ظلم کا نظام

ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ ہم نے کئی سیاست دانوں کو کہتے سنا کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے، لیکن ظلم کا نظام نہیں۔ پاکستان میں اس وقت کون سا نظام نافذ ہے، اس پر تو عوام ہی رائے دے سکتے ہیں، لیکن جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے عوام سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے کہ کراچی میں 146ظلم کا نظام145 چل رہا ہے۔ کراچی قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک مختلف حوالوں سے احساس محرومی اور سیاسی ظلم کا نشانہ بنتا رہا ہے، لیکن عوام اس کے عادی ہوچکے ہیںکہ کراچی کا کوئی والی وارث نہیں۔ اہل کراچی ظلم کا ایسا نظام بھی دیکھ چکے ہیں کہ شہر بھر میں موت کا رقص جاری رہتا اور اس کو روکنے والا دُور دُور تک نظر نہیں آتا تھا۔ چالیس برسوں میں کراچی کی اب وہ حالت کردی گئی ہے کہ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے بھی بڑا جگر گوشہ چاہیے۔ کراچی میں تمام نمائندوں نے ترقیاتی کاموں کے نام پر سرسبز شہر کو صحرا و کھنڈرات بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پرویز مشرف دور سے لے کر آج تک کراچی میں سڑکوں کے دونوں اطراف درختوں کو بے دردی سے کاٹا گیا اور بتدریج شاہراہوں سے نایاب درخت غائب ہوگئے۔ پارک بنانے کے لیے ایک شہری حکومت نے اپنی پوری قوت صرف کردی، لیکن دوسری شہری حکومت نے چائنا کٹنگ کرکے پارکوں کو اجڑا چمن بنادیا۔ کراچی کے پاس پانی کا سمندر ہے لیکن سب نے اس کو استعمال نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے، کیونکہ سمندر کا پانی استعمال کے قابل ہوگیا تو غیر قانونی طور پر پانی کی فرو خت سے اربوں روپے کراچی کے عوام سے وصول کون کرے گا۔ کرپشن کی وجہ سے متوسط علاقوں میں بلند بالا عمارتیں بنادی گئیں۔ بے ہنگم بڑھتی آبادکاری کو کنٹرول کرنے والے اداروں نے چھوٹے مکانات پر غیرقانونی بڑی تعمیرات کی اجازت دے کر وسائل کی کمی کو جنم دیا۔ کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے جانے والوں نے کراچی کو ہی موئن جودڑو بنادیا۔ عروس البلاد کہلانے والا کراچی، اب شہر خموشاں کی طرح تاریک و خوفناک ہوتا جارہا ہے۔ مضافاتی علاقوں میں پانی کی فراوانی کے سبب عام شہری پہاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دینے لگے تھے، لیکن اب غریب محنت کش صبح کام تلاش کرنے جاتا ہے تو خواتین اور بچے پانی کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کراچی، بلوچستان کے دور افتادہ دیہات کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔جہاں ظلم کے نئے نئے مدارج سے کراچی کے عوام آشنا ہوتے جارہے ہیں تو وہیں سب سے بڑا ظلم بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ کراچی جیسے گنجلک شہر میں بجلی کی ضرورت ایسے ہی ہے، جیسے جسم کو زندہ رہنے کے لیے سانس کی ضرورت ہوتی ہے۔ رہائشی عمارتوں میں رہنے والوں کی مثال کسی جیل کے بند وارڈ کی طرح ہے، جہاں روشنی، ہوا اور پانی کا انتظام نہیں ہوتا۔ رہائشی پلازوں میں زیادہ سے زیادہ فلیٹس بنانے کی روش کی وجہ سے کشادہ فلیٹس کا تصور ناپید ہوگیا ہے۔ دو ہزار گز پر بیس منزلہ عمارت کی تعمیر میں کس طرح عوام رہتے ہوں گے، ان کا حال ان سے ہی پوچھا جاسکتا ہے جو کروڑوں روپے دے کر صرف علاقے کی شہرت کی وجہ سے فلیٹ خرید لیتے ہیں، لیکن یہ عمارتیں باقاعدہ کسی منظور شدہ ہائوسنگ اسکیم کا حصہ نہیں ہوتیں، اس لیے پانی، گیس اور سیوریج کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ بجلی کا انتظام وقتی ہوتا ہے، اسٹینڈ بائی جنریٹر کچھ ماہ بعد ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں، یوپی ایس کے ذریعے کچھ وقت تک مصنوعی روشنی حاصل کرلی جاتی ہے، لیکن لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے کی وجہ سے بیٹریاں بھی بیک اپ چھوڑ دیتی ہیں۔ پانی اسٹوریج کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بدترین تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پوش علاقوں میں پانی اور بجلی کے مسائل نہیں، کیونکہ پانی کے ٹینکر کی جتنی بھی قیمت ہو، کنٹریکٹر انہیں بروقت پانی فراہم کردیتا ہے۔ بنگلوز کے لیے اسٹینڈ بائی جنریٹرز کی وجہ سے انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہوگا کہ اہل کراچی 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ کراچی میں جب سے بجلی کی فراہمی کے ادارے کی نجکاری کی گئی ہے، اس کے بعد سے اس سفید ہاتھی نے صرف عوام کا خون ہی نچوڑا ہے۔ کتنے پاور پلانٹ کام کررہے ہیں، کتنے فیول پر چل رہے ہیں، کتنے گیس پر چل رہے ہیں، بجلی کے بل اتنے زیادہ کیوں ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ صرف ایک بہانہ درکار ہے کہ گرمی کا زور بڑھا تو فیڈر ٹرپ، بارش کا ایک قطرہ گرا تو سارا نظام ٹرپ، ٹرانسفارمر خراب ہورہے ہیں تو ہوتے رہیں، بجلی فراہم ہورہی ہے یا نہیں بل ادا کرنے ہیں، آپ کی شکایت بھی اُس وقت تک درج نہیں کی جاتی جب تک بجلی کا اضافی و ناجائز بل جمع نہ کرادیا جائے۔سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی و سماجی تنظیمیں، ایسا کون ہے جس نے لوڈشیڈنگ کے خلاف نمائشی مظاہرے نہ کیے ہوں۔ کراچی اس وقت ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت گرمی کی انتہائی شدید لہر سے دوچار ہے۔ درجہ حرارت کی حدت سے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں، لیکن ظلم کے اس نظام کے خلاف کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ظالموں کو نکیل ڈال سکے۔ ظلم کا اس سے بدترین نظام اور کیا ہوگا جہاں کسی مُردے کو نہلانے کے لیے پانی بھی میسر نہ ہو۔ کراچی کے پانی پر غیر قانونی بڑے رہائشی پلازوں اور بڑی بڑی رہائشی اسکیموں نے قبضہ کرلیا ہو۔ بجلی چوری ہو یا سینہ زوری، اس کا خمیازہ صرف غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جس شہر میں پینے کا پانی نہ ہو اور پانی خریدنے کے لیے منت سماجت کرکے ہزاروں روپے دے کر زندگی کی سانسیں چلانا پڑتی ہوں، جہاں گیس کی کمی اور بجلی کی عدم فراہمی ہو، جہاں بچوں کے لیے اچھے تعلیمی اداروں کی کمی ہو، جہاں گرمی سے بچائو کے لیے درخت اور پارکوں میں پودے موجود نہ ہوں، جہاں شام ڈھلے قبرستان کی رات کی طرح اندھیرے چھا جاتے ہوں، جہاں کسی کے کم قیمت فون اور قیمتی جان اسٹریٹ کریمنل سے محفوظ نہ ہو، جہاں اداروں میں کسی بھی کام کے لیے کرپشن فرض اوّلین ہو، جہاں چادر و چہار دیواری کا تحفظ نہ ہو، جہاں سائلین کو مہنگا انصاف ملے، جہاں بے روزگاری سے تنگ آکر نوجوان منشیات فروش یا چور ڈاکو بنیں، جہاں چند ہزار روپوں کی خاطر اجرتی قاتل پھرتے ہوں، جہاں غریب عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں، ہزاروں مریض گھنٹوں قطاروں میں لگ کر اپنی مرض کی بھی درست تشخیص نہ کرسکتے ہوں، جہاں غریب عوام کو اپنی بیماری جاننے کے لیے مہنگے ٹیسٹ کرانے اور مہنگی جعلی دوائیں لینی پڑتی ہوں، جہاں مہنگائی کے طوفان کے سبب غریب کے گھر سے ڈولی نہیں بلکہ غیرت کے جنازے اٹھتے ہوں، جہاں سرکاری تو کیا پرائیویٹ نوکری کے لیے سفارشیں کرانا پڑتی ہوں، جہاں گھر کے دوزخ میں رزق کی چند لکڑیاں ڈالنے کے لیے سڑک کنارے عزتیں فروخت ہوتی ہوں، جہاں ایک غریب کا بچہ اچھے تعلیمی ادارے میں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہو تو اس کو ظلم کا نظام نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔کیا اس ظلم کے نظام کو مستحکم کرنے میں ہمارا قصور نہیں، ہم نے اس پر بھی سوچنا ہوگا۔ ایسا نظام کسی ایک فرد کے بگاڑ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ یہ افراد کی کمزوریوں، بے حسی اور بے پروائی سمیت ظلم کی حمایت و ظالموں کا ساتھ دینے کے سبب ہی آتا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا کہ اس ظلم کے نظام کے خلاف ہم نے کب موثر آواز اٹھائی، کیا ہم نے ظلم کو صرف اپنی ذات تک محدود سمجھا، یا پھر اس کا احساس سب کے لیے یکساں محسوس کیا، کیا ہم نے ان ظالموں کا ساتھ دیا تھا یا پھر ان کے ہاتھ ظلم بڑھانے سے قبل ہی روکے تھے۔ ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا کہ اگر اہل کراچی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کہ ٹینکر کے ذریعے تو پانی کی کمی پوری ہوجاتی ہے، لیکن لائنوں کے ذریعے گھروں میں پانی نہیں پہنچتا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ آج ہمیں بجلی کی عدم فراہمی کا سامنا ہے تو ان ظالموں کو مسلط کرنے والوں کی حمایت کس نے بڑھ چڑھ کر کی تھی۔ آج مضافاتی علاقوں میں بڑی رہائشی اسکیمیں بن رہی ہیں اور وسائل کی کمی کا باعث بن رہی ہیں تو ان پروجیکٹس کی کامیابی میں ہمارا کتنا کردار ہے۔ بدقسمتی سے یہ ظلم کا نظام ہم نے خود ہی نافذ کیا ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.