افطاری میں چندمنٹ ہی باقی تھے کہ ایک نوجوان خو بصورت
دھان پان نازک سی لڑکی ‘سرپردوپٹہ اوڑھے میرے پاس آئی ‘میرے سامنے پڑی
میزپر کھجوریں‘مکس دودھ سوڈااورفروٹ چاٹ رکھتے ہو ئے دھیرے سے بولی سرآپ
اگر میری چیزوں سے افطاری کریں گے تو میرے لیے بہت خوشی اور سعادت کی بات
ہو گی ‘لڑکی کے چہرے پر عقیدت و احترام کے رنگ بکھرے ہو ئے تھے اُس کی بڑی
بڑی خو بصورت آنکھوں میں سوال مچل رہے تھے ‘میں نے خو شگوار حیرت کے ساتھ
فوری ہاں کر دی تو سامان رکھ کر آگے بڑھ گئی ‘میں اِس خو شگوارحادثے کے لیے
تیار نہیں تھا۔میں افطارٹرانسمیشن کے لیے ٹی وی چینل پر آیا ہوا تھااِ ن ٹی
وی چینلزپر سحری اورافطاری میں زیادہ تر بازاری چیزیں ہی دی جاتی ہیں ‘جن
کا معیار اور ذائقہ برائے نام ہی ہوتاہے ‘میں سوکھے سڑے سموسے شیرے میں
ڈوبی فروٹ چاٹ اور خشک بد ذائقہ پکوڑوں کی تو قع کر رہا تھا لیکن اِس لڑکی
نے گھر کی چیزیں نفاست سے میرے سامنے رکھ کر میرے دل میں جگہ بنا لی تھی
‘افطاری کے بعد جب وہ برتن سمیٹنے آئی تو میں نے شفیق لہجے میں کہا بیٹی اﷲ
تمہارا بھلا کرے اِس نیکی کا ثواب خوب خوب اﷲ تعالی تمہیں دے ۔ میرے دعائیہ
کلمات سن کر وہ میرے سامنے بیٹھ گئی اُس کی آنکھوں میں شکرانے کے تاثرات کے
ساتھ پانی کی نمی بھی نظر آرہی تھی یہ خو شی کے آنسوؤں کی نمی تھی ‘لڑکی
باطنی طورپرمذہبی لگ رہی تھی ‘جس کی تربیت نیک والدین کے ہاتھوں ہو ئی ہو
‘اب وہ بو لی سرشکریہ تو آپ کا جو آپ نے مجھے افطاری کی نیکی سمیٹنے کا مو
قع دیا ‘سر پتہ نہیں میراروزہ قبول ہوگا کہ نہیں لیکن جو میں کسی کی افطاری
کراؤں گی تو وہ یقینا قبول ہو گی ‘سر یہ نیکی کی عادت میں نے اپنی نانی
اماں سے سیکھی ہے جو ساراسال رمضان میں افطاری کے لیے بچت کر تی ہیں کمیٹی
ڈالتی ہیں پھر پیسہ پیسہ جوڑ کر اچھی خا صی رقم جمع کر کے رمضان میں غریبوں
کو افطاری کا سامان دیتی ہیں ‘مسجد میں افطاری کا سامان بھیجتی ہیں ‘ محلے
میں لذیز چیزیں بنا کربھیجتی ہیں ‘میری نانی اماں کہتی ہیں پتہ نہیں میرا
روزہ قبول ہو گا کہ نہیں لیکن جن لوگوں کی میں افطاری کراؤں گی اُن میں سے
پتہ نہیں کس کی افطاری میرے لیے ذریعہ نجات اورباعثِ ثواب بن جائے ‘میں خو
شگوار حیرت سے بیٹی اور اُس کی نانی اماں کی پرورش اور شائستگی کو دیکھ رہا
تھا کہ کس طرح خو شبو سے خوشبو ‘ چراغ سے چراغ جلتا ہے ‘ میں اپنے سامنے
عملی طور پر نمو نہ دیکھ رہا تھا کہ ماں آنے والی نسل کی تربیت کر تی ہے
جیسی ماں ویسی بیٹی کی زندہ مثال میرے سامنے تھی ۔ لڑکی میڈیا میں ٹریننگ
