داڑھی کے مذہبی اور معاشرتی پہلو پر ایک نظر

داڑھی منڈانا حرام ہے، یہ انگریزوں اورہندوؤں کا طریقہ ہے اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ
داڑھی منڈانا اعمال فسق میں سے ہے اور داڑھی منڈانے والا فاسق ہے،مفتی محمدشفیع دیوبندی رحمتہ اﷲ علیہ
داڑھی رکھنا صرف شریعت کا حکم ہی نہیں بلکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کی شناخت ہے،اس کا منڈانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ، مولانا محمدولی رازی
داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مصرکے عالم دین کا فتویٰ
داڑھی رکھنے کے دنیاوی فائدے بھی ہیں ،داڑھی رکھنے سے قوت مردانگی میں اضافہ ہوتا ہے،ایک حکیم
داڑھی رکھنا ہر مکتبہ فکر کے علماء کے نزدیک ایک واجب شرعی شعار ہے !

قرآن و حدیث کی روشنی میں داڑھی کی شرعی حیثیت اور مقدار !

داڑھی مسلمانوں کا مذہبی اور معاشرتی شعار اور پہچان ہے اور داڑھی بڑھانے کے احکامات قرآن وحدیث میں جگہ جگہ وضاحت کے ساتھ موجود ہیں اور نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کے واضح ارشادات اور ان کا اپنا طرز عمل اور حلیہ اور آنحضرت کے بعد چاروں خلفائے راشدین اورصحابہ کرام کے علاوہ تبع تابعین نے بھی داڑھی کو مرد کا زیور اور اسلامی شعار قرار دے کر خود بھی داڑھیاں رکھیں اور عام مسلمانوں کو بھی داڑھی رکھنے کا حکم دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ داڑھی کا شمار ان شعار اسلام میں کیا جاتا ہے جن کو پورا کیئے بغیر کوئی شخص خود کو سچا مسلمان نہیں کہلوا سکتا کیونکہ داڑھی منڈوانے کو مشرکین سے مشابہہ اور داڑھی رکھنے والوں کومشرکین کا مخالف گردانہ جاتا ہے ۔لیکن کیا کیا جائے کہ اس فتنہ کے دور میں اسلامی شعار کے حوالے سے جس کا جو جی چاہے کہتا پھرتا ہے حال ہی میں داڑھی کے حوالے سے مصر کے ایک عالم دین نے یہ فتویٰ دیاہے کہ ’’داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘۔ اس فتویٰ کا علم ہوا تو یہ ضرورت محسوس ہوئی کے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کی تحقیق کی جائے کہ اسلامی شریعت میں داڑھی کی حیثیت،اہمیت اور مقدار کیا ہے۔

آنحضرت محمدﷺ نے داڑھی کو اسلام کا شعا ر اورتمام انبیائے کرام کی متفقہ سنت فرمایا ہے۔احادیث مبارکہ کی مشہور کتاب صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق ابن عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مشرکین کی مخالفت کرویعنی داڑھیوں کوبڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو‘‘۔ اور ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ رویت کیئے گئے ہیں کہ’’ مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں کو چھوڑ دو‘‘۔

