فطرانہ کیا ھے

فطرانہ ادا کرنے سے بہت سے کمزور ہمارے بھائی عید کی خوشی میں شامل ھو سکتے ہیں

صدقہ فطر / فطرانہ کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اُنہیں صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُنہیں فطرانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مصارِف میں سے بہتر یہی ہے کہ فقراء و مساکین کو ترجیح دی جائے، اِس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے :

أغْنُوْهُمْ فِیْ هَذَا الْيَوْمِ.

دارقطنی، السنن، 2 : 152، رقم : 67

’’اس دن مساکین کو (سوال سے) بے نیاز کر دو۔‘‘
مالی زکوتہ اور فطرانہ میں فرق ہے؛ فطرانہ ہر مسلمان پر واجب ہے، اور فطرانہ ان لوگوں کی طرف سے بھی ادا کرنےپڑے گا جن کا نان و نفقہ اسکے ذمہ ہے، اور یہ عید کے دن یا عید کی رات [چاند رات] میں اپنی اور اہل خانہ کی ضروریات سے فاضل ہونے والے اناج میں سے ہر فرد کی طرف سے ایک صاع دیا جائے گا۔
رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے سے فطرانہ واجب ہوجاتا ہے، اور اسے عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، تاہم ضرورت کی بنا پر دو تین دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ شکم مادر میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر پھر بھی آپ شکم مادر میں موجود بچے کی طرف سے بھی ادا کردیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔چنانچہ فطرانہ واجب ہونے کیلئے مخصوص مال جمع ہونے یا اس پر سال گزرنے کی شرط نہیں لگائی جاتی، جیسے کہ مال [سونے ،چاندی، نقدی]کی زکاۃ میں لگائی جاتی ہے۔
اسی طرح فطرانے کا کسی شخص کی ملکیت میں موجود جائیداد، گاڑیوں، یا روپیہ پیسہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؛ کیونکہ انسان فطرانہ اپنی طرف سے اور جن کا خرچہ اسکے ذمہ ہے صرف انہی کی طرف سے ادا کرتا ہے۔
اسلام میں اس کو رمضان کے روزوں میں لغو اور بیہودہ کلام کی طہارت اور زکوۃ کے لیے قرار دیا گيا ہے۔[1]
فطرانہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر یکم شوال کی صبح طلوع ہوتے ہی واجب ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ادا کرنے کا آخری وقت نماز عید (عید الفطر) سے پہلے تک ہے۔[2]
یکم شوال (عید الفطر) کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں یکم شوال میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو اور عید (عید الفطر) کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
فطرانہ نمازِ عید (عید الفطر) سے پہلے ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔
فطرانہ ہر صاحب نصاب مسلمان مرد، عورت، آزاد، عاقل، بالغ پر واجب ہے۔
فطرانہ تین کلوگرام گندم یا ساڑھے تین کلوگرام (500۔3 گرام) جو، کھجور یا کشمش میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے یا ان کی جو قیمت بنتی ہے۔
فطرانہ ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ لیکن نماز عید (عید الفطر) سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مقدار ایک صاع مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے۔ البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جس کا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے اور زیادہ تر دینی مدارس میں ادا کر دیا جاتا ہے یا پھر مقامی ضرورت مندوں ؛ غربا اور مساکین۔ بیوگان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
چنانچہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتےہیں:
"صحیح بخاری اور مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں [طعام]کھانے کا ایک صاع، یا کھجوروں کا ایک صاع، یا جو کا ایک صاع، یا کشمش کا ایک صاع [فطرانہ میں ]دیتے تھے"
بہت سے اہل علم نے حدیث میں مذکور "طعام"سے مراد گندم لی ہے،جبکہ دیگر علمائے کرام نے "طعام" سے مراد ہر وہ چیز لی ہے جسے کسی بھی علاقے کے لوگ بطورِ خوراک استعمال کرتے ہوں، چاہے گندم ہو، یا مکئی ہو، یا باجرا ، یا کوئی اور چیز، "طعام"کا یہی معنی درست ہے؛ کیونکہ فطرانہ امیر لوگوں کا غریب طبقے کیساتھ اظہار ہمدردی ہے، اور کسی بھی مسلمان پر یہ واجب نہیں ہے کہ اظہار ہمدردی غیر علاقائی غذا سے کرے"انتہی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسی معنی کو پسند کیا ہے۔
چنانچہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرانہ عام غذائی اجناس سے ادا کیا جائے گا، نقدی کی شکل میں نہیں دیا جائے گا، جیسے کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اس لئے فطرانے کیلئے نقدی کا کوئی اور متبادل بھی نہیں دیا جاسکتا۔
چاہے زکاۃ الفطر [فطرانہ] ہو، یا مالی زکاۃ، زکاۃ ادا کرنے والے کا یہ حق نہیں بنتا کہ اپنی زکاۃ میں من مانیاں کرتے ہوئے فقراء کیلئے خود ہی خریداری شروع کردے، اور اس سے گوشت ، کپڑے، یا دیگر ضروریات کی اشیاء خرید لے۔
ضرورت کے وقت فطرانہ یا زکاۃ اپنےملک میں رشتہ داروں کے پاس بھی بھیج سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ فطرانہ ملک سے باہر بھیجنا اس وقت مزید ضروری ہوجاتا ہے جس وقت جس ملک میں لوگ مزدوری کی غرض سے جائیں اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت آسودہ، اور خوشحال ہو، جبکہ خود اسکے اپنے ملک کے لوگ بھوک پیاس اور تنگی میں ہوں۔
انسان جو خوراك كھاتا هے گندم چاول وغيره اس ميں سے ايك مخصوص حصه نمازِ عيدسے قبل صدقه كرنا صدقة الفطر كهلاتاهے۔
صدقة الفطر گھر كے هر فرد كي طرف سے ادا كيا جائے۔(صحيح بخاري:كتاب الزكاة24،باب فرض صدقة الفطر70،حديث1503)
صدقة الفطر عيد كي نماز ادا كرنے سے قبل ادا كرنا واجب هے۔(صحيح بخاري:كتاب الزكاة24،باب فرض صدقة الفطر70،حديث1503)
صدقة الفطر كا پيمانه ايك صاع هے۔(صحيح بخاري:كتاب الزكاة24،باب فرض صدقة الفطر70،حديث1503)
ايك صاع موجوده پيمانے كے مطابق 2040گرام (دو كلو 40گرام) هے۔)( مجموع فتاوى ورسائل محمد بن صالح العثيمين:كتاب الزكاة ،باب زكاة الفطر، ج18، ص277)
ایک صاع کا جدید اعشاری نظام کے مطابق وزن بنتا ہے دو کلو اور ایک سو گرام یعنی اکیس سو گرام
لہذا دوکلو چالیس گرام والی بات غلط ہے ۔
قال اللہ تعالی
ٰ قدافلح من تزکیٰ وذکراسم ربہ فصلی)ٰ (سورۃ الاعلیٰ 14،15)
ترجمہ:۔ارشادباری تعالیٰ ہے بے شک اس نے فلاح پائی جس نے پاکیزگی اختیارکی اوراپنے رب کانام لیاپھرنمازاداکی (سورۃ الاعلیٰ 14،15)
بعض سلف صالحین نے اس آیت سے مرادزکاۃ الفطرلیاہے۔(ابن کثیر)
(عن عبداﷲ بن عمربن الخطاب (رضی اﷲ عنہما)قال فرض رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم)زکاۃ الفطر،صاعاًمن تمراوصاعاًمن شعیرعلیٰ العبدوالحروالذکروالانثیٰ والصغیرو الکبیرمن المسلمین، وامربہاان تؤدیٰ قبل خروج الناس الیٰ صلاۃ)(متفق علیہ)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہما)نے فرمایا:۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)(نے فرض کردیازکاۃ الفطرکو،ایک صاع(خاص برتن جس میں اناج کوماپاجاتاہے)کھجورمیں سے سے یاایک صاع جومیں سے ،غلام اورآزادپر،مردوعورت پراورچھوٹے اوربڑے پرمسلمانوں میں سے ،اوراس کاحکم دیاکہ زکاۃ الفطر(عید)نمازسے پہلے نکالی جائے)۔(بخاری ومسلم)
(عن عبداﷲ بن عباس(رضی اﷲ عنہما)قال فرض رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم)(زکاۃ الفطر،طہرہ للصائم من اللغووالرفث وطعمۃ للمساکین،فمن اداھاقبل الصلاۃ فہی زکاۃ مقبولۃ ومن اداھابعدالصلاۃ فہی صدقۃ من الصدقات)(ابوداؤد وابن ماجہ وحسنہ الالبانی)
ترجمہ:۔حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ عنہما)نے فرمایارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)(نے فرض کردیا،زکاۃ الفطرکو،روزے دارکے لئے پاکیزگی لغوبیہودگی اوربدعملی سے اورمسکینوں کے لیے کھانا،پس جس نے(عید)نمازسے پہلے دے دی تواسکی زکاۃ مقبولہ ہوگی اورجس نے (عید)نمازکے بعددی تووہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے )۔(ابوداؤد اورابن ماجہ نے روایت کیااورعلامہ البانی نے حسن کہا)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رحمت سے علم نافع اورعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نماز،روزہ، قیام،زکوۃ، صدقات وخیرات عمرہ اورحج اوردیگرعبادات بھی اپنی رحمت خاص سے قبول فرمائے اورہماری گردنیں جہنم سے آزادفرمائے(آمین)

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458565 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More