تاریخ گواہ ہے کہ انسانی زندگی ہمیشہ سے دل خراش سانحات و
حادثات سے دوچارچلی آرہی ہے،انسانی زندگی میں تباہی اور مشکلات کے بے
شماراسباب ہیں تاہم ان میں دو بڑے اسباب قابل ذکر ہیں ۔اولاً قدرتی آفات
یعنی زلزلہ،سیلاب،ناگہانی حادثات وغیر ہ اور ثانیاًانسان کا خود انسانی
تباہی و بربادی کا سامان پیداکرنا جس میں دہشت گردی و انتہا پسندی،دنگا
فساد،حق تلفی کرنا،لوٹ مار،قتل و غارت گری وغیرہ شامل ہیں۔
کسی بھی واقعہ ،سانحہ یا حادثہ اورغیرمعمولی تبدیلی کی اطلاع دوسروں تک
پہنچانے کا عمل ابلاغ عامہ میں کہلاتا ہے۔ابلاغ عامہ واقعات کی خبر رسانی
کو کہتے ہیں جس کے دوررس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ابلاغ عامہ سے جہاں متاثرین
کو فوائد حاصل ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے اس کے
بھیانک نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ابلاغ کے فرائض انجام دینے والا ایک صحافی
چونکہ خود بھی انسان ہوتا ہے اور بشری تقاضوں کے مطابق اس کے احساسات و
جذبات اوربسااوقات ’’خواہشات‘‘بھی بہت سے عوامل پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
اس لئے ایک ذمہ دارصحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری جانچ پرکھ اور ٹھوس
شواہد کے ساتھ ابلاغ کا فریضہ انجام دے۔کسی صحافی کی جانبدارانہ یا غیرذمہ
دارانہ رپورٹنگ واقعات کا رخ بدل سکتی ہے،جس کی کئی مثالیںآئے روزہمارے
مشاہدے میںآتی رہتی ہیں۔
گذشتہ دنوں صحافیوں کی ایک معتبر سماجی تنظیم ’’ سی ای جے /آئی بی اے ‘‘
اور ’’انٹر نیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس‘‘آئی سی آر سی کے زیراہتمام اسلام
آباد میں انسانی حقوق کی رپورٹنگ کے حوالہ سے ’’ ہیومن ٹیرین رپورٹنگ
ورکشاپ‘‘صحافیوں کی دوروزہ ملک گیر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا،جس میں
آزادکشمیر کی نمائندگی کیلئے راقم الحروف کو شامل ہونے کا موقع ملا۔اس
ہیومن ٹیرین رپورٹنگ ورکشاپ میں سی ای جے / آئی بی اے کے ڈائیریکٹر سی ای
جے/آئی بی اے کمال صدیقی، انسٹرکٹر شہزادشرجیل، آئی سی آر سی کے کمیونکیشن
کوآرڈنیٹرو ترجمان نجم عباسی، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے
برگیڈئرمختار اورمعروف ماہر نفسیات محترمہ ڈاکٹر ذوفشاں قریشی نے لیکچر
دئے۔ورکشاپ کو حافظ عبدالمنان اور مس فضہ نے کوآرڈینیٹ کیا۔
دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں ابوبکریونس ، اسلام گل آفریدی ، شائستہ حکیم ،
ناصرعلی،طارق اللہ،محمدوقاراسلم،یاسرفیروز ،حامدالرحمان،برکت
علی،اظہاراللہ،محمدوقاربھٹی، صفدر علی،آسیہ پروین انصر،علی
جہانگیراسلم،نثارعلی،انعام احمدسومرو،مشعل محی الدین،مہرآفتاب سلمیٰ،طیب
بصیر،محمدعلی فاروقی،محمداختر،محمدسعید،راجہ کاشف نصیر،محمدفرحان
شیخ،شہزادیوسفزئی،عرفان مقبول رانا،طارق اللہ اور راقم سمیت دیگر 30سے زائد
صحافیوں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔اس دوروزہ ورکشاپ کے دوران سی ای جے اور
آئی سی آرسے وابستہ چندرضاکاروں نے بھی فیسلیٹیٹر کاکرداراداکیا،جو قابل
تحسین ہے۔
تعارفی نشست کے بعدورکشاپ کے شرکاء کو انسانی حقوق کے حوالہ سے آگاہی دی
گئی۔ انسانی حقوق انتہائی حساس نوعیت موضوع ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا
احاطہ کرتاہے۔ورکشاپ کے شرکاء کو بتایاگیا کہ انسانی حقوق کے حوالہ سے
رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی غیرجانبداری کو یقینی بنایاجائے اور واقعات کاابلاغ