ان احادیث میں داڑھی کو بڑھانے ااوراور چھوڑدینے کا حکم ہے اور رسول اﷲ ﷺ کا امر فرضیت اور واجب ہونے کے لیئے ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام اور تابعین نے داڑھی رکھی اوررکھنے کا حکم دیا۔لیکن اس کے باوجود اگر ہم آج مسلمانوں کی وضع قطع اور حلیے پر نظر ڈالیں تو ہمیں داڑھی کی سنت پر عمل کرنے والے کم اور مشرکین سے مشابہت رکھنے والے ’’کلین شیو‘‘ مسلمان زیادہ نظر آئیں گے۔اس کے علاوہ جو مسلمان داڑھی کی سنت پر عمل کربھی رہے ہیں ان میں بھی داڑھی کی مقدار کے حوالے سے اختلاف پایا جاتاہے ،شعیہ فرقہ کافی چھوٹی داڑھی رکھتا ہے جو عام طور پر ایک انچ سے زیادہ لمبی نہیں ہوتی جبکہ تبلیغی جماعت والے جو ڈاڑھی رکھتے ہیں وہ بہت زیادہ لمبی ہوتی ہے جبکہ وہ اپنی مونچھوں کو بھی بلیڈ یا قنچی سے مکمل طور پر صاف کردیتے ہیں ،کچھ لوگ داڑھی اور مونچھیں کافی بڑٰی رکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ داڑھی تو ایک مشت رکھتے ہیں لیکن مونچھیں بہت ہی ہلکی اور چھوٹی کردیتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جوسنت پر عمل کرتے ہوئے ایک مشت بڑی داڑھی رکھتے ہیں اور ان کی مونچھیں چھوٹی ہوتی ہیں۔داڑھی کے ساتھ بہت زیادہ بڑی مونچھیں رکھنے کو ابھی اسلام میں منع کیا جاتاہے جس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ ایسی مونچھیں جن کے بال اتنے بڑے ہوں کہ پانی پیتے ہوئے گلاس میں ڈوبنے لگیں وہ اسلامی شعار کے خلاف ہیں۔داڑھی منڈانا یا کتروانا اس طرح کہ وہ ایک مشت سے کم رہ جائے یا مونچھیں بڑھانا( جو اس زمانے میں ایک فیشن بن گیا ہے) حرام ہے۔

داڑھی اسلام کی پہچان اور نشانی ہے جیسے ختنہ مومن کو کافر سے ممتاز اور علیحدہ کردیتا ہے لہذا جب ختنہ جو کہ ایک مخفی امر ہے شعاد دین میں شامل ہے اور اس سے کافر اور مسلمان کے درمیان تفریق ہوتی ہے یہاں تک کہ ختنہ کو ہندوستان میں مسلمانی کہا جاتا ہے تو پھر داڑھی جو ایک ظاہری عمل ہے اور سب سے پہلے انسان کی نظر اس پر پڑتی ہے تو پھر داڑھی تو شعائر اسلام کا لازمی جز اورمسلمان کی ایک نمایاں ترین پہچان ہے جسے اپنانا مسلمانوں کی ایک مذہبی ضرورت اور مومن کو کافر سے ممتاز کرنے والی چیز ہے۔گھر گھر پڑھی جانے والی مشہور کتاب ’’بہشتی زیور‘‘کی جلد 11 ،صفحہ نمبر115 میں بھی درج ہے کہ ’’ ایک مٹھی داڑھی رکھنا صرف سنت ہی نہیں بلکہ واجب ہے اور داڑھی کا منڈانا یا ایک مٹھی سے کم پر کترانا دونوں حرام ہیں‘‘۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنی مشہور کتاب’’اشعتہ اللمعاتــ‘‘ کی جلداول صفحہ 212 میں فرماتے ہیں کہ’’ داڑھی منڈانا حرام ہے اور یہ انگریزوں،ہندوؤں اور قلندریوں کا طریقہ ہے اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے۔داڑھی میں اس قدر طوالت سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے جولوگوں کی کراہت اور انگشت نمائی کا سبب بن جائے۔داڑھی کو ضرورت سے زیادہ بڑھانا گنواروں کا طریقہ ہے‘‘۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو فرمایا’’اﷲ تعالیٰ نے شرا ب پینے اور اس کی قیمت کو حرام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو چھوڑو اور بغیر تہ بند کے بازاروں میں نہ چلا کرو اور جو ہمارے غیر کے طریقے پر عمل کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
شرجیل بن مسلم نے ایک جگہ بیان کیا کہ ’’میری رسول اﷲ ﷺ کے پانچ صحابہ سے ملاقات ہوئی اور میں نے دیکھا کہ وہ سب مونچھیں کاٹتے اور داڑھیاں بڑھاتے تھے‘‘۔

