الحمداللہ میں مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا اور اسلام کا
تعارف بچپن ہی میں کروا دیا گیا۔ کلمہ پڑھایا گیا ارکان پر عمل کرنے کا
طریقہ سکھایاگیا۔ ہلال حرام کی پہچان دی گئی اسلامی اقدار کا علم ہوا یہ
یقیناً بہت بڑی سعادت ہے۔
مسلمان وہ ہے جو خدا پر ، اس کے فرشتوں پر ، کتابوں پر ، رسولوں پر ، قیامت
پر اور یوم آخرت , اس کے بعد کی ابدی زندگی پر ایمان رکھتا ہو اور حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہ نبوت کے اختتام کا ایمان اور یقین رکھتا
ہو۔
یہ سب کچھ مجھے اپنے والدین ، مساجد کی تعلیم اور نصاب کی کتابوں سے مرحلہ
وار معلوم ہوگیا۔ مجھے پتا چل گیا کہ اسلام کے ارکان پر عمل فرض ہے۔ اس کے
بارے میں پوچھ گچھ ہوگی ۔ یہ عارضی زندگی ہے اور یہاں پر دی گئی نعمتوں کے
بارے میں جوابدہی بھی ہوگی۔ اخلاقیات کا بھی درس دیا جاتا رہا۔ میرے لئے
کامیابی کے لئے بس اتنا بھی کافی تھا اگر میں خشوع خضوع کے ساتھ اس پر عمل
پیرا رہتا تو
جوں جوں بڑا ہوتا گیا علمی اختلافات کی بنیاد پر باریکیوں کی الجھنوں اور
علمی گہرے رازوں تک دسترس حاصل ہوئی پتا چلا کہ دین کوصحیح سمجھنے کے لئے
مولوی صاحب کی محفل میں بیٹھ کر ان سے روزمرہ کے مسائل کا علم جاننا بھی
ضروری ہے۔ پھر پتا چلا کہ مسلمانوں کے اندر غلط عقائد ، اعمال اور مسائل کا
علم بھی گردش کر رہا ہے لہذا اس سے اپنے آپ کو بچانا بھی ہے۔
پہلے میں صرف مسلمان تھا اب صحیح مسلمان بن کر رہنے کے گر اور راز جاننے کا
عمل شروع ہوا۔ جہاں صحیح کی پہچان دی گئی وہاں غلط کی نشاندہی بھی کی جانے
لگی۔ مجھے اب تک جو کچھ بتایا گیا تھا اس پر میرا پورا یقین تھا کیونکہ یہ
سب کچھ میرے اپنے ، میرے والدین ، ان کی راہنمائی میں میرے مولوی صاحب اور
میرے ہم جماعت اور خیر خواہوں کی طرف سے مجھے معلوم ہوا تھا۔
اوپر سے دنیاوی ضروریات کے پیش نظر سائنسی اور دوسرے عصر حاظر کے علوم سے
بھی واسطہ پڑھا۔ اعلی تعلیم کے لئے شہر اور پہلے والےماحول سے باہر بھی
جانا پڑا تو مختلف نظریات اور عقائد رکھنے والے مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔
بحثیں بھی ہوتیں ذہن میں یقین کی حد تک پختہ سوچیں ان سے نفرتوں پر بھی
آمادہ کرتیں۔ محسوس ہوتا جیسے ان کی اور ہماری راہیں جدا ہیں ۔ اور اگر
میں ان کے ساتھ زیادہ ملن ساری رکھوں گا تو شائد راہ سے بھٹک جاوں گا اور
گناہ کا مرتکب ہو جاوں گا۔ مجھے مسلمانوں کے اندر شرک اور کفر کی جھلک
دکھائی دیتی تھی میں ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتا۔ ایسے لگتا جیسے میرے
نظریات سے مطابقت رکھنے والے تو ٹھیک لگتے مگر باقی سب غلط۔
ذہنی کشمکشیں بڑھتی جا رہی تھیں اور یہ اختلافات دل کا سکون تباہ کر رہے
تھے پھر تو میں آہستہ آہستہ کشمکشوں کا عادی سا ہو گیا ۔ چاہتے ہوئے بھی
اپنی بنائی ہوئی حدود کو کراس کرنا میرے لئے مشکل تھا میرے نزدیک میرا یقین
مجھے معاشرتی اور طبقاتی تقسیم کا راہنما تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس
پر عمل پیرا رہنا چاہتا تھا
پھر میں دنیاوی اور مادی شوق کی غرض سے ملک کی حدوں سے بھی باہر نکلا اور
مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی ملا مگر میرے یقین کی حدیں
مجھے اور کشمکشوں میں مبتلاء کرتی گئیں ۔ نظریاتی حدیں میری معاشرتی حدوں
کی نگران بن گئی تھیں۔
جیسے جیسے میرا اکسپوژر بڑھتا جارہا تھا میری ذہنی کشمکش بھی بڑھتی جا رہی
