رمضان المبارک اور گناہوں کی مغفرت کے مواقع
(Maqubool Ahmad, Saudi Arab)
رمضان سراپا بخشش ومغفرت کامہینہ ہے ، اس
میں ہر قسم کی خیروبرکت کی انتہاء ہے ۔بلاشبہ یہ ماہ مبارک صیام وقیام پہ
اجرجزیل اور گناہوں کی مغفرت کے ساتھ اپنے اندر نیکیوں پہ بے حدوحساب
اجروثواب رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام چھ مہینے پہلے سے ہی رمضان
پانے کی رب سے دعائیں کرتے ، جب رمضان پالیتے تو اس میں اجتہاد کرتے، ہر
قسم کی طاعت وبھلائی پر ذوق وشوق اور اﷲ سے اجر کی امید کرتے ہوئے محنت
کرتے ۔ جب رمضان گزرجاتا تو بقیہ چھ مہینے رمضان میں کئے گئے اعمال صالحہ
کی قبولیت کے لئے دعا کرتے ۔گویا سلف صالحین کا پورا سال رمضان کی خوشبوؤں
سے معطر رہتا ۔ آج ہم ہیں کہ نہ رمضان کی عظمت کا احساس ، نہ اس کی
خیروبرکات سے سروکار ہیحتی کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کا بھی خیال دل میں
نہیں گزرتاجبکہ رمضان پاکر اس میں مغفرت نہ پانے والا نہایت ہی بدنصیب ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِیَ عبدٌ أدرکَ رمضانَ فانسلخَ منہُ ولَم یُغْفَرْ لہُ(صحیح الأدب
المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس
میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس معنی کی کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن سیرمضان
المبارک میں محروم ہونے والوں کی محرومی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک جگہ ہے :رَغِمَ أنفُ امرءٍ أدرک رمضانَ فلم یُغْفَرْ لہ(فضل الصلاۃ
للالبانی:15، صحیح بشواھدہ)
ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:بَعُدَ من أدرک رمضانَ فلم یُغْفَرْ لہ(صحیح
الترغیب:1677)
ترجمہ: دوری ہو اس کے لئے جس نے رمضان پایا اور وہ نہیں بخشا گیا۔
تیسری جگہ وارد ہے:منْ أدرکَ شہرَ رمضانَ ، فلم یُغفرْ لہ ، فدخلَ النارَ ؛
فأَبعدہُ اﷲُ(صحیح الترغیب:1679)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں
داخل ہوا اسے اﷲ دور کرے گا ۔
چوتھی جگہ مذکور ہے:مَن أدرک شہرَ رمضانَ فماتَ فلم یُغْفَرْ لہُ فأُدْخِلَ
النَّارَ فأبعدَہ اﷲُ(صحیح الجامع:75)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، مرگیا ، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ
جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اﷲ اپنی رحمت سے دور کردے گا۔
کہیں ہم کلمہ گوہوکر رمضان کے روزوں کا انکار کرکے اﷲ کی رحمت سے دور نہ ہو
جائیں ،اس کے لئے روزوں کی عظمت اپنے دل میں بحال کرنی ہوگی ، رمضان نصیب
ہونے پر رب کا شکریہ بجالانا ہوگا اور اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے
گناہوں کی مغفرت کے واسطے نمازوروزہ ،صدقہ وخیرات ،ذکر الہی، قیام وسجود
اور عمل صالح کرکے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اس سے اس بات کی توفیق طلب
کرنی ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے۔
بلاشبہ بنی آدم گناہگار ہے لیکن ہمیں رب کی رحمت ومغفرت سے کبھی بھی مایوس
نہیں ہونا چاہئے، اﷲ اپنے بندوں کی نیکیوں کے بدلے گناہ معاف کرتا ہے ،
توبہ قبول کرتا ہے اور درجات بلند کرکے کامیابیوں سے دامن بھر دیتا ہے ۔
یاد رہے مغفرت کے لئے ہمارا عقیدہ درست ہونا چاہئے، ہم اﷲ کے ساتھ کسی کو
شریک وساجھی نہ ٹھہرائیں ورنہ پھر نہ عبادت کام آئیگی اور نہ رمضان کے قیام
وصیام کام آئیں گے ۔ رب کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ
لِمَنْ یَشَاء ُ(النساء : 48)
ترجمہ: بیشک اﷲ اس (گناہ)کو نہیں بخشے گاکہ (کسی کو)اس کا شریک ٹھہرایا
جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے معاف کردے گا۔
اگر مسلمان کا عقیدہ درست ہے تو اس کے سارے اعمال اﷲ کے یہاں مقبول ہیں ،اسے
اﷲ بخش دیتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِکَ لَہُمْ
مَغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیرٌ (ہود:11)
ترجمہ: سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں ،
انہیں لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی ۔