قارئین! ان احادیث کے علاوہ بھی بہت سے احادیث داڑھی کے حوالے سے موجود ہیں لیکن سمجھدار مسلمان کے لیئے یہ ہی کافی ہیں اور جب حضرت محمد ﷺ کی اتنی احادیث سامنے آجائیں تو پھر کبھی بھی آپﷺکے حکم اور سنت کی مخالفت نہیں کرنی چاہیئے۔کہ ایسا کرنااﷲ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب ہوگا۔داڑھی کٹوانے والوں کے لیئے بہت سی تنبیہات موجود ہیں جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔اسلام کے شعائر کی توہین کرنا،مذاق اڑانا اور رسول اﷲﷺکی کسی بھی سنت کی تحقیر کرناکفرہے جس سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔آنحضرت محمد ﷺ نے داڑھی کو اسلام کاشعار اور تمام انبیائے کرام کی متفقہ سنت فرمایاہے لہذا جولوگ داڑھی سے نفرت کرتے ہیں یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یا ان کے عزیز واقارب میں سے اگر کوئی داڑھی رکھنا چاہے تو اسے روکتے ہیں یا بعض لوگ دولہا کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ پہلے اپنی داڑھی منڈائے پھر اس کی شادی کی جائے گی اور اسی طرح بہت سی عورتیں بھی اپنے بیٹوں اور شوہروں کو داڑھی رکھنے پر طعنہ زنی کرتی ہیں یا ان سے اپنی یہ خواہش ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اپنی داڑھی منڈوادیں ا وربہت سی عورتیں اپنے مردوں کو مجبور بھی کرتی ہیں تووہ درحقیقت اپنے بیٹوں اور شوہروں کے چہروں کورسول اﷲ ﷺ کے چہرے جیسا دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔اس قسم کے تمام مردوں اور عورتوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے ۔داڑھی منڈانے والے مردوں پر لازم ہے کہ وہ توبہ کریں اور اپنی شکل و صورت کو اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق بنادیں اور عورتوں کو بھی داڑھی کے معاملے میں مردوں کا ساتھ دینا چاہیئے۔

