عارفہ نے غصے سے سرخ چہرے سے کہا، زندگی اتنی بھی چھوٹی
نہیں ہے۔ مستقبل کی سوچ کر چلنے والے ہی سمجھ دار ہوتے ہیں ۔بابا کو پتہ
نہیں کہ صدیق خالو ساری زندگی خود کچھ نہیں بنا سکے ۔ صرف شلوار ٹخنوں سے
اوپر چڑھانا ہی سب کچھ نہیں ہے۔ میں تو کہتی ہوں امی۔ اگر صدیق خالو کو
وراثت میں گھر نہ ملتا تو نہ جانے کہاں انہوں نے کیمپ ہی لگا لیا ہوتا۔ کون
سی کتاب میں لکھا ہے کہ انسان جنت جنت کرتا رہے اور دنیا کی زندگی کو جہنم
بنا لے۔
امی نے کچھ دیر خاموشی سے اس کی باتیں سنی پھر بہت پیار سے بولیں ۔ عارفہ
بیٹا ،تمہاری شادی ہم وقار سے کرنے کی سوچ رہیں ہیں ۔ صدیق بھائی کا بیٹا
ضرور ہے مگر وہ پڑھا لکھا ہے ،سمجھ دار ہے۔دین دار ہونے میں بُرائی کیا
ہے؟عارفہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔دین دار ہونے میں بُرائی نہیں ہے مگر مجھے
مفت کے جھمیلے میں نہیں پڑنا۔ آپ بابا سے کہہ کے اس بات کو یہیں ختم کریں
۔ مجھے رافیہ نے بتایا ہے وقار کے بارے میں ،وہ اپنے والد صاحب سے بھی دو
ہاتھ آگے ہیں ۔ مجھے نہیں برقعہ پہن کر کوٹھری میں بیٹھنے کا شوق ۔ مجھے
علم سیکھنے اور سیکھانے سے دلچسبی ہے۔ میں پرفیسر ہوں۔کل کو اس نے مجھے
ٹوپی والا برقعہ پہنا دیا تو کیا کروں گی۔ میرا تو چادر میں دم گھٹتا ہے ۔
ویسے بھی دیہاڑی والے مرد اور برقعہ والی عورتیں ،مجھے عجیب لگتی ہیں۔
امی نے چپ چاپ اس کی باتیں سنی اور اس کے بابا کو پہنچا دیں۔ بابا کو عارفہ
کی باتوں پر حیرت ہوئی ۔ آپ کیا کہہ رہی ہیں آمنہ ، عارفہ نے صرف اس لیے
منع کر دیا کہ ان کا گھرانہ دین کی طرف راغب ہے۔ یہ تو بہت عجیب بات ہے۔
مجھے تو یہ رشتہ بہت معقول لگ رہا تھا۔ ایک تو صدیق بھائی جیسے دیندار شخص
کا گھرانہ اور دوسرے رشتہ دار دیکھے بھالے ہوتے ہیں ۔ آج کل لوگوں کا کیا
بھروسہ۔ آمنہ نے افسردگی سے کہا۔ بات توآ پ کی ٹھیک ہے مگر ہم عارفہ پر
دباو بھی تو نہیں ڈال سکتے۔ یہ نہ ہو کل کوئی مسلہ در پیش ہو۔ اچھا ہے کہ
ہم صدیق بھائی کو جواب دے دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ نے پرس بیڈ پر پھینکتے ہوئے ، ٹی وی کا ریموٹ لیا ہی تھا کہ امی نے
کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا ، عارفہ تم جانتی ہو کہ تمہارے لیے کس کا رشتہ
آیا ہے۔ عارفہ نے تجسس سے پوچھا کس کا؟
امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ عیان کا ۔ عارفہ کو اپنے پورے بدن میں جھرجھری
محسوس ہوئی ۔ وہ یو ۔ کے سے کب آیا۔امی۔ عارفہ نے بے اختیار کہا۔ آمنہ نے
مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک ماہ ہو گیا۔ وہ لوگ جلدی شادی کرنا چاہ رہے ہیں ۔ اس
