زندگی میں انسان کو نیکی اور ثواب کے بہت سارے خاص مواقع
فراہم کیے گۓ ہیں اور ان میں ہی رمضان کا بابرکت مہینہ بھی شامل ہے.اس کی
برکتیں,رحمیتں, آخری عشرے میں اللہ کی رحمت سے کائنات کی بخشی کے لیے اپنی
انتہا کو پہنچی ہوتی ہیں۔ اس عشرہ کی نورانی راتوں میں سے ایک رات قدر
ومنزلت کی بھی ہوتی ہے جسے قرآن وحدیث میں ’لیلة القدر‘ اور اردو وفارسی
میں ’شب قدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ رات اس امت کو اللہ کی طرف
سے نعمت کے طور پر عطا کی گئی ہے، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرسکے۔
شب قدر کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے،
واللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنی۔
(ترمذی ابواب الدعوات ، ابن ماجہ ، کتاب الدعاء) بِّسْمِ اللَّـهِ
الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾وَمَا أَدْرَاكَ مَا
لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
﴿٣﴾تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن
كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾
یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا (1)تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا
ہے؟ (2)شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے (3)اس (میں ہر کام) کے سر انجام
دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں (4)یہ رات
سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے) (5)
اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن کی فضیلت اور اس کی بلند قدر و منزلت بیان
کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ '' بے شک
ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ۔'' جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : إِنَّا
أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ( الدخان: 3) '' بے شک ہم نے سے
بابرکت رات میں اتارا ہے'' اس کا شب قدر میں نازل کرنا یہ ہے کہ اللہ
تعالٰی نے قرآن کے نازل کرنے کی ابتدا،رمضان المبارک میں اور شب قدر میں کی
۔شب قدر کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر عام رحمت فرمائی ،بندے
جس کا شکر ادا نہیں کر سکتے ۔ اس کی عظیم قدر و منزلت اور اللہ تعالٰی کے
ہاں اس کی فضیلت کی بنا پر اس کو لَيْلَةِ الْقَدْرِ کے نام سے موسوم کیا
گیا،نیز اس لیے بھی اس کو لَيْلَةِ الْقَدْرِ کہا گیا کہ سال بھر میں جو
کچھ واقع ہوتا ہے،یعنی عمر،رزق،دیگر تقدیر وغیرہ اس میں مقدر کر دی جاتی
ہیں۔ پھر اللہ تعالٰی نے اس کی عظمت شان اور عظمت مقدار بیان کی ،چنانچہ
فرمایا : وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْ '' اور تجھے کس نے خبر دی
کہ شب قدر کیا ہے؟'' یعنی اس کی شان بہت جلیل اور اس کارتبہ بہت عظیم ہے۔آپ
کو اس کا علم نہیں۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ یعنی
قدر کی رات فضیلت میں ایک ہزار مہینے کے برابر ہے ۔ وہ عمل جو شب قدر میں
واقع ہوتا ،ایک ہزار مہینے میں جو شب قدر سے خالی ہوں،واقع ہونے والے عملسے
بہتر ہے۔ یہ ان امور میں سے ہے جن پر خرد حیران اور عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ
اللہ تعالٰی نے اس ضعیف القوٰی امت کو ایسی رات سے نوازا جس کے اندر عمل
ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بڑھ کر ہے،یہ ایک ایسے معمر شخص کی عمر کے برابر
ہے جسے اسی سال سے زیادہ طویل عمر دی گئی ہو ۔ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ
وَالرُّوحُ فِيهَا یعنی فرشتے اور جبریل امین اس رات میں کثرت سے نازل ہوتے
ہیں مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿ ﴾ سَلَامٌ هِيَ '' ہر کام کے لیے ، یہ (رات)
سلامتی ہے ۔'' یعنی شب قدر ہر آفت اور ہر شر سے سلامت ہے اور اس کا سبب اس
کی بھلائی کی کثرت ہے ۔ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ '' صبح کے طلوع ہونے تک
۔'' یعنی اس رات کی ابتدا غروب آفتاب اور اس کی انتہا طلوع فجر ہے۔ اس رات
کی فضیلت میں تواتر سے احادیث وارد ہوئی ہیں ، نیز یہ کہ شب قدر رمضان کے
آخری عشرے میں،خاص طور پر طاق راتوں میں واقع ہوتی ہے اور یہ رات ہر سال
آتی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی ، اس لیے نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے
آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے اور کثرت سے عبادت کرتے تھے ،اس امید میں