اسلام میں داڑھی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو حافظ داڑھی منڈاتے ہیں کا شرعی مقدار سے کم رکھتے ہیں اور کترواتے ہیں وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب اور فاسق ہیں یہی وجہ ہے کہ تراویح کی نماز میں بھی ان کی امامت جائز نہیں ہے اور داڑھی منڈے کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی اور عملاً حرام ہے اور بعض حافظ جو صرف رمضان میں داڑھی رکھ لیتے ہیں اور بعد میں صاف کروادیتے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اور ایسے شخص کو فرض نماز اور تراویح میں امام بنانے والے بھی فاسق اور گناہ گار ہیں۔داڑھی اور مونچھ رکھنامردانگی کی علامت اور اسلامی شعار تو ہے ہی لیکن داڑھی اور مونچھ کے کچھ دنیاوی فائدے بھی ہیں اس لیئے ہم کہ سکتے ہیں کہ داڑھی رکھنا اسلامی شعار ہونے کے ساتھ بہت سے دنیاوی فوائد کا سبب بھی ہے مثلاًمونچھ کے بالوں میں ایک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے اور اگر پانی پیتے وقت مونچھ کے بال پانی میں ڈوب جائیں تووہ پانی صحت کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کے فیشن کے دلدادہ لوگ بھی مونچھیں منڈوانے لگے ہیں لیکن اسلام نے اس کا یہ انتظام فرمایا کہ مونچھوں کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ مونچھ کے بال پانی میں نہ ڈوبیں لیکن مونچھیں منڈوانے کو منع کیا کیونکہ مونچھیں منڈوانے سے نامردی آتی ہے۔اسی طرح داڑھی رکھنے کے بھی بہت سے فائدے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں۔داڑھی مرد کے چہرے کانور اور زینت ہے،جیسے عورت کے لیئے سرکے بال اور آنکھوں کی پلکیں اور بھویں زینت ہیں اسی طرح مرد کے لیئے داڑھی مونچھ اس کے چہرے کی زینت ہیں جس طرح اگر کوئی عورت اپنے سر کے بال منڈادے تو بری معلوم ہوگی یا اگر مر د اپنی بھویں یا پلکیں صاف کرڈالے تو برامعلوم ہوگا اسی طرح اگر مرد اپنی داڑھی منڈوالے تو وہ برا لگے گا۔داڑھی کے بالوں میں قوت مردانگی ہوتی ہے اس حوالے سے راقم نے شہر کے ایک نامور حکیم سے رابط کیا تو ان کا کہنا تھا کہ :’’میرے پاس ایک نامردی کامریض آیا اور کہا کہ میں نے بہت علاج کرایا مگر میری مردانگی کی قوت بحال نہ ہوسکی تو میں نے اس کلین شیومریض سے کہا کہ تم داڑھی رکھ لو کیونکہ یہ نامردی دور کرنے کا آخری اور تیربہدف نسخہ ہے اور پھرمیں نے اسے سمجھانے کے لیئے یہ بھی بتایا کہ رب کائنات نے انسان کے بعض اعضاء کا بعض اعضاء سے تعلق رکھا ہے مثلاً اوپر کے دانت اورداڑھی کا آنکھ سے تعلق ہے اگر کوئی شخص اوپرکی داڑھیں نکلوادے تو آنکھ خراب ہوجاتی ہے اسی طرح پاؤں کے تلوں کا بھی آنکھوں سے رشتہ ہے کہ اگر کسی کی آنکھوں میں حرارت ہو تو اس کے تلوں کی مالش کی جاتی ہے اور اگر نیند نہ آئے تو نمک اور گھی سے تلووں کی مالش کی جاتی ہے بالکل اسی طرح داڑھی کا تعلق بھی مرد کی قوت اور مادہ منویہ سے ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے چہرے پر داڑھی نہیں آتی اور نابالغ بچہ اور ہیجڑہ کو جس میں مادہ منویہ نہیں ہوتا اس کو بھی داڑھی نہیں آتی بلکہ اگر کسی مرد کی داڑھی ہو اور اس کے فوطے نکال دیئے جائیں تواس کی داڑھی خود بخود جھڑ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ داڑھی کا تعلق براہ راست مرد کی قوت مردانگی سے ہے۔میری یہ باتیں سن کر وہ مریض چلا گیا اور جب کچھ عرصہ بعد میری اس سے سرراہ ملاقات ہوئی تو اس کے چہرے پر شرعی داڑھی تھی اور وہ بہت خوش باش نظر آرہا تھا‘‘۔
داڑھی کی شرعی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیئے تاریخ اسلام کا ایک مشہور واقعہ قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کے پیش نظر یہاں تحریر کیا جارہا ہے۔

مشہور واقعہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں کسریٰ بادشاہ کے دو قاصد آئے ،ان دونوں کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں،رسول اﷲ ﷺ نے ان کی طرف سے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور ان کی صورتوں کو دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا اور ان سے پوچھا’’تمہیں داڑھی منڈانے کا حکم کس نے دیا؟وہ بولے کہ’’ ہم کو یہ حکم ہمارے رب کسریٰ نے‘‘(عجمی لوگ اپنے بادشاہ کو رب کہا کرتے تھے)رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے تو میرے رب نے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم فرمایا ہے(البدلیتہ والنہایتہ وغیر ھما)ایک روایت میں اس واقعے کے حوالے سے یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے ان دونوں قاصدوں سے فرمایا کہ :’’اﷲ کی قسم اگر قاصدوں کو قتل کرناجائز ہوتا تومیں تمہاری گردنیں اڑا دیتا،یہ تم نے کیسی شکلیں بنا رکھی ہیں‘‘۔اس واقعے کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی شریعت میں داڑھی کا کیا مقام اور حیثیت ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ نے ان چہروں کو دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا جن کی داڑھی نہیں تھی اور ان کی طرف سے آپ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک پھیرلیا۔اور کیا دنیا میں کسی شخص کا چہرہ نبی آخرالزماں ﷺ کے چہرہ پر نور سے زیادہ اچھا ہوسکتا ہے ؟ یہ وہی چہر ہ مبارک ہے جس کے بارے میں خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:’’مجھے ان کی طرف دیکھنا دنیا ومافیہ سے زیادہ پسند ہے‘‘۔ اور یہ انہوں نے رسول اﷲ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں کہا تھا جن کا چہرہ مبارک داڑھی سے سجا ہوا تھا۔اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ تمام انبیائے کرام کی داڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں اور خود حضرت محمد ﷺ کی داڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی اوردونوں طرف سے سینہ بھرتی تھی جس کا تذکرہ شمائل ترمذی شریف میں شامل ہے۔

