میرا دوست اب مجھ میں نہیں

ایک ایسی افسانوی قصہ جس میں ہم سب کیلیۓ کچھ ہے

‎میرا سب سے پیارا دوست ایک نچھلے طبقے کا انسان ہے۔ جو ہر وقت ہنستا مسکراتا ہے۔ سب کو ہنساتا ہے۔ بچوں میں بچہ بنتا ہے اور بڑوں میں ادیب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ کسی کو زرا غمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ کھبی دُکھی بھی تھا۔ لیکن میں اس کا دوست ہونے کے ناتے اس کی ہنسی کے پیچھے چھپے درد کو روز محسوس کرتا ہوں۔ روز ایک سوال پوچھتا ہوں آخر اتنا مسکراتے کیسے ہو؟۔ بڑے ہی نرمی سے جواب ملتا ہے۔ جو کچھ پاس نہیں تو ایک دن خدا دے گا۔ اسلئے جو کچھ مل نہیں سکتا اس کا پیچھا چھوڑ دیتا ہوں- یہی ہے میرے مسکراہٹ کا راز۔ اس جواب کو سن کر میرے دل کو سکون سا مل گیا۔

‎بہت محنتی انسان تھا۔ جب بھی دیکھتا کتاب ہاتھ میں تھامے ہی دیکھتا۔ اور کہتا جب تک میں ہوں کتاب ہے۔ اس کے طبقے کی وجہ سے اس پر دباؤ بھی آہست آہستہ بڑھ گیا۔ ابو کے انتقال کے بعد گھر کی ساری زمہ داری اب ان پر تھی۔ جس کی وجہ سے روز کے پڑھائ میں خلل ہوتی تھی۔ کچھ دن ہی ہوگۓکہ ٹی وی پر اشتیاردیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔ خبر کچھ یوں معلوم ہوئ کہ تعلیمی اداروں نے ماہانہ فیس اضافہ کر دیا۔

‎اس دن کے بعد سے وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ بلکل بدل گیا۔ پھول جیسا ہنستا چھرا پیلا پڑھ چکا تھا۔دیری دیرے زہنی دباؤ بڑھتا گیا ۔ زندہ رہنا وبال بنتا گیا۔ ہر وقت اپنی ڈائری میں لکھتا کہ کیسے وہ آسمان سے زمیں بن گیا۔ اور خودکشی کے خیالات سے دو چار ہو گیا۔

‎کچھ دنوں بعد خبر آئ کہ میرا پیارا دوست اب مجھ میں نہیں رہا۔تب سے میں گناہگار کو ڈھونڈتا رہا۔ سمجھ نہیں آیا کہ آیا اصل ذمہ دار کون ہے؟

‎کیا میرا سماج ہے؟۔ کیا ملک کا قانون؟ کیا وہ خود ؟ یا پھر معاشرتی جبر؟!۔

‎انہیں سوالات نے مجھے بے حد الجھا کر رکھ دیا۔ میں بھی انہیں سوالات کو لے کر دن رات باگ دوڈ کرتا تاکہ میں ان سب کے پیچھے کی اصل وجہ جان سکوں۔

پھر وہ دن دور نہیں رہا۔ آخر باخر میں ایک نتیجہ پر آکہ ٹھک گیا۔ وہ یہ کہ ہمارے سماج اور سماج کے چلانے والے اصول ہی تھے جنکی وجہ سے میرا دوست اب مجھ میں نہیں رہا۔ ہاں شاید میں کچھ کر پاتا۔

ایک دن دریا کے کنارے ابھی سوچوں میں الجھ گیا تھا۔ خیال آیا کہ اس ملک میں اکیلا میرا دوست ہی نہیں ہے۔ بہت لوگوں کے بہت ایسے پیارے دوست ہیں۔ یا پھر کسی کا بھائ بھی ہے۔ جو نچھلے طبقہ میں پیدا ہونا گناہ سمجھتا ہو۔

میری زاتی طور پر پرائویٹ تعلیمی ادارے چلانے والے سربراہاں سے گزارش ہے کہ وہ صرف اعلی یا درمیانی طبقہ ہی نہیں نچھلے طبقہ کیلیے یعنی سب کیلیے یکساں رہنا چاہیے۔

 

S A Kareem shah
About the Author: S A Kareem shah Read More Articles by S A Kareem shah: 7 Articles with 8231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.