کی خالہ کہہ رہی تھیں۔ بہت پیارا لگنے لگا ہے اب تو ۔ عارفہ کے منہ سے بے
اختیار نکل گیا ،وہ بُرا کب لگتا تھا۔
ان کے خاندان میں سب سے امیر گھرانہ عیان ہی کا تھا۔ طا رق نے جب بنگلہ لیا
تو ان کی عمرچالیس ہی کی ہو گی۔ سب نے کافی باتیں کی ،حرام کی کمائی ہو تو
ہی ایسے گھر لیے جا سکتے ہیں ۔ طارق کسٹم آفیسر تھے ،وہ کھل کر کہتے تھے
،آج کل کے دور میں حلال ، حرام کچھ نہیں ہوتا۔ہمارا تو پورا ملک قرض دار
ہے اور سود دیتا ہے۔ سود لیتاہے۔ یہاں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی قرض دار
ہے۔جس کو دین داری پسند ہو ،پاکستان سے نکل کر کسی اسلامی ملک میں چلا
جائے۔ ان کے خاندان کو ماڈرن ہونے کا خطاب حاصل تھا۔ وہ خوشی خوشی اس خطاب
پر لبیک بھی کہتے تھے۔
عارفہ کو دیکھنے کے لیے جب طارق اور ممتاز آئے تو انہوں نے واضح الفاظ میں
کہا۔ بھئی شادی تو لڑکے لڑکی نے کرنی ہے تو اس لیے عیان اور عارفہ کی
ملاقات کروائی جائے۔ عارفہ کو بھی یہ تجویز اچھی لگی۔ وہ اپنے آپ کو خوش
قسمت ترین تصور کر رہی تھی۔ عیان نے اسے دیکھتے ہی ہاں کر دی۔ دو ماہ بعد
شادی متوقع تھی۔ رفیہ نے عارفہ کو مبارک دیتے ہوئے کہا۔ عارفہ میں تمہاری
کنگنے کی دوست بنوں گی ۔ بناو گی نا۔ عارفہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ کیوں نہیں ۔
عارفہ کے ماں باپ نے شادی کے لیے قرض لیا تا کہ طارق صاحب کے ساتھ برابری
نہ سہی چلا تو جا سکے۔ وہ اپنی بیٹی کو ہر خوشی دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے
جہاں تک ہوا اچھا جہیز دیا۔ لیکن فرق تو صاف نمایا ں تھا۔ وہ اپنی تمام تر
کوششوں کے باوجود بھی طارق صاحب کی برابری پر کہاں آسکتے تھے۔ ان کی تو
کلاس ہی بدل چکی تھی۔ ان کی کلاس کے لوگ حیران تھے کہ آخر انہیں عارفہ میں
کون سی بات نظر آئی تھی۔
اکثر دور سے چمکتے چاند کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ بھی زمین ہی کا
ٹوٹا ہوا ٹکڑا ہے۔ اگر شعور کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو کون یقین کرئے
گا۔ کہ زمین کا ٹکڑا ہی ہے جسے چھونے کی تمنا نے انسانوں کو ایک عرصہ دراز
تک کشمکش میں ڈالے رکھا۔ پہنچ کر پتہ چلا ۔ جو دور سے روشن تھا۔ قریب آ کر
اس کی روشنی محض فریب نکلی۔ مٹی اور پتھر تو زمین پر بھی تھے ۔ مگر تجربہ ،
تجربہ وہ قیمت ہے جو ان کی محنت کے صلے میں ان کو ملا۔ عارفہ کو بھی اس کی
چاہتوں کی دنیا مل چکی تو وہ جس پر نازاں تھی۔وہ بہت خوش تھی۔ سب کچھ ویسا
ہی تھا ، جیسا اس نے تصور کیا تھا۔ عیان کو دیکھ کر اسے دل ہی دل میں بہت
غرور محسوس ہوا۔ وہ دل ہی دل میں سوچتی رہی کہ شکر ہے اس کی شادی وقار سے
نہ ہوئی۔ ٹھیک وقت فیصلہ ہی زندگی کی خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔ولیمہ کا دن
