کیا فرد واحد کے بدلے بغیر تبدیلی ممکن ہے؟

تبدیلی آنی چاہیے۔
تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔
تبدیلی آرہی ہے۔
وطن عزیز کی ترقی وعظمت تبدیلی میں مضمر ہے۔
ہم کیا چاہتے ہیں تبدیلی،تبدیلی
یہ وہ تمام نعرے اور مطالبات ہیں جن کی بازگشت ہمیں اکثر سنائی دیتی ہے۔
کچھ سیاسی جماعتوں نے تو اس نعرے کو اپنے منشور کی حیثیت دے رکھی ہے۔
لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ کیا کھوکھلے نعروں اور گفتار کی جنگ سے عوامی رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
کیا
دوسرے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے خلاف عوامی جذبات کے استعمال کو آپ ان کی اخلاقی اور مذہبی کردار سازی کر رہے ہیں؟
کیا
اقدار کی ذاتی ہوس کیلئے قوم و ملک کی عزت نفس اور اقدار و روایات سے کھلواڑ ہماری اخلاقی گراوٹ ،ذہنی تنگ نظری اور تعصب زدہ سوچ کا غماز نہیں ہے؟
کیا
ذاتی اور سطحی مفادات کی خاطر قومی اور ملکی استحکام اور سلامتی کو داؤ پر لگا دینا ہمارے لئے زہر قاتل نہیں ہے؟

ہم دوسرے لوگوں کی سوچ،اقدار و روایات،اداروں،قوانین اور حکومتوں کو تبدیل کرنے کی سعی لا حاصل میں کمر بستہ لیکن

کیا ہم نے کبھی اپنی ذات کو تبدیل کرنے کا بھی کبھی سوچا ہے؟

کیا ہم نے کبھی اپنے رویوں کو مناسب سمت پر لانے کی کوشش کی ہے؟
ہم بحیثیت مجموعی عدلیہ کے فرسودہ نظام کو تو بدلنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا ہم اپنے انفرادی اور معاشرتی و خاندانی معاملات میں انصاف روا رکھتے ہیں؟
ہم بحیثیت قوم ملاوٹ کرنے والوں، ناجائز منافع خوروں،رشوت خوروں،دھوکےبازوں،رسہ گیروں،بد دیانت افسروں،دہشت گردوں،اور ریاستی اداروں کی نااہلی کے خلاف قلم آزمائی میں مصروف عمل ہیں لیکن
کیا ہم نے خود کو بھی اسی کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا ہے؟
ہم ہر فورم پر پولیس اور عوامی فلاح کے کاموں میں مصروف لوگوں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن
کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے؟

گندگی اور آلودگی کا رونا رونے والے ہم لوگ خود کو ان ذمہ داریوں سے مبرّا سمجھتے ہیں

مہنگائی اور لوٹ کھسوٹ کا چرچا کرنے والے ہم لوگ موقع ملنے پر اہل وطن لوگوں کا گلہ کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے

منبر ومحراب سے لوگوں کو اخلاقیات اور اتحاد و یگانگت کی صدا بلند کرنے والے اپنی اغراض کیلئے لوگوں کو فرقوں اور مذہبی و سیاسی دھڑوں میں تقسیم کر کہ ان کی باہمی رنجشوں سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں


اگر ہم حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ فرد واحد کی تبدیلی ،اس سوچ کی صحیح سمت اور اخلاق و اقدار کی بہتری خاندان ،معاشرے ،قوم اور ملک کے عروج و کمال کی ضامن ہوتی ہے۔

معاشرے میں انصاف پسندی کے فروغ کے لیے ہمیں خود کو ہر معاملے میں منصفانہ روش کا حامل بنانا ہوگا۔

معاشرے سے بے راہ روی اور بے حیائ کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنے گھر سے ابتدا کرنی ہوگی۔

دوسروں کو ان کی زمہ داریوں کا احساس دلانے کی بجائے ہم کو ذمہ دار بنانا ہوگا

ہمیں خود کو حقیقت پسند بنانا ہوگا۔
قومی غیرت و حمیت کو فروغ دینا ہوگا۔
ایک اچھا اور مخلص شہری اور ذمہ دار پاکستانی بننا ہوگا۔

دھڑے بندی اور شخصیت و جماعت پرستی سے بالا ہو کر انفرادی طور پر سوچنا ہو گا۔
ذاتی مشاہدات کے مطابق قومی اور ملکی مفادات کی تکمیل کے لیے فیصلے کرنے ہوں گے۔
خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا ہوگا ۔

اس مقصد کے لیے ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننے کی ضرورت ہے
خود کو گنوا کر آنے والی نسلوں کے لیے اس مملکت خدادا کو حقیقی معنوں میں اسلام کی تجربہ گاہ بنانا ہوگا

تب ہی حقیقی تبدیلی ممکن ہو گی اور تب ہی ہم پاکستان کو قائد کا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوں گے

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھِلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Muhammad Abu Sufyan Awan
About the Author: Muhammad Abu Sufyan Awan Read More Articles by Muhammad Abu Sufyan Awan: 19 Articles with 30169 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.