حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو
غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری نظر کمزور ہوگئی
ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں؟۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ نالہ جو
میرے اور ان کے درمیان ہے بہنے لگتا ہے جس کے باعث میں ان کی مسجد تک نہیں
جاسکتا کہ انہیں نماز پڑھاؤں۔ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم میں چاہتا
ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز
پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
انشاء اللہ میں کسی دن آؤں گا، حضرت عتبان نے بتایا کہ دوسرے دن صبح حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دن
چڑھنے کے بعد میرے گھر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے حسبِ معمول اجازت طلب فرمائی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
خوش آمدید کہا۔ گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم بیٹھے نہیں، فرمایا : تم کس جگہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر
میں نماز پڑھوں۔ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف بنائی، حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی پھر سلام پھیرا۔
:: بخاری شریف،کتاب الصلٰوة، 1 : 164، رقم : 415
حضرت عتبان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا کہ ان کے
گھر تشریف لا کر نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے جائے نماز بنا
لیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ان کی التجا قبول کرنا آثارِ صالحین
سے تبرک کے ثبوت کے لئے بین دلیل ہے۔
:: فتح الباری شرح بخاری، 1 : 569
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی حضرت زاہر رضی
اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دیہات
سے تحفہ لایا کرتے تھے۔ جب وہ واپس جانے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم بھی اسے سامان عنایت کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
جسد اقدس سے حصول تبرک کا واقعہ ایک
ایک روز نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور وہ
(بازار میں) سامان بیچ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پیچھے
سے اس طرح بغل گیر ہوگئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھ
سکتے تھے، انہوں نے کہا : کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو، پھر جب انہوں نے مڑ کر
دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو (عقیدت و محبت کے ساتھ) اپنی
پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ اقدس سے حصولِ برکت کے لئے
مَلنا شروع کر دیا۔
:: شمائل المحمدية : 396 - 399، رقم : 239،امام ترمذی
مسندامام احمد بن حنبل، 3 : 161
سنن الکبریٰ، 10 : 248،بيهقی
حضرت ابوجُحَيْفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔’’حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
وضو کے بچے ہوئے پانی کو لے کر اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔
اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابو موسیٰ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
پانی کا ایک پیالہ منگایا۔ پس اپنے مبارک ہاتھ اور چہرۂ اقدس کو اُسی میں
دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور
اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے
بھی ان دونوں کو پردہ کے پیچھے سے آواز دی کہ اس متبرک پانی میں سے اپنی
ماں (یعنی حضرت ام سلمہ) کے لئے بھی چھوڑ دینا) پس انہوں نے ان کے لئے بھی
کچھ پانی باقی رکھا۔
:: بخاری شریف،کتاب الوضوء،1 : 80، رقم : 185
مسلم شریف، 4 : 1943، رقم : 2497
بخاری شریف،کتاب المغازی،4 : 1573، رقم : 4073
رت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے فرماتے ہیں۔میں نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی
اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی
لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال
شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر
مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری
حاصل کی۔
:: بخاری شریف،کتاب الصلٰوة فی الثياب، 1 : 147، رقم : 369
عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے۔
:: بخاری شریف،کتاب الوضوء، 1 : 81، رقم : 186،(2)کتاب العلم رقم :
77،(3)کتاب اموات رقم : 3993
حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔’’میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا،نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما
تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل
لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔
:: مسلم شریف،کتاب الصلٰوة، 1 : 360، رقم : 502
شارح مسلم شریف،امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی شرح میں تحریر
فرماتے ہیں۔ اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی
ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے۔
:: شرح مسلم شریف،امام نووی،4 : 219
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے
اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک
ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح بھی ایسا ہی ہوتا اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ٹھنڈے پانی والے برتنوں میں بھی ڈبو دیتے۔
:: مسلم شریف،کتاب الفضائل، 4 : 1812، رقم : 2324
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میری خالہ جان مجھے حضور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لے گئیں اور عرض گزار
ہوئیں : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی
دعا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ میں نے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی پیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو دونوں مبارک کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت
کی زیارت کی جو کبوتروں کے انڈے یا حجلۂ عروسی کے جھالر جیسی تھی۔
:: بخاری شریف،کتاب الدعوات،5 : 2337، رقم : 5991، کتاب المرضی، رقم : 5346
، کتاب الوضوء، رقم : 187، کتاب المناقب، رقم : 3348
مسلم شریف،کتاب الفضائل، 4 : 1823، رقم : 2345
حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے
کہ ایک دفعہ ان کے والد نے نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر پھیرا
اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔
:: مسندامام احمدبن حنبل، 5 : 68
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر
یا چوپائے کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے
پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر بسم اللہ پڑھتے پھر
اپنا ہاتھ اپنے سر پر اس جگہ رکھتے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا دستِ اقدس لگا تھا خاص اس جگہ کو مس کرتے۔ اور پھر وہ ہاتھ ورم کی
جگہ پر مل دیتے حضرت ذیال فرماتے ہیں ان کے اس عمل سے ورم فوراً اُتر جاتا۔
:: مسندامام احمدبن حنبل، 5 : 68
معجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ
عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے
زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔
حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک
پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو دوام بخش
دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر
اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا
اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔
:: مسندامام احمدبن حنبل، 5 : 77
اصابة، 4 : 599، رقم : 5763،عسقلانی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول
اللہ، اللہ تعالیٰ سے ان کھجوروں میں برکت کے لئے دعا فرمائیے حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لئے ان میں برکت
کی دعا فرمائی۔ اور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں بکھیر دو۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں) میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجوریں اللہ کے راستے میں
خرچ کیں، ہم خود اس سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ وہ توشہ دان کبھی
بھی میری کمر سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید
ہوئے تو وہ توشہ دان بھی ٹوٹ گیا۔
:: ترمذی شریف ،ابواب المناقب،5 : 685، رقم : 3839 |