تھا۔ سارے کے سارے رشتہ دار موجود تھے ، بس صدیق صاحب کی فیملی ہی نہ تھی۔
عارفہ کو حیرت ہوئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس نے پھر خود ہی اندازہ لگایا کہ
وقار کو انکار کے بعد انہیں ضرور صدمہ ہوا ہو گا۔ پھر اس نے اپنے آپ سے
خود ہی کہا۔ مگر کل تو وہ آئے تھے ۔ آج کیا ہوا۔
اس کی امی جب اس کے پاس بیٹھ کر تصاویر بنو رہی تھیں تو ۔اس نے ان سے کہا۔
امی رفیہ لوگ کیوں نہیں آئے۔ اس کی امی نے جو بتایا ،اسے سن کر بہت حیرت
ہوئی۔ مجھے بھی آج ہی پتہ چلا ہے۔عیان کا رشتہ ،رفیہ کے لیے لے کر گئے تھے
یہ لوگ ۔انہوں نے منع کر دیا۔عارفہ نے کہا ۔لیکن امی کیوں ۔ عیان کو کیسے
منع کر سکتے ہیں ، اس میں کون سی کمی ہے۔ امی نے عارفہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ تو مجھے نہیں پتہ چلا ۔ ممکن ہے صدیق بھائی کو پسند نہ آئے ہو ں طارق
بھائی۔ ان کے نزدیک حلال اور حرام بہت اہم ہیں ۔ ولیمہ کا دن عارفہ کے لیے
بہت خوبصورت تھا۔ وہ ہنسی امی آپ کے صدیق بھائی بھی نا۔ اس نے تمسخر خیز
انداز میں امی کی طرف دیکھا۔ جیسے صدیق صاحب سے بے وقوف انسان اس دینا میں
نہ ہو۔
عیان نے جب عارفہ کو بتایا کہ وہ اسے اپنے ساتھ یو ۔ کے لے کر جائے گاتو
عارفہ کے گال خوشی سے سرخ ہو گئے۔ اس نے عیان سے کہا۔ میری زندگی کی سب سے
بڑا خواب پورا ہونے جا رہا ہے ۔ میں ہوائی جہاز میں سفر کروں گی۔ عیان
مسکرا کر بولا۔ مائی ڈیر وائف تمہارا مسلہ یہ ہے کہ تم بہت چھوٹے چھوٹے
خواب دیکھتی ہو۔ تین ماہ گھومنے ، دعوتیں اُڑانے میں گزر گئے۔ وہ دن بھی آ
گیا ، جب عارفہ کو ناز اُٹھانے والے ماں ، باپ کو الوداع کہنا تھا۔وہ جب
انگلینڈ پہنچی تو سردی کا موسم تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ ہر طرف صفائی ،
خوبصورتی اسے ہر چیز ہی پرفیکٹ لگ رہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا شاہد
ہزار سال میں بھی پاکستان ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس کو کھویا کھویا دیکھ کر
عیان نے اس سے پوچھا۔ کیا سوچ رہی ہو۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مقابلہ کر
رہی ہوں ، پاکستان اور انگلینڈ کا ۔وہ ہنسنے لگا۔تم مرغی اور عقاب کا
مقابلہ کر رہی ہو۔ کہاں عقاب کی اونچی پرواز اور کہاں مرغی کادوڑنا۔ کوئی
مقابلہ نہیں ،میری جان ، کوئی مقابلہ نہیں ۔وہ دونوں ہی ہنسنے لگے۔
گھر پہنچنے پر بھی عارفہ کو ہر شے اچھی لگ رہی تھی۔ گھر چھوٹا سا تھا۔ مگر
اسے ہر شے میں خوبصورتی اور بہتری کا احساس ہو رہا تھا۔ عیان نے کچھ دیر
آرام کرنے کے بعد کہا۔ مجھے بازار سے کچھ چیزیں لانا ہوں گی۔ فریج خالی
