موضوع: صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ
الرحمۃ کے دینی، علمی، اعتقادی، اصلاحی، فکری، تحقیقی، فلاحی افکار اور
سیاسی نظریات پر مبنی معرکہ آرا ۶۳؍ مقالات کا مجموعہ۔ جس میں فکر و تدبیر
اور اسلوب و بصیرت کا بانک پن صاف جھلکتا ہے۔
ترتیب و تحقیق: محقق اہلِ سُنّت مفتی محمد ذوالفقار خان نعیمی ککرالوی
صفحات: ۶۰۸
سن اشاعت: ۱۴۳۹ھ/۲۰۱۸ء
ناشرین: فارغین درجۂ فضیلت، جامعہ نعیمیہ مرادآباد
قائد و مدبر:صدرالافاضل علیہ الرحمۃ سوادِ اعظم اہلِ سُنّت و جماعت کے اُن
قائدین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جنھوں نے ہندوستان میں انگریزی استبداد
کے زمانے میں مسلمانوں کی کامیاب قیادت کی، دین کے مقابل پیدا شدہ فتنوں کا
سدِ باب کیا، سیاسی میدان سے اُٹھنے والے لادینی فتنوں کا استیصال عزیمت سے
کیا۔ شدھی تحریک کی آندھی کو استقلال سے روکا، گستاخانِ ناموسِ رسالت کے
عزائم کو ناکام کیا اور ایمان و عقیدے کے صحن میں عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کی خوش بو بکھیر دی۔
صدرالافاضل کی خدمات کے کئی رُخ ہیں۔آپ قائد بھی ہیں، صحافی بھی، مدبر و
مفکر بھی۔مسند افتا کی زینت بھی۔مفسر قرآن بھی ۔ عظیم استاذ و شیخ طریقت
بھی۔مصدر عرفان بھی۔منبع برکات بھی اور سیاسی فہم و بصیرت و تدبر کے مالک
بھی۔
حضور صدرالافاضل کی ژرف نگاہی، بصیرت، مستقبل کے خطرات سے آگہی، قومی قیادت
کی فکر، اصابت، دور اندیشی نے معاصرین اور بعد کے مفکرین کو متاثر کیا۔آپ
نے زمانہ سازی کی۔ دین کے اثاثے کا تحفظ کی۔ منافقین و رہزنوں سے گلشنِ
اسلام کو بچایا۔ آپ نے بیک وقت آریاؤں، پنڈتوں، پادریوں کے اعتراضات کا
دنداں شکن جواب دیا ؛دوسری طرف گستاخانِ بارگاہِ رسالت کی سرکوبی علم و
استدلال سے کی۔ مسلم لیڈروں کی بے اعتدالی و گمرہی سے قوم کو آگاہ کیا۔
شعائر اسلامی کے تحفظ کے لیے پورے ملک میں تحریک چلائی۔
آپ کی تحریریں، صحافتی بزم سے اُبھرنے والے اداریے۔ تجزیے ایسے ہیں کہ جن
میں ملت کا درد، بیماریوں کا علاج، حالات کی بے اعتدالی کا تصفیہ، ملی وقار
کے تحفظ کا پیغام، شوکتِ اسلامی کا سامان، عقائد کے تحفظ کا پیام اور فکرِ
امام احمد رضا کی اشاعت کا اہتمام موجود ہے۔ اس زمانے کے نمایاں رسالے
السوادالاعظم مرادآباد، تحفۂ حنفیہ پٹنہ، دبدبۂ سکندری رامپور کے شمارے آپ
کی فکرِ صحیح کے ترجمان و موید تھے۔
مقالات کی معنویت: مرتب و محقق، فاضل گرامی حضرت مفتی محمد ذوالفقار خان
نعیمی ککرالوی نے بڑی دیانت داری، عرق ریزی، لگن، احتیاط، خلوص سے مقالات
صدرالافاضل کی ترتیب کی۔ عمدہ و احسن انداز میں مقدمہ لکھا۔ عربی فارسی
عبارتوں کا ترجمہ/حوالوں کی تخریج کی۔موضوعاتی اعتبار سے ترتیب دی۔ فہرست