کہ شاید شب قدر مل جائے ۔
نام :
پہلی ہی آیت کے لفظ اَلقدر کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول : اس کے مکّی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابو حَیّان نے البحر
المحیط میں دعویٰ کیا ہے کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ مدنی ہے ۔ علی بن
احمد الواحدی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ پہلی سورۃ جو مدینہ میں نازل
ہوئی ہے۔ بخلاف اس کے الماوَرْدِی کہتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ
مکّی ہے، اور یہی بات امام سیُوطِی نے اِتْقان میں لکھی ہے۔ ابن مَرْدُویَہ
نے ابن عباس ، ابن الزُّبَیر اور حضرت عائشہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ
سورۃ مکّہ میں نازل ہوئی تھی۔ سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے بھی یہی محسوس
ہوتا ہے کہ اس کو مکّہ ہی میں نازل ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ ہم آگے واضح
کریں گے۔
حافظ صلاح الدین یوسف اس سورت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ رقمطراز ہیں:” اس
ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور ہزار مہینے ۳۸ سال ۴ مہینے
بنتے ہیں۔ یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں
زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لئے کیسی سہولت عطا فرمادی“۔[احسن البیان:۴۳۷۱
اس کا موضوع لوگوں کو قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن
مجید کی ترتیب میں اِسے سورۂ عَلَق کے بعد رکھنے سے خود یہ ظاہر ہوتا ہے
کہ جس کتاب پاک کے نزول کا آغاز سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا
تھا اُسی کے متعلق اِس سورہ میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ کس تقدیر ساز
رات میں نازل ہوئی ہے۔ کیسی جلیل القدر کتاب ہے اور اس کا نزول کیا معنی
رکھتا ہے۔
سب سے پہلے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اِسے نازل کیا ہے
۔یعنی یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اِس کے نازل
کرنے والے ہم ہیں۔
اس کے بعد فرمایا کہ اِس کانزول ہماری طرف سے شبِ قدر میں ہوا ہے۔ شبِ قدر
کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے کہ جس
میں تقدیروں کے فیصلے کر دیے جاتےہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ کوئی معمولی رات
عام راتوں جیسی نہیں ہے، بلکہ یہ قسمتوں کےبنانے اور بگاڑنے کی رات ہے۔ اِس
میں اِس کتاب کا نزول محض ایک کتاب کا نزول نہیں ہے بلکہ یہ وہ کام ہے جو
نہ صرف قریش ، نہ صرف عرب، بلکہ دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ یہی بات
سورۂ دُخان میں بھی فرمائی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،
سورۂ دُخان کا دیباچہ اور حاشیہ ۳)۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر و
منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے ، اورآگے اس کی تشریح یہ کی گئی ہے
کہ یہ ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اِس سے کفّارِ مکّہ کو گویا متنبہ کیا
گیا ہے کہ تم اپنی نادانی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کی ہوئی اِس
کتاب کو اپنی لیے ایک مصیبت سمجھ رہے ہو اور کوس رہے ہو کہ یہ کیا بلا ہم
پر نازل ہو ئی ہے، حالانکہ جس رات کو اِس کے نزول کا فیصلہ صادر کیا گیا وہ
اِتنی خیر و برکت والی رات تھی کہ کبھی انسانی تاریخ کے ہزار مہینوں میں
بھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا تھا جو اِس رات میں کر دیا
گیا۔
موضوع اور مضمون:
اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن کی فضیلت اور اس کی بلند قدر و منزلت بیان
کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ '' بے شک
ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ۔'' جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : إِنَّا
أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ( الدخان: 3) '' بے شک ہم نے سے
بابرکت رات میں اتارا ہے'
اس کا موضوع لوگوں کو قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن
مجید کی ترتیب میں اِسے سورۂ عَلَق کے بعد رکھنے سے خود یہ ظاہر ہوتا ہے
کہ جس کتاب پاک کے نزول کا آغاز سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا
تھا اُسی کے متعلق اِس سورہ میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ کس تقدیر ساز