چاروں خلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ،حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ،حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت علیرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بھی بڑی داڑھیاں تھیں اور ویسے بھی داڑھی کا مونڈنا یا کاٹنا مجوسیوں اور مشرکین سے مشابہت اختیار کرنا ہے اس لیے اس سے بچنا مسلمانوں کے لیئے فرض کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ ایک حدیث میں واضح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں کہ: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔چنانچہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ:’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘۔

دین اسلام کے مختلف فرقوں میں داڑھی اور مونچھ کی ہئیت اور مقدار کے حوالے سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایک اسیا غیرمسلم شخص جو نیا نیا دائرہ اسلام میں داخل ہوا ہویہ دیکھ کر بہت کنفیوز اور پریشان ہوجاتا ہے کہ اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں میں داڑھی جیسے مسئلے پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔

داڑھی کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اظہار ان باتوں سے ہوتا ہے کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ احادیث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ داڑھی کو بالکل ہاتھ نہ لگایا جائے خواہ داڑھی کتنی ہی بڑی ہوجائے بلکہ احادیث کا منشاء یہ ہے کہ مجوسیوں کی مخالفت کی جائے جواپنی داڑھیاں منڈاتے اور چھوٹی کرواتے ہیں اسی لیئے اس جماعت کے کچھ لوگ جن میں احناف بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر داڑھی ایک مٹھی سے زائد ہوجائے تو زائد حصہ کاٹ دینا چاہیئے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہرضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت محمدﷺ اور ان کے رفقاء اپنی داڑھی کو ایک مٹھی سے بڑی ہونے پرزائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے ۔

امام بخاری کا رجحان بھی یہی تھا کیونکہ وہ اپنے حلقہ میں داڑھی کو چھوڑنے اور مونچھ کو کاٹنے کی تلقین کیا کرتے تھے اور اس موقع پر وہ حضرت ابن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ ا کایہ فعل ذکر کیا کرتے تھے کہ جب وہ حج یا عمرہ کو جاتے تو اپنی مٹھی کو پکڑتے اور جو داڑھی اس سے زائد ہوتی اور اس کو کاٹ دیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری جلد2 ،صفحہ875 )جبکہ ایک دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ داڑھی کو ہاتھ ہی نہیں لگانا چاہیئے اور اسے بڑھنے دیا جانا چاہیئے البتہ عمرہ یا حج کے وقت داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹا جاسکتا ہے ۔ابوداؤد میں حضرت جابرسے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سبال کو(لمبی داڑھی کو) چھوڑ دیتے تھے مگر صرف حج یاعمرہ پر جاتے وقت اس کوکم کردیتے تھے اور اس موقف کے حامی یہ کہتے ہیں کہ داڑھی کو صرف عمرہ یا حج کے وقت کم کرنا چاہیئے لیکن دوسرے وقت میں نہیں۔(فتح الباری صفحہ350 )