سازی کی۔ عمدہ کمپوزنگ و دیدہ زیب طباعت سے آراستہ کیا۔ طلبۂ جامعہ نعیمیہ
مرادآباد و بعض محبین نے بارِ اشاعت اُٹھایا۔جس کے لیے مرتب و ناشرین تہنیت
کے مستحق ہیں۔
مضامین و مقالات میں علم و فضل کا جہان آباد ہے۔ فکر نعیمی میں تعمق،
گہرائی و گیرائی ہے۔ صدرالافاضل نے فتنوں کی بیخ کنی کی، دین کی پاس بانی
کی، نئے نظریات کی قلعی کھول دی، ایمان کو تازہ کیا، عقائد کی درستی کا
پیغام دیا، ہواؤں کے رُخ پر جو غیر اسلامی سیاست کے شکار تھے، انھیں رہِ حق
دکھائی۔ شعائر اسلامی کی پامالی پر قدغن لگایا۔ ان ۶۳؍ مقالات میں آپ کو
جہاں صدرالافاضل کی فقہی، تفسیری، دینی و اصلاحی بصیرت کے جلوے نظر آئیں گے
وہیں سیاسی، سماجی، فلاحی و قائدانہ بصارت کی کرنیں بھی دکھائیں دیں گی۔
مقالات کا اہم پہلو زبان و بیان کی سادگی، سلاست و روانی اور ادبیت کی
فراوانی ہے۔ الفاظ کا درو بست متاثر کن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موتیوں کی خوب
صورت مالا ہے۔ لفظوں کا تنوع، اور فہم تک رسائی ایسی کہ قاری کے لیے مطالعہ
کی فضا بوجھل نہیں ہوتی۔ طول طویل جملے سے گریز کرتے ہیں۔ فکر کا بانک پن
مستزاد۔ کیوں نہ ہو کہ! اعلیٰ حضرت کے فیض یافتہ تھے صدرالافاضل۔ جس کا اثر
تھا کہ استقامت فی الدین اور تصلبِ دینی کا جوہر اُبھر کر سامنے آیا۔
فکر نعیمی کی عطر بیزیاں: چند اقتباسات ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ مقالاتِ
صدرالافاضل میں کیسے کیسے لالہ و گل کھلے ہوئے ہیں؛ جن کی خوش بو سے صحنِ
حیات مہک رہے ہیں۔
[۱] آمد محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی سُہانی ساعتوں کا ذکر جمیل دل پذیر
انداز میں کرتے ہیں: ’’صبح صادق کا سہانا اور دل لبھانے والا وقت آیا…… خوش
الحان طیور نے غایت سرور سے نغمہ سنجی شروع کی…… عطر بیز خوش بوؤں نے دماغ
معطر کیے…… کعبۂ معظمہ کے در و دیوار جنبش میں آئے……بت اوندھے منھ
گرے……شیاطین کے تخت اُلٹ گئے……ضلالت کی شبِ دیجور کا پردہ چاک ہوا……صدق و
صفا کی صبح صادق نے جلوہ کیا……حق و ہدایت کے آفتاب عالم تاب نے بے نظیر جاہ
و جلال، بے مثل حسن و جمال کے ساتھ اپنی طلعت مبارک سے حجاب اُٹھایا……طیب و
طاہر، زکی و نظیف، عالم کے سلطان، خدا کے محبوب، ہمارے آقا سرور انبیا محمد
مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحنِ عالم میں قدم رکھا……‘‘ (مقالات،ص۵۳)
[۲] نظام شریعت کی آفاقیت کی بابت رقم طراز ہیں: ’’شریعت اسلامیہ و ملت حقہ
کی تدوین اور اس کا نظام ایک عجیب و غریب نعمت اور نہایت مستحکم و استوار
ہے…………صاحب شرع حضور سید عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں علوم کی