پڑا ہے ۔ تم دیکھ لو اور لسٹ بنا دو۔ عارفہ نے کچن میں آ کر دیکھا۔ عارفہ
نے دل ہی دل میں سوچا ۔ نہ جانے رب نے مجھے کون سی نیکی پر اس قدر نعمتوں
سے نوازہ ہے۔ ایسا کچن تو فلموں اور ڈراموں میں دیکھا تھا۔ اس نے کچن کا
جائزہ لینا شروع کیا۔ پھر فریج کو کھول کر دیکھ ہی رہی تھی کہ اسے خالی ڈبے
پڑے نظر آئے۔ اس نے اُٹھا کر بغور دیکھا تو وہ شراب کے خالی ڈبے تھے۔ اسے
حیرت ہوئی۔ اس نے انجان بنتے ہوئے ایک ڈبا اُٹھایا اور عیان کے پاس لے آئی
اور ڈبے کو عیان کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ یہ کیاہے۔ عیان نے سرسری دیکھا اور
پھر اسی بے نیازی سے بولا ۔ شراب کا ڈبا ہے اور کیا۔ تم پڑھی لکھی تو ہو
نا۔ اس نے تمسخر خیز لہجے میں کہا۔ عارفہ نے اس کی طرف دیکھ کر معصومیت سے
کہا۔ آپ شراب پیتے ہیں ۔ عیان نے ہنستے ہوئے کہا۔ سارے پیتے ہیں یہاں ۔
اتنی سردی میں جم نہیں جائیں گئے ۔ شراب جسم کو گرم رکھتی ہے۔عارفہ نے ڈبہ
کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مگر شراب تو حرام ہوتی ہے نا۔
عیان ہنسنے لگا۔ کس زمانے میں رہتی ہو۔ حلال ،حرام کیا ہوتا ہے۔ پھر اس نے
خود ہی کہا۔ وقت لگے گا تمہیں ۔رنگ جاو گی میرے رنگ میں ۔عارفہ نے باہر جا
کر لسٹ بنائی اور پھر لا کر عیان کو دی۔ وہ جو سامان لے کر آیا اس میں بہت
سے شراب کے وہی ٹین تھے جو اس نے فریج سے نکال کر پھینکے تھے۔ عارفہ نے دل
ہی دل میں سوچا ،چھ سال سے جو بندہ یو کے میں رہتا ہے ،اتنا تو کر ہی سکتا
ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے عارفہ ۔ جانے دو۔ یہ کہہ کر اس نے
آفتا ب کو دوبارہ شراب سے متعلق کچھ نہیں کہا۔
ان کی زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ عیان رات کو اکثر شراب پیتا۔ ابھی دس
بارہ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن عیان نے اسے شراب پینے کو کہا۔ عارفہ اپنے
شعور کو کیسے مار سکتی تھی۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ عیان نے خفا ہوتے ہوئے
کہا۔ میں تمہار شوہر ہوں ،تمہیں میری بات ماننی چاہیے ۔ میں کب تم سے دس
ڈبے پینے کو کہہ رہا ہوں ۔ بس چاہتا ہوں ۔ تم مجھے کمپنی دو۔ کمپنی عارفہ
نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں پانی لے آتی ہوں ، آپ کے ساتھ ساتھ پی لیتی
ہوں ۔ عیان نے غصے سے کہا۔ پانی اور شراب میں فرق نہیں ہے۔ عارفہ نے دھیرے
سے کہا فرق ہے اسی لیے تو نہیں پی رہی۔ عیان نے تلخ لہجے میں کہا۔ دیکھو
میں فرسودہ قسم کے خیالات کے ساتھ ساری زندگی گزار سکتا۔ تمہیں میرے مطابق
ہونا ہی ہو گا۔ ورنہ واپس چلی جاو ۔ عارفہ نے عیان کا ہاتھ پکڑ کر لیکن کہا
مگر وہ ہاتھ جھٹک کر جا چکا تھا۔ وہ پوری رات گھر نہیں آیا ۔ یو کے میں یہ