رات میں نازل ہوئی ہے۔ کیسی جلیل القدر کتاب ہے اور اس کا نزول کیا معنی
رکھتا ہے۔
سب سے پہلے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اِسے نازل کیا ہے
۔یعنی یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اِس کے نازل
کرنے والے ہم ہیں۔
اس کے بعد فرمایا کہ اِس کانزول ہماری طرف سے شبِ قدر میں ہوا ہے۔ شبِ قدر
کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے کہ جس
میں تقدیروں کے فیصلے کر دیے جاتےہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ کوئی معمولی رات
عام راتوں جیسی نہیں ہے، بلکہ یہ قسمتوں کےبنانے اور بگاڑنے کی رات ہے۔ اِس
میں اِس کتاب کا نزول محض ایک کتاب کا نزول نہیں ہے بلکہ یہ وہ کام ہے جو
نہ صرف قریش ، نہ صرف عرب، بلکہ دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ یہی بات
سورۂ دُخان میں بھی فرمائی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،
سورۂ دُخان کا دیباچہ اور حاشیہ ۳)۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر و
منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے ، اورآگے اس کی تشریح یہ کی گئی ہے
کہ یہ ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اِس سے کفّارِ مکّہ کو گویا متنبہ کیا
گیا ہے کہ تم اپنی نادانی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کی ہوئی اِس
کتاب کو اپنی لیے ایک مصیبت سمجھ رہے ہو اور کوس رہے ہو کہ یہ کیا بلا ہم
پر نازل ہو ئی ہے، حالانکہ جس رات کو اِس کے نزول کا فیصلہ صادر کیا گیا وہ
اِتنی خیر و برکت والی رات تھی کہ کبھی انسانی تاریخ کے ہزار مہینوں میں
بھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا تھا جو اِس رات میں کر دیا
گیا۔ یہ بات بھی سُورۂ دُخان آیت ۳ میں ایک دوسرے طریقے سے بیان کی گئی ہے
اور اُس سورہ کے دیباچے میں ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔
آخر میں بتایا گیا ہے کہ اِس رات کو فرشتے اور جبریل ؑ اپنے ربّ کے اِذن سے
ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں (جسے سورۂ دخان ، آیت۴ میں امرِ حکیم کہا
گیاہے) اور وہ شام سے صبح تک سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے ، یعنی اس میں
کسی شر کا دخل نہیں ہوتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے بالآخر بھلائی
کے لیے ہوتے ہیں، ان میں کوئی بُرائی مقصود نہیں ہوتی، حتیٰ کہ اگر کسی قوم
کو تباہ کرنے کا فیصلہ بھی ہوتا ہے تو خیر کے لیے ہوتا ہے نہ کہ شر کے لیے۔
برصغیر کے جید عالم دین اور مفسر علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفیحفظہ اللہ
مذکورہ سورت کی پہلی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” اس آیت کریمہ میں
اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ اس نے قرآن کو ایک باعزت او رخیر وبرکت والی
رات میں نازل کیا ہے۔ پورا قرآن لیلة القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دینا پر
نازل ہوا، پھر وہاں سے جستہ جستہ حسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر
نازل ہوتا رہا، اور تئیس سال میں اس کے نزول کی تکمیل ہوئی“۔ [تیسیر الرحمن
لبیان القرآن: ۲۷۵۷۱]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:” تم لوگ(لیلة القدر کو) رمضان کی سترہویں، اکیسویں اور تئیسویں
شب کو تلاش کیا کرو“[سنن ابوداود،حدیث نمبر:۴۸۳۱]۔
اللہ پاک سے دعا ھے کہ عمل کی توفیق عطا فرماۓ کیونکہ ایک مسلمان کی زندگی
میں اس رات کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس لئے اسے پانے کے لئے اسکی
خیر ؤ برکت حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے، اور بنی صلی اللہ
علیہ وسلم کی اتباع ؤ اطاعت میں رمضان کی آخری دس راتوں میں عبادت کا خوب
اہتمام کرنا چاہئے، اعتکاف کرنا چاہئے، اور اپنے بال بچوں ,گھر والوں کو
بھی ان راتوں میں عبادت کے لئے جگانا چاہئے۔ تو آئیے میرے دوستوں باقی کے
وقت کو غنیمت جان کر اس رمضان میں ہم بھی لیلة القدر کے پانے کے لئے پورے
طور پر کمربستہ ہوجائیں، اعتکاف،قرآن کی تلاوت ,نماز کی پابندی, روزے کی
پابندی, اور ذکر واذکار سے اس رات کی نورانیت کو مزید دوبالا کریں۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی ایک خاص دعا سکھلائی ہے اسے یاد کرنا اور
پڑھنا ہرگز نہ بھولیں”اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی“ اے اللہ! تو معاف
کرنے والا ہے،معافی کو پسند کرتا ہے، تو ہمیں معاف کردے۔آمین |