بہت سے لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھنا صرف سنت ہے اور واجب نہیں ہے اور اگر نہ بھی رکھی تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ داڑھی رکھنا ہر مکتبہ فکر کے نزدیک ایک واجب شرعی شعار ہے جس کا رکھنا ہر مسلمان مر د کے لیئے واجب ہے البتہ داڑھی کی شرعی مقدار کیا ہونی چاہیے اس پر معمولی اختلاف پایا جاتا ہے لہذا داڑھی بالکل صاف کردینا تو ہر لحاظ سے ایک غلط فعل ہے جس سے تائب ہوکر ہر مسلمان مرد کو داڑھی رکھنی چاہیئے اور حال ہی میں مصر کے عالم دین کا جو نیا فتویٰ سامنے آیا ہے کہ :’’داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے جس کی بیخ کنی کی جانی چاہیئے اور علما ء کو بھی اسلامی شعائر سے متعلق کوئی بات کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا چاہیئے۔

راقم الحروف نے اس دلچسپ تحقیقاتی رپورٹ کے لیئے ممتاز عالم دین مولانا محمدولی رازی صاحب سے رابط کرکے داڑھی اور مونچھ کی شرعی حیثیت اور مقدار کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔
ممتاز عالم دین مولانا محمدولی رازی نے داڑھی کی شرعی حیثیت اور مقدارکے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فر مایاکہ:’’داڑھی صرف اسلام کا شعار ہی نہیں ہے بلکہ مردانہ فطرت کا ایک جزو ہے ،مردانگی کی علامت ہے اس کے مقابل داڑھی نہ ہونایا اس کا منڈانا زنانہ پن کی علامت ہے ۔تاریخ اٹھا کر دیکھئے ،صرف دو تین صدیوں سے پہلے مسلم،غیرمسلم،مغربی اور مشرقی اقوام کے لیڈروں اورسائنس دانوں کی تصاویر میں بھی ان کی لمبی داڑھی نظرآتی ہے۔مغرب کی اندھی تقلید میں جہاں ہم نے ان کے لباس،ان کی زباناور ان کی معاشرتی اقدار کو اپنا کران کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا،وہیں ہم نے داڑھی جیسے مقدس شعار کو رخصت کردیا ۔آج بھی بعض اقوام کے افراد میں داڑھی نکلتی ہی نہیں ہے تو ان کو یہ داڑھی منڈانے والے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے ہیں۔

مسلمان اقوام اپنے آخری رسول حضرت محمدﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں،اپنے آباواجداد پر فخر کرتے ہیں لیکن عجیب بات ہے اور بہت افسوسناک بات ہے کہ اپنے محبوب رسولﷺ کے دشمنوں کی تقلید میں داڑھی منڈاتے ہیں اور حبیب رب العالمین کا دل دکھاتے ہیں،یہ کیسی محبت ہے ؟داڑھی کی شرعی حیثیت سے پہلے یہ بات سمجھ لیجئے کہ داڑھی رکھنا صرف شریعت کا حکم ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کی شناخت ہے،اس کا منڈانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اس موقف سے تمام فقہا متفق ہیں۔آنحضرت محمدﷺ کایہ عام حکم ہے کہ داڑھی بڑھاؤاور مونچھیں کٹواؤ۔اس حکم کی مخالفت رسول اﷲ ﷺ کے ایک صریحی حکم کی خلاف وارزی ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ،تمام صحابہ کرام،تمام اولیائے کرام ،محدثین،فقہا اور صالحین سب داڑھی والے تھے۔داڑھی سے نفرت کرنے والا کیا ان تما م مقدس ہستیوں کا ماننے والا کہلائے گا؟’’آنحضرت محمد ﷺ نے داڑھی کے رکھنے کا حکم فرمایا۔داڑھی منڈانے والے کے لیئے ہلاکت کی بد دعا فرمائی اور اس کی شکل دیکھنا گوارہ نہیں فرمایا،اس لیئے داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے اور اس کامنڈانا اور ایک مشت سے کم ہونے کی صورت میں اس کا کاٹنا تما م آئمہ دین کے نزدیک حرام ہے‘‘(آپ کے مسائل اور ان کا حل۔مولانا یوسف لدھیانوی رحمتہ اﷲ علیہ،جلد7 صفحہ 89 )اسی طرح صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں،مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا۔انی آخرہ (حوالہ بالا92 )

