محۂ تخلیق زمانِ خالص سے زمانِ متسلسل میں وارد ہوتاہے۔
یا یوں کہیے کہ عالمِ امرسے عالمِ خلق میں تبدیل ہوکر مشہود ہوجانے والی
تخلیق کا عین وہ لمحہ کہ جب وہ اپنے خالق کے فعل میں درآئے یا وجدان سے
چھلک اُٹھے لمحۂ تخلیق کہلاتاہے۔ یہ اپنی تاثیر میں یکتا ہے۔ خوشی تو خوشی
ہے۔ مُسرت اُس سے قدرے لطیف ہے لیکن سرشاری کی کیفیت ایک سعادت ہے۔ یہ مئے
جیسی تاثیر کی حامل ہے۔ جیسے کوئی نشہ سا ہو۔ لیکن لفظ نشہ اِس کی احاطہ
بندی کے لیے اتنا حقیر ہے کہ لمحۂ تخلیق کی اصلیت ہی دھندلانے لگتی ہے۔
عام طورپر لمحۂ تخلیق کی شناخت ایک مشکل مہارت ہے لیکن موسیقی وہ میدان ہے
جہاں اِس خاص لمحے کا ورُود تیزی سے پکڑا اور مشاہدہ میں لایا جاسکتاہے۔ اس
کے بعد شاعری اور مصوری میں قدرے آسانی سے اس کے نزول اور موجودگی کو
محسوس کیا جاسکتاہے۔ چونکہ تخلیق فقط موسیقی، شاعری اور مصوری تک محدود
نہیں اس لیے لمحۂ تخلیق کی روحانیت جابجا بکھری ہوئی ہے وگرنہ یہ کائنات
اپنی تنہائی کے دکھ سے اب تک معدوم ہوچکی ہوتی۔
کسی تخلیق کار پر جب یہ لمحہ وارد ہوتاہے تو گویا بارش کی طرح برستاہے۔
تخلیق کار جہاں بیٹھاہے وہاں کے ماحول پر بھی ویسی ہی پھُوار پڑتی رہتی ہے
جیسی کہ تخلیق کار کے دل پر اور یوں تخلیق کار کے گردونواح میں موجود لوگ
یا حجروشجر بھی لمحۂ تخلیق کی اس سعادت میں شامل ہوجاتے ہیں جو اپنی اصل
میں الوہی ہے۔ الوہی اس لیے کہ یہ زمانِ خالص سے زمان متسلسل میں وارد ہوئی
ہے۔ زمان ِ متسلسل یہ زمانہ ہے جسے ہم پہچانتے ہیں۔ یعنی ماضی، حال اور
مستقبل والا زمانہ جبکہ زمانِ خاص ماضی اور مستقبل سے پاک ہے۔ وہ ایک ابدی
حال ہے۔ اس سے زمانے کی متعدد لڑیاں اور شاخیں برآمد ہوتی ہیں جن میں
زمانِ متسلسل ایک لڑی ہے۔ یہ گویا عالم امر ہے جو علیّت سے پاک ہے لیکن جب
عالمِ خلق میں ظاہر ہوتاہے تو گویا ماضی، حال اور مستقبل کی علّیت بھی بطور
خلعتِ فاخرہ، پہن کر نمودار ہوتاہے۔ علیت کیا ہے؟ یہ شئے اُس شئے کے ہونے
کا باعث بنی۔ پانی دیا تو پودے اُگے وغیرہ وغیرہ۔ علیّت کا لازمی رشتہ ماضی
اور مستقبل کے ساتھ ہے۔ علیت سے پاک زمانہ عالم ِ امر میں وجود رکھتاہے اور
وہی زمانِ خالص ہے۔ اور لمحۂ تخلیق زمانِ خالص سے آیا ہوا لمحہ ہوتاہے۔
اس بات سے ہر تخلیق کار کا دل واقف ہوتاہے لیکن وہ خود غالباً اس کے فلسفے
سے ناواقف ہوتاہے۔
اور بھی کئی چیزیں ہیں جو زمانِ خالص سے وارد ہوتی ہیں جیسا کہ علم، لیکن
آج لمحۂ تخلیق کا ذکر بطورِ خاص مقصود ہے۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ
لمحۂ تخلیق ایک لمحہ ہے، خود تخلیق نہیں ہے۔ تخلیق تو تخلیق کار سے برآمد
