رمضان المبارک کا پورا مہینہ کیا دن کیا رات، کیا صبح
کیا شام اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ہمیں عنایت ہی اس لئے فرمائے ہیں کہ ہم ہر
آن ہر گھڑی اس کی عبادت اس کی یاد، حسن اعمال اور نیک کاموں میں صرف کریں
کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ مہینہ مقرر ہی اس لئے فرمایا ہے ۔ اس ماہ کی سب سے بڑے
عبادت بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اس ماہ کی اصل روح دن کا روز ہ اور رات کا
قیام (تراویح) ہیں ۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی ایک طویل حدیث
میں آتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ
نے ماہِ رمضان کے روزہ کو فرض فرمایا ہے اور اس کے قیام (تراویح) کو ثواب
کی چیز بنایا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ)لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی وجہ (مثلاً
سستی و کاہلی ، بیماری و نقاہت ، دنیوی و معاشی مصروفیات وغیرہ) سے اس ماہ
میں دیگر عبادات و ریاضات اور نیک اعما ل کرنے کا موقع میسر نہ بھی آئے تب
بھی دن میں اس کا روزہ اور رات میں اس کا قیام (ترایح) اس کے لئے بہت ضروری
ہے ، اس لئے کہ اگر ماہِ رمضان میں کوئی شخص ان دو چیزوں کی بھی پابندی نہ
کرسکے جو اس ماہ کی اصل روح ہیں یا پابندی تو کرے لیکن اس کے حقوق و فرائض
سے پہلو تہی برتے اور اس کی شرائط و آداب کا خیال نہ رکھ سکے تو پھر ایسے
شخص کا رمضان ہی کیا ہے؟ بلکہ ایسا شخص تو رمضان المبارک کے تمام برکات و
انوارات سے کلیتاً محروم ہے اورایسے شخص کے بارے میں احادیث مبارکہ میں
حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بڑی سخت سے سخت وعیدیں وارد
ہوئی ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں سوائے بھوکا رہنے کے
اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے رات کو جاگنے والے( اور جاگ کرعبادت
کرنے والے) ایسے ہیں کہ ان کو سوائے رات کے جاگنے(کی مشقت) کے اور کچھ بھی
نہیں ملتا۔ (نسائی، ابن ماجہ)
علماء کے اس حدیث کی شرح میں چند اقوال ہیں: اوّل یہ کہ اس سے وہ شخص مراد
ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر مالِ حرام سے افطار کرتا ہے کہ جتنا ثواب روزہ کا
ہوا تھا اس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہوگیااور دن بھر بھوکا رہنے کے
سوا اور کچھ نہ ملا۔ دوسرے یہ کہ (اس سے) وہ شخص مراد ہے جو دن بھر روزہ
رکھتا ہے لیکن جھوٹ اور غیبت میں بھی مبتلا رہتا ہے کہ اس سے بھی روزہ پھٹ
جاتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ کسی نے عرض کیا یارسول اﷲ!
روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جھوٹ اور غیبت سے روزہ پھٹ جاتا ہے۔تیسرے اس سے وہ شخص مراد ہے جو روزہ کے
اندر گناہ وغیرہ سے احتراز نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
ارشادات جامع ہوتے ہیں ۔ یہ سب صورتیں اس میں داخل ہیں اور ان کے علاوہ بھی۔
اسی طرح جاگنے کا حال ہے کہ رات بھر شب بیداری کی مگر تفریحاً تھوڑی سی
غیبت یا کوئی اور حماقت بھی کرلی تو وہ سارا جاگنا بے کار ہوگیا، مثلاً صبح
کی نماز ہی قضاء کردی یا محض ریا اور شہرت کے لئے جاگاتو وہ بے کار ہے۔ (فضائل
رمضان: ص۲۸)
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزہ آدمی کے لئے ڈھال ہے
جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ (نسائی، ابن ماجہ) ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ
جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی
شیطان سے حفاظت ہوتی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ روزہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب
سے ڈھال یعنی حفاظت ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ روزہ جہنم سے ڈھال یعنی
حفاظت ہے۔ ان چیزوں سے روزہ تب ہی ڈھال ہے جب کہ روزہ دار اس کو غیبت جھوٹ،
جھگڑا فساد، بدگوئی بدکلامی اور چغل خوری وغیرہ کے ذریعہ اس کو پھاڑ نہ
ڈالے کہ ان چیزوں سے روزہ کے انوارات و برکات جاتے رہتے ہیں اور معاصی و
گناہ کے سیاہ بادل چھاتے رہتے ہیں۔ غیبت اور جھوٹ سے اگرچہ جمہور علماء کے
نزدیک روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن بعض علماء کے نزدیک ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتاہے
، تاہم جھوٹ اور غیبت سے روزہ کے انوارات و برکات جاتے رہنے سے تو کسی کو
بھی انکار نہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ مغفرت اور بخشش کا مہینہ کہلاتا ہے اس میں اﷲ
تعالیٰ کے یہاں سے رمضان المبارک کی ہر شب و روز میں (جہنم کے) قیدی چھوڑے
جاتے ہیں(مسند بزار) ایک اور روایت میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت
ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق
ہوچکے تھے اور جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آج تک جس قدر
لوگ جہنم سے آزاد کئے گئے تھے ان کے برابر اس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں ۔
(الترغیب والترہیب) لیک وہ شخص بڑا ہی بد قسمت اور بہت ہی بدنصیب ہے کہ جس
کورمضان المبارک کا مہینہ اﷲ تعالیٰ نے میسر فرمارکھا ہو اور پھر بھی وہ اس
کے انوارات و برکات سے محروم رہے ، اس کے حقوق و آداب سے پہلو تہی برتے اور
اس میں وہ اﷲ تعالیٰ سے اپنی مغفرت اور بخشش نہ کراسکے۔ چنانچہ ایک حدیث
میں آتا ہے حضرت کعب عجرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ! ہم لوگ حاضر ہوگئے،
جب حضور صل اﷲ علیہ وسلم نے منبر کے پہلے درجہ پر پاؤں رکھا تو فرمایا
آمین! جب دوسرے پر پاؤں رکھا تو پھر فرمایا آمین! جب تیسرے پر قدم رکھا تو
پھر فرمایا آمین! جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ
ہم نے آج آپؐ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی
تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام
میرے سامنے آئے تھے۔ (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا کہ
ہلاک ہوجیو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایاپھر بھی اس کی مغفرت نہ
ہوئی میں نے کہا آمین!…… الخ۔‘‘ (مستدرک حاکم) مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک
جیسا خیر و برکت والا مہینہ بھی غفلت اور معاصی میں گزر جائے کہ رمضان
المبارک میں تو مغفرت اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے، لہٰذا
جس شخص کا رمضان المبارک کا مہینہ بھی اسی طرح گزرجائے کہ اس کی بداعمالیوں
اور کوتاہیوں کی وجہ سے اس کی مغفرت اور بخشش نہ ہوسکے تو اس کی ہلاکت و
بربادی میں کسی کو کیا تردد ہوسکتا ہے؟۔ |