رمضان المبارک میں دعاؤں کا اہتمام

ہرادارہ اپنی مصنوعات کے ساتھ، راہ نمائی کے لیے ایک ’’گائیڈ بُک‘‘ دیتا ہے۔ جس میں اس مصنوعہ کے بارے میں مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ ساتھ میں اس ادارے کی ہیلپ لائن بھی درج ہوتی ہے۔ انسان اللہ تعالی کی بہترین تخلیق ہے۔ جس کے لیے قرآن مجید بطورِ گائیڈ بُک ساتھ میں موجود ہے اور کسی مسئلہ کی صورت میں اللہ تعالی نے انسان کو بھی ایک ’’ہیلپ لائن‘‘ فراہم کی ہے جسے ’’دُعا‘‘ کہتے ہیں۔ ہم دُعا کے ذریعے مسائل اور مشکلات اپنے خالق سے براہِ راست شیئر کر سکتے ہیں۔ خود خالقِ کائنات نے ہمیں یہ حکم دیا ہے ادعونی استجب لکم ’’تم مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعائیں قبول فرماؤں گا۔‘‘ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کتنے اخلاص، توجہ اور حضورِ قلب کے ساتھ اُس سے مانگتے ہیں۔ جتنی توجہ اور اخلاص سے دعا مانگی جائے گی اُس کی قبولیت کے اثرات اُتنی جلدی ظاہر ہوں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ’’ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔‘‘ایسا کہنا شرعا درست نہیں ہے، اللہ تعالی اِس جملے سے ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی تو کفار کی دعا بھی سنتے اور قبول فرماتے ہیں، ایک مسلمان کی دعا کیسے نہیں سنیں گے؟
دراصل قبولیتِ دعا کی تین صورتیں ہیں:
٭… مِن و عن دعا قبول ہو جاتی ہے اور اُس کے ثمرات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ (عوام الناس صرف اسی طریقے سے قبول ہونے والی دعا کو ’’اللہ کا سننا‘‘ مانتے ہیں۔)
٭…اللہ تعالی اُس دعا کے بدلے ہمیں اُس سے بہتر کوئی چیز عنایت فرما دیتے ہیں یا آنے والی کوئی مصیبت ٹال دیتے ہیں۔
٭… وہ دُعا ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بن جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق، قیامت والے دن بندہ اس ذخیرے کی جانب دیکھ کر کہے گا ’’کاش! دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوتی، سارا کا سارا ذخیرہ ہی بن جاتی۔‘‘
بعض اوقات ان تین صورتوں میں سے کچھ بھی انسان کو نہیں ملتا۔ اس کی وجہ بُرے اعمال ہوتے ہیں جن کی بدولت اللہ تعالی بطورِ سزا اعراض فرما لیتے ہیں۔ مثلا مختلف کفریہ جملے اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب بن کر دعا قبولیت میںرکاوٹ بن جاتے ہیں۔اسی طرح جس پیٹ میں حرام مال ہو اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔کہتے ہیں کوفہ میں چالیس عابد تھے، جو جس کے لیے بددعا کرتے فورا قبول ہو جاتی۔ جب حجاج بن یوسف والی بن کر آیا تو اُس نے سب سے پہلے انہی عابدوں کی دعوت حرام مال سے کی۔ بعد میں کہا ’’تم جیسے مرضی چاہو، میرے لیے بددعا کرو، تمہاری بددعا میرے بارے میں قبول نہ ہوگی، کیوں کہ میں نے تمہارے پیٹ میں حرام مال ڈال دیا ہے۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا، وہ عابد بددعا کرتے رہے، لیکن ان کی بددعا حجاج کے خلاف قبول نہ ہو سکی۔

رمضان المبارک میں اللہ تعالی کی رحمتیں وسیع ہو جاتی ہیں، اس لیے قبولیتِ دعا کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ درج ذیل اوقات میں اگر دعا مانگی جائے تو اللہ تعالی لازمی قبول فرماتے ہیں:
تہجد (سحری) کے وقت، قرآن مجید پڑھتے وقت ، فرض نمازوںکے بعد، تراویح کے بعد، افطاری کے وقت ، اجتماعی دعا مانگنے اور عبادات کے آخر میں، فرمان نبویﷺ ہے الدعاء مخ العبادۃ (دعا عبادت کا مغز ہے)۔ اسی طرح دوسرے کے منہ سے نکلی ہوئی دعا بھی جلد قبول ہوتی ہے مثلا کسی کو صدقہ دیا اورجواباً اس نے دعا دی تو وہ بھی جلدقبول ہوتی ہے۔ اپنی اولاد، والدین، اساتذہ اور دوستوں کے لیے کی گئی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔
یاد رہے! دعا بھی ایک مستقل عبادت ہے۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہے: مسنون اور غیر مسنون ۔ پھر مسنون دعاؤں کی بھی دو قسمیں ہیں: وہ مخصوص دعائیں جو رسول اللہ ﷺ نے مقررہ اوقات میں مانگی ہیں، مثلا جاگنے اور سونے کے وقت کی دعا، کھانا کھانے کی دعا، بیت الخلاء میں جانے کی دعا وغیرہ اور دوسری وہ ہیں جو غیر مقررہ اوقات میں مانگی گئیں مثلا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حافظے کے لیے دعا، مدینہ منورہ کے پیمانوں میں برکت کی دعا وغیرہ۔ اور غیر مسنون دعائیں وہ ہیں جو ہم اپنی ذات یا کسی دوسرے کے لیے اپنے الفاظ میں مانگتے ہیں۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ مسنون دعائیں یاد کر کے وہی مانگی جائیں، کیوں کہ انہوں نے قبولیت کے راستے دیکھے ہوئے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے مطلب و مفہوم کا بھی اچھی طرح علم ہو، تاکہ پتا چلے کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں؟ بغیر مطلب جانے دعا مانگنے کو دعا پڑھنا تو کہہ سکتے ہیں ، دعا مانگنا نہیں۔
دعا کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط توجہ ، اخلاص اور حضورِ قلب ہے۔ بے توجہی اور بے دھیانی سے مانگی ہوئی دعائیں بہت کم قبول ہوتی ہیں۔ اس کے بعد عاجزی، رزقِ حلال اور دردِ دل اہم ہیں۔ جتنی ان کی فراوانی ہوگی، قبولیت کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوں گے۔ اگر دعا کے شروع میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کر لی جائے اور اول و آخر مسنون درود شریف پڑھ لیا جائے تو امید ہے کہ اُسے اللہ تعالی ضرور قبول فرمائیں گے۔ ؎
بدل جاتی ہے قسمت بھی دعا سے
نہیں مایوس میں اپنے خدا سے

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 99301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.