ہوئی۔ تخلیق جس لمحے میں برآمد ہوئی یہاں زمانے کے اس لمحے سے متعلق بات
کی جارہی ہے۔ وہ لمحہ سب پر کبھی نہ کبھی ضرور طاری ہوتاہے۔ ہرکوئی تھوڑا
بہت تخلیق کار ہوتاہے۔ تخلیق کرنا بنیادی طورپر خلاقِ عالم کی صفت ہے۔ لیکن
خدا کے بندوں کے پاس خدا کے بہت سے اسرار اور بھی ہیں، ہم کس کس کا ذکر
کرینگے۔ خلاقِ عالم کی یہ صفت، یعنی صفت تخلیق گویا صفتِ کُن ہے۔ وہ سب
تخلیق کار جو حقیقی تخلیقات پیش کرتے ہیں اللہ کی صفتِ کُن سے متصف ہوتے
ہیں۔ ان کے قلب پر نازل ہونے والی واردات مشہود ہوکر کسی شئے یا خیال کی
صورت اختیار کرلیتی ہے۔ ایک ایسی شئے یا ایسا خیال جس کا وجود خدا کی بنائی
ہوئی اِس کائنات میں پہلے بالکل نہیں تھا۔ اگر کسی کی بنائی شئے کا وجود
پہلے سے تھا تو وہ تخلیق نہیں ہوسکتی۔ وہ فقط نقالی ہےیہی وجہ ہے کہ اس کے
مکرر اظہاریے پر بنانے والا لمحہ ٔ تخلیق کی سعادت سے بھی محروم رہتاہے۔
بس آخری بات کہنی بہت ضروری ہے کہ خدا کی کسی بھی صفت سے متصف ہونا کوئی
بڑا کمال نہیں۔ یہ تو خود انسان میں ودیعت بھی ہے اور اس کی صدیوں کی ریاضت
بھی کہ وہ برتر صفات اختیار کرسکتاہے۔ بڑا مصور بن جانے سے کوئی بڑا آدمی
نہیں بن جاتا۔ ضرور اس کی زندگی میں لمحہ ہائے تخلیق بے شمار آئے اور اس
نے اپنے خدا جیسا ہونے یعنی صاحب ِ کُن ہونے یعنی ذاتِ حق کی کسی ایک صفت
سے متصف ہونے کا لطف لیا لیکن وہ ایسا کرلینے سے بڑا انسان نہیں بن سکتا۔
بڑا انسان بننا اور بات ہے۔ وہ فقط سرشار ہوا۔ ظاہری زندگی میں دُکھوں سے
اٹا ایک شاعر اندرونی زندگی سب انسانوں سے بہتر گزار گیا کہ اس نے لمحۂ
ہائے تخلیق زیادہ گزارے۔ بڑا انسان بننے کے لیے نہایت ہی عجیب راستہ
رکھاگیاہے۔ وا حسرتا!!!!
بڑا انسان بننے کے لیے واحد راستہ ہے کہ خدا کی کسی صفت سے متصف نہ ہوا
جائے کیونکہ خدا کی صفات اس کی ذات سے الگ ہیں۔ خدا کی صفات سے متصف ہوکر
سرشاری تو ملتی ہے۔ وہ سرشاری آئی ہوئی بھی زمانِ خالص سے ہوتی ہے لیکن
زمانِ خالص کا یہی وہ جرعہ ہے جو ایک انسان کو معکوس راستے پر ڈال سکتاہے۔
اسی جرعے نے ابلیس کو عزازیل سے شیطان بنا دیا تھا۔
بڑا انسان تخلیقات سے نہیں بنتا نہ ہی علم سے۔ بس موضوع سے ہٹ کر صرف اتنا
کہونگا کہ بڑا انسان لوگوں میں، بالکل عام اور سادہ لوگوں میں گھُل مِل
جانے سے بنتاہے۔ وہ اپنی ہر انفرادی شناخت کو عام لوگوں میں گم کردیتاہے۔
وہ معاشرے میں ایک کُل کا حصہ بن کر کھوجاتاہے۔ وہ منفرد ہونے کے شوق میں
سب سے جدا نہیں کھڑا ہوتا۔ جو سب جیسا دِکھنے کے شوق میں سب کے درمیان کھڑا
ہوتاہے۔ وہ جو انسانی اجتماع کی اکائی بننا چاہتاہے نہ کہ کسی ایلیئن نسل
کے اشرافیہ کے گروہ کی اکائی۔ وہی بڑا انسان ہے۔ |