں یہ عدم مساوات ہے؟
کیا تجھے اپنی ہم ذات سے اس قدر خار ہے؟
مرد کی اس دنیا کا محور تو تیری ذات ہے۔
پھر بھی تجھ میں ذرا سی لاج نہیں ہے۔
کیوں جل جاتی ہیں بہوئیں یہاں؟
کیوں بوڑھی ہوتی رہتی ہیں بن بیاہی بیٹیاں ؟
کیوں بوڑھی مائیں راہیں تکتی رہتی ہیں؟
کیوں ہیں یہ طلاق کی گالیاں یہاں؟
کیوں ہیں بدکرداریوں کے الزام یہاں؟
کیوں ہیں جہیز کے تقاضے؟
کیوں ہیں چاند سی بہووں کی خواہشات؟
تو ایک روپ میں مہان بن کر دوسرے روپ کو کاٹتی ہے۔
ایک جگہ مظلوم ہوکر دوسری جگہ ظلم کی فصل بوتی ہے؟
اے کاش بے خبر تو یہ جان جائے کہ کیا ہے تیرا مقام؟
اگر دیکھا جائے تو درحقیقت ہر قضئے میں ایک عورت ہی دوسری عورت کے ساتھ
بدسلوکی کا باعث ہے۔بہت سی بہنوں کو میری یہ بات بری لگے گی ۔مگر حقیقت یہی
ہے کہ آج کی عورت چمکدار خواہشات کا ملمع چڑھائے پورے معاشرے کو بلی پر
چڑھا رہی ہے ۔وقت ملے تو سوچئے گا ضرور ۔ |