قرآن مجید، لیلۃ القدر اور رمضان المبارک نعمتِ الہٰی

اﷲ نے اپنے تمام بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہے جس کا ذکر قرآن کریم میں باربار ملتاہے۔ بنی نوع انسان کو رب نے اپنی نعمتوں سے نوازا لیکن ایمان والوں کو رب تعالیٰ نے اوروں سے زیادہ نوازا۔علما و صوفیا فرماتے ہیں ’’تمام نعمتوں میں اعلیٰ نعمت اﷲ نے مومنوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ اور قابلِ قدر،قابلِ ذکر نعمتوں کا شمار بھی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ لیکن ایمان، رشد وہدایت کا سرچشمہ کلامِ الہٰی قرآن مجید ، رمضان المبارک، لیلۃ القدر، رحمت و مغفرت ، جہنم سے آزادی یقینا اﷲ کا انعام ہے۔ جس کا ہم اور آپ جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ حکمِ خدا وندی ہے : لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ(ترجمہ:تم میری پہلی نعمت کا شکر اداکرو میں تمھیں اور دوں گا۔القرآن سورہ ابراہیم، آیت۶)

رمضان المبارک ، قرآن مجید نعمت الہٰی:
صرف ان ہی دونوں نعمتوں کا ہی شکر ادا کریں تو انسانی طاقت و قوت سے بعید ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدَ لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ(ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ، لوگو (انسانوں) کی ہدایت کے لئے اور اس میں فیصلہ کی روشن باتیں ہیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہوتو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ اﷲ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اﷲ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمھیں ہدایت دی تاکہ تم حق گزار ہو۔(القرآن، سورہ بقرہ، آیت ۱۸۵)

اﷲ کالاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم اور آپ اس مبارک مہینہ میں زندہ ہیں ، ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، قرآن کی تلاوت سے ،روزوں کی برکتوں سے مالا مال ہورہے ہیں۔ حضرت سلمان ص کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمھارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ہے (شب قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ(جہنم ) سے آزادی ہے۔(حدیث)

صرف ایک ماہ میں پہلا عشرہ(دس دن) رحمت کا پھر دوسرا عشرہ(دس دن) مغفرت کا پھر آخری حصہ جہنم سے نجات کا ۔سبحان اﷲ ،سبحان اﷲ! کتنی ساری نعمتیں ۔قربان جائیے ، اسی لئے تو قرآن کریم اعلان فرما رہا ہے وَاِنْ تَعُدُّ وْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْ ھَا ترجمہ: تم اﷲ کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے۔(القرآن سورہ ۱۴،آیت ۳۳) اتنے انعام پر معاملہ ختم نہیں ۔ پھر ایک ایسی شب عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ سبحان اﷲ ، سبحان اﷲ! اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ اس سے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کبھی ہزار مہینوں میں نوع انسانی کی فلاح کا وہ کام نہ ہوا ہوگا جتنا اس ایک رات میں ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے (دنوں) کے روزے فرض کئے اور اس کی راتوں کو تطوع قرار دیا۔ تطوع سے مراد وہ کام ہے جو آدمی اپنے دل کی خواہش سے (Voluntarily) انجام دے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر فرض کیا گیا ہو۔ (یعنی فرض سے زیادہ کام کرنا) ماہِ رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا فرما دیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حد و حساب(Unlimited) نعمتیں ، مغفرت ، رحمت ،جہنم سے آزادی وغیرہ وغیرہ کا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا لو۔ اس مہینے میں ایک مومن اﷲ کی جتنی عبادت کرے گااور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا وہ سب اس کے لئے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیں گے ۔ اس کی برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ رمضان کی ہر ساعت کو اپنے حق میں نعمت خدا وندی سمجھ کر اس سے اکتساب ِ فیض کیجئے۔

حضور مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: اگر اس مہینے میں کسی آدمی کو اعمال صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال یہ توفیق شا ملِ حال رہے گی اور اگر یہ مہینہ بے دلی، تردد اور پریشان خیالی میں گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔ (مکتوبات امام ربانی) رمضان المبارک کے روزوں کو آداب کی پابندی سے رکھیں تاکہ کل جب آپ خدا کے حضور حاضر ہوں تو روزہ آپ کی سفارش کر سکے اور آپ جنت کے مستحق قرار پاسکیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا کہ اے پروردگار ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوں سے روکے رکھا۔خدایا!تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما ۔اور خدا اس کی سفارش قبول فرمالے گا۔(مشکوٰۃ)

رحمت، مغفرت اور نجات کا مہینہ رمضان المبارک:
اس مبارک مہینے کی آمد پر آپ روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ادھر اﷲ کی رحمت آپ پر سایہ فگن ہو جاتی ہے ۔پھر رمضان کا وسط آتا ہے اور اﷲ آپ کے گناہوں ،قصوروں سے درگزر فرمالیتا ہے اور آپ کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اب آپ آخری عشرہ میں پہنچ گئے اور آخری روزہ رکھتے ہی آپ کو دوزخ کے خطرے سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ پیارے مسلمانو! اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب دوزخ سے آزاد ہوگئے ہیں تو جو جی چاہے کرتے پھریں۔ اب آپ کی کوئی پکڑ نہ ہوگی۔ قرآن کریم کا اعلان ہے ۔ترجمہ: اﷲ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمھارے جی میں ہے یا چھپاؤ، اﷲ تم سے اس کا حساب لے گا۔ تو جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا سزاد ے گا اور اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔(القرآن ، البقرہ آیت ۲۸۴)