وہ بارش ہوئی، جس نے قیامت تک آنے والے تمام جہان کے تشنہ کاموں کو سیراب
کر دیا اور ان کے لیے کثیر ذخائر عطا فرما دیے جو دریوزہ گر بن کر اس
آستانۂ کرم پر حاضر ہوا، غنی صاحب ثروت ہو گیا۔‘‘ (مقالات،ص۱۶۸)
[۳] علماے کرام کی ذمہ داریوں کی بابت اور -نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم
شبیری-کا درس ان الفاظ میں دیتے ہیں: ’’علماے اسلام! اے حامیان ملت! دین کی
حفاظت آپ کا سب سے مقدم فرض ہے۔ آپ کے لیے اسی قدر کافی نہیں ہے کہ مدارس
میں درس دے کر طلبہ کو کتبِ متداولہ پر عبور کرا دیجیے، یا کسی مجلس میں
تقریر کر کے خاموش ہو جایے، یا گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر نماز، وظیفہ میں
اپنے تمام اوقات صرف کر ڈالیے۔ بے شک آپ کے یہ تمام کام دینی اعلیٰ خدمتیں
ہیں۔ اور اﷲ رب العزت عزجلالہ آپ کو اس کے بہترین صلے عطا فرمائے گا لیکن
ان سب کے ساتھ ساتھ آپ پر یہ بھی فرض ہے کہ آپ دیکھیے کہ آج دُنیا اسلام کو
مٹا ڈالنے کے لیے کیا کر رہی ہے اور دین کی حفاظت (کے لیے) آپ کو کیا کرنا
چاہیے۔‘‘ (مقالات،ص۱۷۸)
[۴] ایک مقام پر تقاضۂ وقت بیان کرتے ہیں: ’’گورنمنٹ کو مسلمانوں کے تحفظ
دین کی ضرورت سے آگاہ کیا جائے اور اس میں تاخیر روا نہ رکھی جائے۔‘‘
(مقالات،ص۱۷۹)
[۵]جہلا نے دین کے مسائل میں بڑی زباں طرازی کی ہے، دنیوی تعلیم یافتہ بعض
حلقوں نے مستشرقین و فرقہ پرستوں کی جدید بولی کو بنا سوچے سمجھے قبول کر
کے فتنے کو راہ دی، اس بابت فرماتے ہیں: ’’انگریزی خواں اصحاب سے تو صرف اس
قدر عرض کر دینا کافی ہے کہ جن مسائل کا تعلق شریعت سے ہے ان میں وہ اپنی
راے کو پابند شریعت رکھیں اور مشاہیر علماے اسلام کے کامل تحقیق کر لینے کے
بعد لب کشائی فرمائیں۔‘‘(مقالات،ص۱۸۲)
تمام مقالات فکر انگیز اور ہمہ جہت ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک صدی قبل نہیں بلکہ
حال کے شامیانے میں لکھے گئے ہیں۔ آج بھی ان پر عمل کی اتنی ہی ضرورت ہے
جیسی ایک صدی قبل تھی۔ ضرورت ہے کہ اسلاف کے پاکیزہ رشحاتِ قلم سے فیض حاصل
کیا جائے۔ انھیں رہبر بنایا جائے۔ ناگفتہ بہ حالات میں بے محابہ پھرنے کی
بجائے اسلاف کے خطوط پر چل کر بُری حالتوں کو بدلنے کے جتن کیے جائیں۔
شریعت کے تحفظ کے لیے ان تحاریر میں بہت کچھ لائحہ عمل مستور ہے۔
مقالات صدرالافاضل متنوع تحریروں کا وہ گل دستہ ہے جس کا ہر پھول خوش رنگ
ہے۔ جن سے گل چینی اہل سنّت کے حق میں مفید ثابت ہو گی۔ مرتب و ناشر دونوں
نے ایک اہم ذخیرے کو سامنے لا کر ملت کے فکری سرمائے میں زبردست اضافہ کیا۔
اﷲ تعالیٰ! اعلیٰ حضرت کے مسلکِ عشق وعرفان پر استقامت دے جس کی توسیع کے
لیے صدرالافاضل نے اپنی حیات کی سرخیاں نذرکیں۔
٭٭٭ |