اس مضمون میں اختصار کے ساتھ ہم رمضان المبارک میں اﷲ کی جانب سے بخشش کے
سنہرے مواقع کا ذکر کریں گے اوربخوف طوالت ان مواقع سے صرف نظر کریں گے جو
عام دنوں میں بخشش کے باعث ہیں گوکہ وہ بھی رمضان میں بھی شامل ہیں الا یہ
کہ کسی خاص موقع ومناسبت سے ہو۔
آئیے ان اعمال ومواقع کا ذکر کرتے ہیں جو رمضان میں مغفرت کا سبب ہیں ۔
پہلا موقع : رمضان پانااور گناہ کبیرہ سے بچتے رہنا: عموما لوگ رمضان پانے
کو خاص اہمیت نہیں دیتے ، یوں سمجھاجاتا ہے کہ ماہ وسال کی گردش سے رمضان
آگیاحالانکہ اس مہینے کا پانا بڑی سعادت کی بات ہے ، جس کی قسمت میں رمضان
نہ ہو وہ کبھی اسے نہیں پاسکتالہذا ہمیں اس ماہ کی حصولیابی پر بیحد رب کا
شکریہ بجالانا چاہئے اور اس کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے اس کے آداب وتقاضے
کو نبھانا چاہئے اور جوبندہ نماز قائم کرتا رہا اور گناہ کبیرہ سے بچتا رہا
اس کے لئے اس ماہ مقدس میں سال بھرکے گناہوں کی بخشش کا وعدہ ہے ۔نبی ﷺ کا
فرمان ہے :
الصَّلواتُ الخمسُ والجمُعۃُ إلی الجمعۃِ ورمضانُ إلی رمضانَ مُکفِّراتٌ ما
بینَہنَّ إذا اجتنَبَ الْکبائرَ(صحیح مسلم:233)
ترجمہ: پانچوں نمازیں ، ہر جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ،
درمیانی مدت کے گناہوں معاف کردئے جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب
کیا جائے۔
دوسرا موقع: ایمان کے ساتھ اجروثواب کی امید سے روزہ رکھناگزشتہ تمام خطاؤں
کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن صامَ رمضانَ إیمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لَہُ ما تقدَّمَ من ذنبِہِ
(صحیح البخاری:2014)
ترجمہ: جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ،اجر وثواب کی امید کرتے ہوئے
رکھا اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
ایک حدیث میں روزہ ، نمازاور صدقہ کو فتنے سے نجات اور گناہوں کا کفارہ
بتلایا گیا ہے ،نبیﷺ کا فرمان ہے :
فِتنَۃُ الرجلِ فی أہلِہ ومالِہ وجارِہ، تُکَفِّرُہا الصلاۃُ والصیامُ
والصَدَقَۃُ(صحیح البخاری:1895)
ترجمہ: انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش
ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔
تیسرا موقع: رمضان میں قیام کرنا غیررمضان میں قیام کرنے سے افضل ہے اور اس
کا ثواب روزے کے مثل ہے اگر ایمان واحتساب کے ساتھ کیا جائے ۔ نبی ﷺ کا
فرمان ہے : من قام رمضانَ إیمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لہ ما تقدَّم من
ذنبِہ( صحیح مسلم:759)
ترجمہ: جو رمضان میں ایمان اور اجر کی امید کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے
سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
چوتھا موقع: رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کی فضیلت آخری عشرے میں بڑھ
جاتی ہے کیونکہ اس میں لیلۃ القدر(شب قدر) ہے، نبی ? اس عشرے میں شب بیداری
کرتے اور خوب خوب اجتہاد کرتے ۔ شب قدر میں قیام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن قام لیلۃَ القدرِ إیمانًا واحتسابًا، غُفِرَ لہ ما تقدَّمَ من
ذنبِہ(صحیح البخاری:1901)
ترجمہ: جو شب قدر میں ایمان و خالص نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سابقہ
گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
پانچواں موقع: افطار کے وقت اﷲ بندوں کو آزاد کرتا ہے اس وجہ سے بطور خاص
افطار کے وقت روزے کی قبولیت، گناہوں کی مغفرت، بلندی درجات ، جہنم سے
رستگاری اور جنت میں دخول دعا کی جائے ۔ "ﷲ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد
وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اﷲ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس
میں مذکور ہے کہ ہررات اﷲ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّہِ عندَ کلِّ فِطرٍ عتقاء َ وذلِک فی کلِّ
لیلۃٍ ( صحیح ابن ماجہ:1340)
ترجمہ: اﷲ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ
آزادی ہررات ملتی ہے۔
چھٹواں موقع: مومن کو رمضان کیدن میں روزہ رکھنا چاہئے،بحالت روزہ بکثرت