قرآن کریم میں اور احادیث کریمہ میں روزہ کی بے شمار فضیلتیں موجود ہیں۔ حدیث پاک میں کتنی پیاری بشارت ہے اس روزہ دار کے لئے جس نے اس طرح روزہ رکھا جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے یعنی روزہ کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے روزہ رکھا اور تمام اعضا کو بھی گناہوں سے باز رکھا تو وہ روزہ اﷲ کے فضل و کرم سے اس کے تمام پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گیا۔ اﷲ کے رسول ﷺ اپنے پروردگار کا فرمان سناتے ہیں۔ اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ(روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا)۔حدیث قدسی کے ارشاد پاک کو محدثین کرام اَنَا اُجْزیٰ بِہٖ بھی پڑھا ہے(روزہ کی جزا میں خود ہی ہوں)۔ سبحان اﷲ !یعنی اﷲ فرما رہا ہے کہ روزہ رکھ کر روزہ دار بذات خود مجھے ہی پا لیتا ہے۔

تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں روزہ کا کردار:روزہ اسلام کا ایک اہم رکن و عبادت ہے جس کے ذریعہ انسان اطاعت و فرمابرداری کی زبردست تربیت(Training) حاصل کرتا ہے۔ روزہ شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی تربیت کا بے مثال پروگرام ہے اور نفس امارہ کو شکست دینے اور نفس مطمئنہ تک پہنچنے کا بے نظیر لائحہ عمل ہے۔ یہ نفس کو شرعی ضوابط کی پابندی کا خوگر بناتا ہے۔ غرض کہ تہذیب و اخلاق میں روزہ کا کردار نہایت ہی اہم ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی گناہوں کا ارتکاب کرتاہے تو دراصل وہ روزہ کی روح کو مجروح کرتا ہے۔ روزہ انسان کے لئے بہترین تربیت گاہ ہے لیکن یہ سب چیز تب حاصل ہوگی جب انسان روزہ کی حالت میں سختی کے ساتھ تمام گناہوں سے بچے جس سے بچنے کا حکم اسے دیا گیاہے۔ لیکن روزہ رکھ کر بھی انسان غیبت میں مبتلا اور نامحرم چہروں کو دیکھتا رہے، فضول باتوں میں وقت برباد کرے تو ایسے روزہ سے نہ خود اس کی ذات کی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ایسے روزہ دار کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔

منھ اور زبان کا روزہ:جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، غیبت کرنا، گالی گلوج کرنایہ سب روزہ کے فوائد کو کم کردیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری ص فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب صبح ہوتی ہے تو سب اعضا عاجزی کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اﷲ سے ڈر کیوں کہ ہم تجھ سے متعلق ہیں(یعنی ہماری خیر و عافیت اور دکھ تکلیف تجھ سے ہے) پس اگر تو ٹھیک رہی تو ہم بھی ٹھیک رہیں گے اگر تجھ میں کجی (ٹیڑھا پن) آگئی تو ہم میں بھی کجی آجائے گی۔(ترمذی :۲۴۰۷)ایک اور حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ ص سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: بلا شبہ بندہ کبھی اﷲ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایساکہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں جاتا اور اس کی وجہ سے اﷲ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے اور بلا شبہ بندہ کبھی اﷲ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جا تاہے۔ (بخاری،۶۴۷۸) کم بولنے و زبان کی حفاظت سے صرف دنیاوی فائدہ اور راحت ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ آخرت کی نجات اور کامیابی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر صنے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا :یا رسول اﷲ نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: زبان کو قابو میں رکھو اور اپنے گھر میں اپنی جگہ رہو(یعنی زیادہ تر اپنے گھر میں رہو ، باہر کم نکلوکیونکہ گھر کے باہر بہت فتنے ہیں) اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔ (ترمذی:۲۴۰۶)

لیلۃ القدر بخشش و مغفرت کی رات:حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھیں تو رسول اﷲ ﷺ کمر بستہ ہوجاتے تھے۔رات رات بھر جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔(متفق علیہ)اس حدیث پاک سے آخری عشرہ او رلیلۃ القدر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔آپ ﷺاﷲ کی بندگی بجا لانے میں ہمیشہ انتہائی محنت کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے بیان کے مطابق رمضان کے آخری دس دنوں میں آپ کی محنت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔

لیلۃ القدر کی دعا: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا:یا رسول اﷲ ! آپ کا کیا خیال ہے اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یوں کہو اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ترجمہ: اے میرے اﷲ ، تو بڑا معاف کرنے والاہے ، تو معاف کرنے کو پسند کرتاہے ، لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔(مسنداحمد، ابن ماجہ، ترمذی)یہ ماہ اور یہ رات خطا کاروں کے لئے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے۔ اس رات اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں ،رب کریم سے التجائیں کریں، بھلائی کی التجا کریں۔ اس ماہ رحمتِ خدا وندی ہر پیاسے کو سیراب کرتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ تمام مسلمانوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہے رحمتیں سمیٹنے کا، خیر جمع کرنے کا، گناہ معاف کروانے اور جنت میں جانے کا۔موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اﷲ ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین ثم آمین!

Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 176615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.