تھی۔ سائنسی دنیا میں داخل ہوا ، گلوبل تھاٹس سے واسطہ پڑا۔ سوشل میڈیا اور
انفارمیشن ٹیکنالوجی تک دسترس حاصل ہوئی تو نئے نئے نظریات سے واسطہ پڑا۔
کوئی کہنے لگا کہ یہ سب سائینٹفیک میتھڈ کے تحت کائنات کا نظام چل رہا ہے۔
اس کے علاوہ سب کہانیاں ہیں۔ ذہنی اضطراب اور بڑھتا گیا ۔ بہت عرصہ اٹھنے
والے سوالوں کو دبائے رکھا مگر ذہنی کشمکش تھی کہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتی
جارہی تھی۔
فطری عمل تھا ذہن میں نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں اطراف کے دلائل بڑھ چڑھ کر
ابھر رہے تھے۔ خیر جوں جوں دقت بڑھی سوچا یہ اپنے آپ سے منافقت کب تک؟
کوئی تو نتیجہ اخذ ہونا چاہیے۔ اپنے اندر ہی اندر ایک جنگ سا سماں رہا۔
دینی نظریات اور لا دینیت ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھی۔
آخر نتیجہ یہی نکلا کہ دلائل دونوں طرف سے ہیں مگر دینی پلڑا بھاری ہے خدا
کے وجود کے ہونے کے دلائل نہ ہونے سے ذیادہ مضبوط ہیں لہذا اسی یقین کو
پختہ کر لیا جائے۔
تمام مذاہب کے نظریات ، انبیاء کے واقعات اور سائنسی عوامل سے ہٹ کر وقوع
پزیر ہونے والے واقعات اس چیز کی دلیل تھے کہ واقعی کوئی طاقت ہے جو اپنی
قدرت کے اظہار کا انسانی حواس کو قائل کرنے کا وزن رکھتا ہے۔ لہذا اس ایک
جھنجھٹ سے تو چھٹکارہ حاصل ہوا۔
سائنس اور سائنسی علوم سے اسلامی نظریات کی گواہی ملنے لگی۔ پتا چلا کہ
ہمارے محدود حواس کائنات کے تمام علوم کی دسترس رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
اب جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جارہی ہے اسلام کی باتیں ماننا آسان ہوتا جا
رہا ہے۔
جیسے اب سائنس کا علم یہ کہنے لگا ہے کہ تیس سالوں تک یہ دریافت ہوجائے گا
کہ انسان ابدی کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ موت کو حادثاتی اموات کے بغیر قابو
کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ نکلا کہ کوئی انسان بھی طبعی موت نہیں مرے گا بلکہ
صرف حادثاتی اموات ہی رہ جائیں گی تو پتا چلا کہ آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے
والی زندگی کا تصور بھی ممکن ہے۔
اس ایک مشکل کے بعد دوسری مشکلیں بھی یکے بعد دیگرے آسان ہوتی گئیں اور
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ چند بنیادی عقائد کے بعد عبادات اور معاملات کو
قائم کرکے میں اپنے امتحان سے سرخ رو ہو سکتا ہوں ۔ میں جس چیز کا جوابدھ
نہیں ہوں۔ جو سلیبس میرے پرچہ امتحان کے متعلق نہیں ہے اسے رٹے لگانے کی
کیا ضرورت ہے بلکہ یہ بہتر نہیں کہ میں اپنے یقینی گیس کو اس قدر تیار کر
لوں کہ ممتاز پوزیشن سے کامیاب ہو جاوں۔
اب دکھ ہوتا ہے مجھے کہ میں نے اپنا کتنا وقت اور انرجی خواہ مخواہ کہ ذہنی
خلشوں ، کشمکشوں اور اذیتوں میں گزارا ہے۔
مجھے اپنی عبادات اور دوسروں کے ساتھ معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ ہونی
ہے۔ اور میں دوسروں کی عبادات اور دوسروں کےاپنے ساتھ معاملات کے جھنجھٹ
میں الجھا رہا ۔ میری سوچ کی بنیاد ہی غلط تھی تو میری ساری توانائیاں خواہ
مخواہ ضائع کیوں نہ ہوتیں۔
اب میری آنکھی کھل گئی ہیں کہ عبادات میرا ذاتی فعل ہیں مگر معاملات
اجتماعی فعل ہیں لہذا انسانوں کے ساتھ معاملات پر توجہ دینی چاہیے تاکہ میں
معاشرے کا ایک فائدہ مند فرد بن کر معاشرے میں انسانوں کی بہتری کے لئے
اپنے حصے کا کوئی کردار ادا کرکے مالک کے نزدیک رتبہ پا لوں۔ |