اعمال صالحہ انجام دینا چاہئے اوراس کی ہر رات میں شب بیداری کرکے
قیام،دعا، استغفار اور اذکار میں مصروف رہنا چاہئے کیونکہ ہررات اﷲ تعالی
کی جانب سے خیر کے طالب کو ندا لگائی جاتی اور جہنم سے رستگاری کی بشارت
سنائی جاتی ہے ۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
إذا کانَ أوَّلُ لیلۃٍ من شَہْرِ رمضانَ : صُفِّدَتِ الشَّیاطینُ ومرَدۃُ
الجنِّ ، وغُلِّقَت أبوابُ النَّارِ فلم یُفتَحْ منہا بابٌ ، وفُتِّحَت
أبوابُ الجنَّۃِ فلم یُغلَقْ منہا بابٌ ، ویُنادی مُنادٍ یا باغیَ الخیرِ
أقبِلْ ، ویا باغیَ الشَّرِّ أقصِرْ وللَّہِ عُتقاء ُ منَ النَّارِ ، وذلکَ
کلُّ لَیلۃٍ(صحیح الترمذی:682)
ترجمہ: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑدیئے جاتے
ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا
نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ
بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے
طلب گار! رُک جا اور آگ سے اﷲ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے
کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے۔
ساتواں موقع: صدقہ گناہوں کی مغفرت کا اہم ذریعہ ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
والصَّدَقۃُ تُطفی الخطیئۃَ کما یُطفءُ الماء ُ النَّارَ(صحیح
الترمذی:2616)
ترجمہ: صدقہ گناہ کوایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
اس لئے نبی ﷺ رمضان میں خیر اور سخاوت کے کام تیز ہوا سے بھی زیادہ کرتے
البتہ وہ روایت جس میں افضل صدقہ رمضان کاصدقہ بتلایا گیا ہے ضعیف ہے۔
رمضان میں مغفرت سے متعلق بعض روایات
پہلی روایت : رمضان میں بخشش سے متعلق ایک بہت ہی مشہور حدیث ہے جو تقریبا
رمضان میں نشر ہونے والے اکثر رسالے، کلینڈر اور پمفلیٹ وغیرہ میں لکھی ہے
وہ اس طرح سے ہے :أولُ شہرِ رمضانَ رحمۃٌ، وأَوْسَطُہُ مغفرۃٌ، وآخِرُہُ
عِتْقٌ من النارِ۔(السلسلۃ الضعیفۃ:1569)
ترجمہ: اس ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، اور درمیانی حصہ بخشش اور آخری حصہ
جہنم سے آزادی کا باعث ہے۔
اس حدیث کو امام نسائی، حافظ ابن حجراور علامہ سیوطی نے ضعیف کہا ہے اور
ابوحاتم، علامہ عینی حنفی اور علامہ البانی نے منکر کہا ہے ۔
دوسری روایت : رمضان میں اﷲ کا ذکر کرنے والا بخشش دیا جاتا ہے اوراﷲ سے
مانگنے والامحروم نہیں ہوتا ۔ روایت دیکھیں ۔
ذاکِرُ اﷲِ فی رمضانَ مغفورٌ لہ، وسائِلُ اﷲِ فیہ لا یَخِیبُ۔
اوپر والا جملہ ترجمہ ہے۔ اس روایت کو علامہ البانی نے موضوع کہا ہے ۔
(السلسلۃ الضعیفۃ:3621)
تیسری روایت : اسی طرح مندرجہ ذیل روایت بھی ضعیف ہے ۔
یَغْفِرُ لأمتِہِ فی آخِرِ لیلۃٍ فی رمضانَ، قیل : یا رسولَ اﷲِ ! أَہِیَ
لیلۃُ القدرِ ؟ ! قال : لا، ولکنَّ العاملَ إنما یُوَفَّی أجرُہُ إذا قَضَی
عملَہ۔
ترجمہ: رمضان کی آخری رات میں امت معاف کردی جاتی ہے ، کہا گیا اے اﷲ کے
رسول! کیا یہ قدر کی رات ہے تو آپ نے فرمایا: نہیں ، جب مزدور اپنے کام سے
فارغ ہوتا ہے تو اسے پورا اجر دیا جاتا ہے۔
اس روایت کو علامہ البانی نے ضعیف کہا ہے (تخریج مشکاۃ المصابیح:1909)
اسی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ روزہ داروں کے لئے فرشتے افطار تک استغفار
کرتے ہیں ، بعض میں مچھلیوں کے استغفار کا ذکر ہے جوکہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان میں ہر قسم کی نیکی سے گناہ معاف ہوتے ہیں ،اس
لئے دعا، نماز، ذکر، توبہ، استغفار، تلاوت، دعوت،صدقہ،زکوۃ وغیرہ ہر قسم کی
بھلائی انجام دی جائے ایسا نہیں ہے کہ رمضان میں صرف اوپر مذکور اعمال ہی
انجام دئے جانے کے قابل ہیں اور صرف انہیں سے مغفرت ہوتی ہے، یہ تو وہ
اعمال واسباب ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ رمضان میں مغفرت کی جاتی ہے ان پہ
زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔
اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی عبادتوں کوقبول فرمائے اور رمضان میں
ساری خطاؤں کو بخش کر جنت الفردوس میں داخل کردے ۔ آمین
|
|