لینے آئی ہوئی تھی ۔اور میڈیامیں آنے کے باوجوداُس نے اپنی نیک شناخت قائم
رکھی ہو ئی تھی ‘ نیکی اور کردار کی خوشبو اُس کی شخصیت سے جھلک رہی تھی ‘
لڑکی الوداعی سلام کے بعد اٹھ گئی لیکن میرے دل و دماغ کو کردار اورسیرت کی
خوشبو سے معطر کر گئی ‘ یقینا ایسی ہی بچیاں ہوتی ہیں جو شوہر کے آنگن کو
جنت کا ٹکڑا بنا دیتی ہیں ‘ ایسی عظیم ما ؤں کی کوکھ سے ہیرو پیدا ہوتے ہیں
جو زمانوں کے رخ پلٹ دیتے ہیں ۔ خوش قسمت ہو تے ہیں وہ ماں باپ جہاں ایسی
بچیاں جنم لیتی ہیں ‘جن کی یہ بیویاں بنتی ہیں ‘جن کی یہ مائیں بنتی ہیں
ہمارا معاشرہ ایسی ہی بچیوں کے وجود سے قائم و دائم ہے ‘ اِس افطاری کے
ساتھ ہی مجھے لا ہور سے پچاس کلو میٹر دور گاؤں کی وہ افطاری یاد آگئی جو
میرا زمیندار دوست ہر سال کر تا ہے اُس کی افطاری کی خاص بات یہ ہو تی ہے
کہ یہ آبادیوں سے دور سر سبز شاداب لہلاتے کھیتوں کے درمیان میں کرا ئی
جاتی ہے جس میں سینکڑوں لو گ ذوق شوق سے شریک ہو تے ہیں ‘ ہر سال کی طرح
اِس سال بھی ہمارا کا رواں مختلف گاڑیوں میں لا ہور سے جب روانہ ہوا تو نہر
پر شدید ٹریفک جام نظر آئی لیکن سڑک کے کنا رے کچھ لوگ افطاری کے پیکٹ بنا
ئے لوگوں میں بانٹتے نظر آئے ‘ معاشرے کے کسی مخیر آدمی نے افطاری کا
اِسطرح اہتمام کیا ہوا تھا اُس نیک شخص کے رضا کار افطاری کے پیکٹ برق
رفتاری سے لوگوں میں بانٹ رہے تھے کہ آپ لو گ سفر پر جا رہے ہیں ‘راستے میں
اگر افطاری کا وقت ہو جائے تو آپ افطاری کر لیجیے گا ‘افطاری کے پیکٹ اور
جو س کی بوتلیں وہ مسافروں کو دے رہے تھے آپ افطاری سے پہلے اگروطن عزیزکی
سڑکوں پر دیکھیں تو جگہ جگہ پر آپ کو ایسے فرشتے نظر آئیں گے جولوگوں میں
محبت سے افطاری کے پیکٹ بانٹ رہے ہو تے ہیں ‘ بہت ساری جگہوں پر سڑک کے کنا
رے زمین پر لمبے دستر خوان بچھا کر سینکڑوں لوگوں کو افطاری کرا ئی جا تی
ہے ایسے لوگ رمضان المبارک میں اپنی بند تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں ‘
راشن کے ٹرکوں کے ٹرک ملک کے دوردرازعلاقوں میں بھیجتے ہیں ‘ ہسپتالوں لاری
اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر لوگوں کو افطاری کر واتے ہیں ‘یقینا ایسے ہی
لوگ ہو تے ہیں جن کے وجود سے معاشرے زندہ ہو تے ہیں ‘لوگوں کی بے پنا ہ
محبت کی وجہ سے مجھے مختلف قسم کی افطاریوں میں جانے کا موقع ملتا ہے ‘
فائیو سٹار ہوٹلوں میں امیر بے دریغ اپنی دولت کا اشتہار لگا تے نظر آتے
ہیں اُن افطاریوں میں معاشرے کے بااثرلوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ‘بااثر
لوگوں سے تعلقات کا رعب ڈالاجا تاہے ‘طاقت ‘دولت اوراقتدار کا مظاہرہ کیا