صحیح بخاری کی اس سخت وعید پر غور فرمائیے ۔’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور اﷲ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں‘‘۔(حوالہ بالااز مشکوات صفحہ 280 ) اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے ۔آج امت مسلمہ کے مرد اور عورتیں ان دونوں لعنتوں کو اپنائے ہوئے ہیں ۔مرد داڑھی منڈانے کے علاوہ ہاتھوں میں کنگن،کانوں میں بندے اور سر پر چوٹیاں لٹکائے پھر رہے ہیں اورعورتیں کوٹ پتلون پہنے ہوئے ہیں اور ان کے سرکے بال مردوں کی طرح کٹے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں اور کانوں میں نظر آنے والے زیورات مردوں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔جس عمل کے لیئے آنحضرت محمدﷺ نے ہلاکت کی بددعا کی ہو ،اس کی شکل دیکھنا گواراہ نہ کیا ہو اس کو اپنی زندگی میں داخل کرکے اﷲ کی لعنتوں کا لباس پہننا کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ خود کرلیجئے۔اب داڑھی کی مقدار کا معاملہ لیجئے۔اسلام نے مجوسیوں اور یہودیوں سے مخالفت کے لیئے اس کی ایک مقدار متعین کی ہے جو ایک مشت یعنی ایک قبضہ ہے اس سے کم کٹاناکہ وہ ایک مشت سے کم رہ جائے حرام ہے جبکہ ایک مشت سے زائد حصہ کٹوانا جائز ہے۔حضرت مفتی محمد شفیع رحمت اﷲ علیہ نے ایک آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ’’وہ اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور یہ اعمال فسق میں سے ہے۔جیسے داڑھی منڈانا اور بدن گدوانا وغیرہ (معارف القرآن جلد2 صفحہ549 )یعنی داڑھی منڈانا مفتی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک اعمال فسق میں سے ہے اور داڑھی منڈانے والا فاسق ہے۔اس عام ابتلا ء کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھناایک ایسی سنت ہے کہ اگر کوئی رکھے تو اچھی بات ہے اور نہ رکھے تب بھی کوئی گناہ نہیں ہے ،یہ غلط فہمی ایک شیطانی فریب ہے اس سے بچنا ضروری ہے‘‘۔
مذکورہ بالاتحقیق اور ممتاز عالم دین کی رائے کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب اور محبوب ترین عمل ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اپنی عاقبت نااندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے رحمت عالم حضرت محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی بجائے مجوسیوں کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں جو بے غیرتی کی واضح دلیل ہے اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ داڑھی منڈے ،داڑھی رکھنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کو بری نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں جو یقیناً اﷲ تعالیٰ کے غیض وغضب کا باعث ہے ایسے لوگوں کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیئے کہ اس داڑھی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیئے جوآقائے کائنات حضرت محمد ﷺ کی محبوب ترین سنت ہے۔داڑھی سے عقیدت و محبت رکھنا اور اس کو توہین سے بچنا ضروی ہے کہ داٖڑھی رکھنا سنت رسولﷺ ہے اور سنت کی توہین کفر ہے۔

بہت سے لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھنا صرف سنت ہے اور واجب نہیں ہے اور اگر نہ بھی رکھی تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ داڑھی رکھنا ہر مکتبہ فکر کے نزدیک ایک واجب شرعی شعار ہے جس کا رکھنا ہر مسلمان مر د کے لیئے واجب ہے البتہ داڑھی کی شرعی مقدار کیا ہونی چاہیے اس پر معمولی اختلاف پایا جاتا ہے لہذا داڑھی بالکل صاف کردینا تو ہر لحاظ سے ایک غلط فعل ہے جس سے تائب ہوکر ہر مسلمان مرد کو داڑھی رکھنی چاہیئے اور حال ہی میں مصر کے عالم دین کا جو نیا فتویٰ سامنے آیا ہے کہ :’’داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے جس کی بیخ کنی کی جانی چاہیئے اور علما ء کو بھی اسلامی شعائر سے متعلق کوئی بات کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا چاہیئے۔

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125190 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More