مومنوں کی اماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آپ
کی چار پشت شرفِ صحابیت سے سرفرازہیں، مومنوں کی اماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہاکا شوہر وجہ تخلیقِ کائنات اور سید الانبیاء ہو، قربان جاؤں
اماں جی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر کہ باپ سید الانبیاء کے
یارِ غار اور افضل البشر ہو، جو خود حدیث و فقہ کی عالمہ و معلمہ ہو، جن کے
بستر پر قرآن نازل ہوتا ہوجی ہاں میری مراد اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا تمام صحابہ اور صحابیات میں امتیازی حیثیت
رکھتی ہیں- بہ روایت قاسم بن محمد رحمۃ اﷲ علیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا خود فرماتی ہیں کہ دس اوصاف مجھ میں ایسے ہیں جن میں دوسری ازواج
مطہرات سے کوئی میری شریک نہیں-
٭حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے میرے سوا کسی دوسری کنواری خاتون سے نکاح
نہیں فرمایا-
٭میرے سوا ازواج مطہرات میں سیکوئی بھی ایسی نہیں جن کے ماں اور باپ دونوں
مہاجر ہیں-
٭اﷲ تعالی نے میری برائت و پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن (سورۃ نور) میں
نازل فرمایا-
٭نکاح سے قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لاکر
حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو دکھلادی تھی اور آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے- (مشکوٰۃ)
٭ میں( اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ ) اور حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ایک ہی
برتن سے پانی لے کر غسل کیا کرتے تھے- یہ شرف میرے سوا ازواج مطہرات میں سے
کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا-
٭حضور اقدس صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نماز تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے
سوئی ہوئی رہتی تھی- امہات المومنین میں سے کوئی بھی حضور صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئیں-
٭میں ( اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ )حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک
لحاف میں سوئی رہتی تھی اور حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم پر خدا کی وحی نازل
ہوا کرتی تھی- یہ وہ اعزاز خداوندی ہے جو میرے سوا حضور صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا-
٭وصال اقدس کے وقت میں حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو اپنی گود میں لئے
ہوئے بیٹھی تھی اور حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا سر انور میرے سینے اور
حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا وصال
ہوا-
٭حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے میری باری کے دن وصال فرمایا-
٭حضور اقدس صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا روضہ انور خاص میرے گھر میں بنا-
(زرقانی، جلد 3)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے ساتھ
تقریباً دس سال گزارے او رکم و بیش نصف قرآن پاک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا کی موجودگی میں نازل ہوا۔ جو حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے
پہلے نازل ہوچکا تھا وہ بھی آپ رضی اﷲ عنہا کوبخوبی علم تھا ۔ اﷲ تعالیٰ نے
آپ کو ایسے اسباب اور مواقع عطا فرمائے کہ معلم کائنات صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی صحبت کی وجہ سے آپ رضی اﷲ عنہا قرآن پاک کی ایک ایک آیت کی طرز
قرات، موقع استدلال اور طریقہ استنباط پر کامل عبور رکھتی تھیں۔ آپ رضی اﷲ
عنہا ہر مسئلہ کے حل کے لئے اکثر قرآن پاک سے رجوع فرماتی تھیں۔ ایک دفعہ
چند حضرات آپ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئے اور عرض کی:
ام المومنین رضی اﷲ عنہا! محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے کچھ اخلاق
بیان فرمائیں۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟۔ امام
کائنات صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا اخلاق سرتاپا قرآن تھا۔پوچھا گیا : حضور
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی رات کی عبادت کا کیا طریقہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ عنہا نے جواب دیا: کیا آپ لوگوں نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ (ابوداؤد،
مسند احمد)
قرآن مجیدکے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو حدیث پر بھی عبور حاصل
تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے 2210 احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ یہ
فضیلت کسی بھی ام المومنین کو حاصل نہیں حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا ایک پردہ نشین خاتون اور ام المومنین ہونے کے باعث مرد معاصرین صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہ کی طرح ہر مجلس میں نہ جاسکتی تھیں جس میں رہبر کائنات صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم موجود تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اﷲ عنہا سے مروی
احادیث کا ہزاروں کی تعداد میں ہونا اس امر کی شہادت ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہا
نے اپنے شوہر نامدار صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ
جو آپ رضی اﷲ عنہا کی نظر سے گزرا اسے ذہن میں بحسن و خوبی محفوظ کرلیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے جن احکام اور واقعات کو روایت کیا ہے ان
میں سے اکثر کے اسباب و علل بھی بیان کئے ہیں اور وہ خاص حکم کن مصلحتوں کی
بناء پر صادر کیا گیا ۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کے اسباب اور مصلحتوں
کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے مثلاً
جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے لیکن اس کے سبب کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ عنہا کا فرمان ہے:
’’لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادی سے جمعہ کی نماز میں آکر
شامل ہوتے تھے وہ گردو غبار اور پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک
آدمی سرور کائنات صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم اس وقت میرے ہاں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے جب اس
کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ تم آج جمعہ کی نماز کے لئے نہالیتے تو اچھا
ہوتا‘‘۔ (بخاری، کتاب الغسل)
عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ چار رکعت والی نمازیں سفر کی حالت میں سہولت
کی خاطر دو رکعت میں بدل گئی ہیں جبکہ اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ میں دو رکعت نماز فرض تھی۔ جب سرکار دو جہاں صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار رکعت فرض کی گئیں اور سفر کی نماز
اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی اور وہ دو رکعت ہی رہیں۔ ہجرت کے بعد نمازوں میں
جب دو رکعتوں کی بجائے چار رکعتیں ہوگئیں تو پھر مغرب میں تین رکعتیں کیوں
ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اس ضمن میں فرماتی ہیں کہ مغرب کی
رکعتوں میں اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ وہ دن کی نمازکا وتر ہے۔ (مسند احمد
بن حنبل)
صبح کی نماز میں دو رکعتیں کیوں برقرار ہیں وہ چار کیوں نہ ہوئیں؟ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا فرمان ہے کہ نماز فجر میں رکعتوں کا اضافہ اس
لئے نہ ہوا کیونکہ صبح کی دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔
(مسند احمد)
سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی رات کی عبادت، نماز و نوافل کے
بارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے زیادہ کوئی واقف نہ تھا۔ آپ رضی اﷲ
عنہا نماز تراویح کے بارے میں فرماتی ہیں: ماہ رمضان میں ایک روز سردار دو
جہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
کو نماز میں مشغول دیکھ کر کچھ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ بھی شریک ہوگئے۔
دوسرے روز پہلے سے زیادہ اجتماع ہوگیا۔ تیسرے روز اس سے زیادہ لوگ جمع
ہوگئے۔ چوتھے روز اتنا مجمع ہوا کہ مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور تل دھرنے
کو جگہ نہ رہی لیکن اس روز رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ والہ وسلم مسجد میں
تشریف نہ لے گئے البتہ صبح کو آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے لوگوں سے
فرمایا: گذشتہ رات تمہاری آمد مجھ سے مخفی نہ تھی لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں
تم پر تمہارے شوق کی وجہ سے تراویح کی نماز فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا
کرنے سے قاصر رہو۔ (بخاری، باب قیام رمضان)
صحیح ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے: ’’ہم اصحاب
محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ ہم نے
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم
کو نہ ملی ہوں‘‘۔
قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین رضی اﷲ عنہا کو اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے حکم ہے: ’’تمہارے گھروں میں اﷲ کی جو آیتیں اور حکمت کی باتیں پڑھ
کر سنائی جارہی ہیں ان کو یاد کیا کرو‘‘۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے رب کریم کے اس حکم پر حرف بہ حرف عمل کیا اور
حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ کے لمحہ لمحہ کو اپنے دل و دماغ
میں نقش کرلیا اور پھر ان نقوش کو تشنگان علم تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا
نہ رکھی۔ قرآن حکیم کے حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی تفسیری
روایتیں تاریخ اسلام اور تفہیم دین کا ایک بے بہا سرمایہ ہیں۔ آپ رضی اﷲ
عنہا نے مختلف اوقات میں لوگوں کے سوالات کے جوابات دے کر نہ صرف ابہام کو
دور فرمایا بلکہ غوروفکر کی روشن تر راہیں بھی متعین فرمادیں مثلاً
قرآن مجید کی سورۃ النساء میں حکم خداوندی ہے کہ ’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ
یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے دو دو، تین تین،
چار چار سے نکاح کرلو۔ اگر عدل نہ ہوسکے تو ایک پر اکتفا کرو‘‘۔ اب بظاہر
آیت کے پہلے اور بعد کے حصے میں باہم ربط تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ یتیموں کے حقوق میں عدل و انصاف اور نکاح کی اجازت میں کیا
ربط اور تعلق ہے؟ ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی توجہ اس طرف
دلائی تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض لوگ
یتیم لڑکیوں کے ولی بن جاتے ہیں ان سے موروثی رشتہ داری ہوتی ہے۔ وہ اپنے
ولی ہونے کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ ان سے نکاح کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ
کرلیں اور چونکہ ان کی طرف سے بولنے والا یا پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس
سے انہیں مجبور پاکر انہیں ہر طرح سے بے بس کردیتے ہیں چنانچہ رب ذوالجلال
ایسے مردوں سے مخاطب ہوکر انہیں حکم دیتا ہے کہ اگر تم ان یتیم لڑکیوں کے
معاملہ میں انصاف نہ کرسکو تو ان کے علاوہ اور عورتوں سے دو تین چار نکاح
کرلو تاہم پھر بھی انصاف سے کام لو مگر ان یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لے
کر انہیں بے بس نہ کرو۔
سبحان اﷲ ۔ اﷲ پاک سے دعا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی کامل
محبت اور کامل پیروی نصیب فرماتا کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سلیبس میں سیرت النبی ﷺ اور سیرت ِ کاشیانہ رسالت ﷺ
اور آپ کے رفقاء تمام صحابہ اور صحابیات ؓ جیسی مقدس ہستیوں کو شامل کیا
جائے تاکہ انسانیت اور اسلام کا مقصد سمجھ کر عمل کیا جائے جب ایسا ہوجائے
گا تو دنیا بھی جنت کا نمونہ بن جائے گئی۔ |