جاتاہے ‘ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے ضرورت مندوں تک افطاری کا
سامان پہنچاکر دنیا اور آخرت کما تے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جو
روزے جیسے مذہبی فریضے کو بھی دنیا داری کے لیے استعمال کر تے ہیں ‘ روزہ
جو تربیت کر تا ہے جس کا مقصد امیر کو بھوک پیاس کا احساس دلانا ہے اِ سکی
بجا ئے اپنی دولت اور اثر رسوخ کا اظہا ر نظر آتا ہے ‘ ما دیت پر ستی کی
عالمگیر تحریک موجودہ دور کے انسان کو ہڑپ کر تی جا رہی ہے ‘اب دولت مند
طبقہ مذہب میں بھی اپنی دولت دکھا تا نظر آتا ہے اوپر یہ نیکی کا لبا دہ
اوڑھتے ہیں جبکہ اندر سے اشتہار با زی کر تے نظر آتے ہیں ‘ ایسے امیر لو گ
یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا ان کو بہت چاہتاہے جوخدا کی مخلوق کی بھلا ئی
چاہتے ہیں‘ ریا کاری والی عبادت انسان کے منہ پر ماردی جاتی ہے ‘خو ش قسمت
ہو تے ہیں وہ لوگ جن کو حق تعالی دولت کی نعمت سے نوازتا ہے لیکن اُن کا
باطن پھر بھی خراب نہیں ہو تا ‘ دولت کا نشہ اُن کی سیر ت اورکر دار کی
روشنی نہیں چھینتا بلکہ دولت کو یہ لو گ انسانیت کی فلاح وبہبود پر لگا کر
اپنی آخرت کی منزل آسان کر لیتے ہیں ‘ شہر سے دور فصلوں کے درمیان زمین پر
دریاں بچھا ئے سینکڑوں لوگوں کو جب میرا دوست افطاری کراتا ہے اُس میں نہ
سرکاری اہلکار اور نہ ہی معاشرے کے با اثر لوگ شامل ہو تے ہیں شہر سے میرے
چند ساتھی ہی شامل ہو تے ہیں ‘ با قی اردگرد کے دیہات سے سادہ لو ح دیہاتی
دنیا داری کی خرافات سے پاک سادہ لوگ جن کے چہروں پر سادگی کے چراغ روشن ہو
تے ہیں ‘ پھر میرادوست راشد جس محبت پیار سے لوگوں کا استقبال کر تا ہے جس
محبت سے لوگوں کو بیٹھا کر سب کی خدمت کر تا ہے یہ حقیقی انسان دوستی کی
زندہ مثال ہے ‘ ایک بار کسی نے اُس سے پو چھا کہ تم سینکڑوں لوگوں کی
افطاری کس لیے کرا تے ہوتو وہ مسکرا کر بولا میں تو گناہ گار انسان ہوں پتہ
نہیں کو ئی نیکی قبول ہو گی کہ نہیں لیکن اِن سینکڑوں لوگوں میں اگر ایک
شخص کی افطاری کا ثواب بھی مجھے مل گیاتومیری کو شش کامیاب ہو گئی ‘ خلوص
نیت سے کسی کی افطاری ایک کھجور دودھ یا شربت کا ایک گھونٹ یا نمک کی ایک
چٹکی اُس افطاری پربازی لے جاتی ہے جو امیر زادے فائیو سٹار ہوٹلوں میں
دکھاوے کے لیے کر تے ہیں ‘ سرور دوجہاں ﷺ کا فرمان ہے جس نے سچے دل سے کسی
مومن کو راضی کیا اُ س نے مجھے راضی کیا‘ جس نے مجھے راضی کیا اُس نے خدا
کو راضی کیا اور جس نے خدا کو پالیا اُس نے دونوں جہاں پالئے۔
|