پوری دیانتداری کے ساتھ ہی کیاجائے۔یکطرفہ رپورٹنگ سے اجتناب کیا جائے اور
خبر رپورٹ کرتے ہوئے اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظررکھا جائے۔اس موقع پر شرکاء
ورکشاپ نے اپنے نجی زندگی میں پیش آنے والے غیرمعمولی واقعات کے دوران
رپورٹنگ کے تجربات اور مشکلات کاتفصیلی تذکرہ کیااور سوالوں کے جوابات بھی
دئے۔ورکشاپ میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے مختلف ملکی و بین الااقوامی
صحافتی اداروں سے وابستہ سینئر صحافیوں نے حصہ لیا ۔ورکشاپ میں بطورخاص
فاٹا اور ملحقہ علاقوں میں حالیہ دہشتگردی سے پیداہونے والی
صورتحال،آزادکشمیراور کے پی کے بعض علاقوں میں 2005ء میں آنے والے خوفناک
زلزلہ کے دوران صحافیوں کو رپورٹنگ کے دوران پیش آنی والی مشکلات اور
مستقبل میں ان سے بچنے کے حوالہ سے تفصیلی لیکچردئے گئے اور شرکاء نے اپنے
مشاہدات و تجربات کا بھی ذکر کیا ۔
ورکشاپ کے شرکاء نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سی ای جے/آئی بی اے
اور آئی سی آرسی نے انہیں سیکھنے سکھانے کا ایک بہترین موقع فراہم کیا جو
ان کے پیشہ ورانہ امور اور صحافتی استعدادکارمیں مذید بہتری میں معاون ثابت
ہوگا۔انہوں نے ورکشاپ کے آرگنائزرزکو بھی داد تحسین کی جو ملک بھر میں
صحافیوں کی استعدادکار بڑھانے کیلئے یہ بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
’’مجھے یہ زندگی صرف ایک بارملی ہے،کوئی نیکی ‘جو میں کسی کے ساتھ
کرسکتاہوں،یاکوئی بھلائی اور خیر،جو میرے اختیارمیں ہے ،مجھے آج ، اور
ابھی‘کرلینی چاہیئے‘‘۔انسانی زندگی ہوا کے ایک جھونکے کی مانندہوتی
ہے‘انسان ایک سانس جو اندرکھینچتاہے‘یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ باہر بھی
لا سکتاہے کہ نہیں،زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اورجو اس زندگی کا کچھ حصہ
مخلوقِ خدا کی خدمت میں گزاردے ۔اللہ کریم اس زندگی کو آخرت کا توشہ
بنادیتاہے۔اللہ کریم کسی کی نیکی کو ضائع نہیں فرماتاہے۔اگر ہم معاشرے میں
حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں یہ عہد کرناہوگاکہ خلق خدا کی خدمت
کیلئے جو کچھ بن پڑتا ہے‘ہمیں ضرور کرناچاہئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ قوم کے
آسودہ حال‘مدبر،ہمدرداور باکردار لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔حکمت عملی اور
ڈسپلن کے ساتھ بتدریج اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے۔جن معاشروں میں ایک دوسرے
کے ساتھ معاونت اور خدمتِ انسانیت کارجحان موجود ہے وہاں غربت و محرومی دم
توڑ رہی ہیں اور لوگ خوشحالی کی طرف گامزن ہیں۔ہمارے سامنے دنیا کی بے شمار
ایسی مثالیں موجو دہیں‘جہاں لوگوں نے اپنی مددآپ کے تحت سماجی سطح پر
انقلاب پرباکردیا۔ملائیشیا،انڈو نیشیا، جاپان،امریکہ،برطانیہ اور فرانس
جیسے ملکوں کی ترقی حکومتوں کی مرہون منت نہیں‘وہاں لوگ خوداپنی مفلوک
الحال عوام کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔بلا شبہ ایک عامل صحافی ایک سماجی
کارکن بھی ہوتا ہے،اس کے اندر بھی ایک دردرکھنے والادل دھڑکتا ہے،اس میں
بھی جذبات و احساسات ہوتے ہیں،اس لئے ضروری ہے کہ صحافی کو اپنی تحریرو
تقریر قوم کی امانت سمجھ کر ملک و ملت کی بہتری کیلئے ہی بروئے کارلانا ہو
گی، صرف اسی صورت ہم اس ملک میں حقیقی تبدیلی اور قوم کا مستقبل روشن کرنے
میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کامقصد،اوروں کے کام آنا۔۔!!! |