اس کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا
کرئے۔ عیان کا فون بھی آف تھاصبح جب اس کی انکھ کھلی تو عیان اپنا ناشتہ
کھا رہا تھا۔ عارفہ نے اس سے بات کرنا چاہی مگر وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے
،جا چکا تھا۔ عارفہ کو سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ وہ کرئے تو کیا کرئے۔
شراب کی حرمت سے متعلق وہ شروع سے پڑھتی اور سنتی آ رہی تھی۔ شراب کو بعض
جگہ تو پیشاب تک کہا کیا تھا۔ اس کے لیے اسے پینا بہت مشکل تھا۔ اس نے اپنے
آپ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ عیان کی باتیں اس کے دماغ کے اوپر اوپر ہی
گھوم رہی تھیں ۔ دیکھو شراب بھی ایک ڈرنک ہے ۔یہاں اس کا استعمال عام ہے۔
ایسے ہی جیسے ہم پیپسی اور سیون اپ پیتے ہیں نا۔ بلکل ایسے ہی ۔ رہا رب کو
راضی اور نا راض کرنے کا مسلہ تو کل کے لیے اپنا آج کون خراب کرتا ہے۔ میں
تو سمجھتا ہوں جہاں دین آپ کی زندگی کو خوبصورت بنائے وہاں اسے اپنی زندگی
میں شامل کر لو، مثلاً نکاح وغیرہ کا عمل دین ہی طے کرئے گا نا۔ مگر جہاں
دین زندگی کو مشکل بنائے وہاں ڈنڈی مار لو۔ اللہ نے خود ہی کہا ہے کہ شرک
کے علاوہ سب کچھ معاف ہو سکتا ہے تو کس کو پڑھی ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عارفہ کے خیالات کو گھنٹی کی آواز نے منتشر کر دیا۔
عیان اسی روٹھے انداز میں بے نیازی سے اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں کوئی
بڑا سا پیک تھا۔ اس نے میز پر رکھا اور اندر چلا گیا۔ اس کی بے نیاز عارفہ
کی جان لے رہی تھی۔ پورے گھر میں ایک ہی تو بندہ تھا۔ وہ بھی اس سے نہیں
بول رہا تھا۔ اس نے پورا دن ہو چکا تھا۔ کچھ نہیں کھایا تھا۔ آفتا بے
نیازی سے فریش ہو کر میز پر آیا ، جہاں پہلے ہی عارفہ بیٹھی اس کا انتظار
کر رہی تھی ۔ اس نے تھوڑی دیر ٹیبل کو دیکھا اور پھر کچن سے کچھ برتن
نکالے۔ پیک میں سے برگر نکال کر کھانے لگا۔ عارفہ اسے افسردگی سے دیکھ رہی
تھی۔ اس نے انتہائی مایوسی سے کہا۔ آپ مجھ سے بات نہیں کریں گئے۔ عیان نے
اس کی طرف گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا بات کروں۔
عارفہ رونے لگی۔ عیان نے غصے سے کہا۔ کیا چاہتی ہو ۔ میں کھاوں نہ۔ رونا ہے
تو اندر جا کر رو۔ عارفہ اندر نہ گئی۔ اس نے پھر برگر نکال کر عارفہ کی طرف
کرتے ہوئے کہا۔ یہ لو تمہارے لیے بھی لایا ہوں ۔ عیان کے اپنی طرف بڑھتے
ہوئے ہاتھوں نے اسے سکون کا احساس دیا ، عیان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چلو میں
کھلاتا ہوں ۔ عارفہ صبح سے بھوکی تھی اس نے عیان کی طرف دیکھتے ہوئے برگر
کھا لیا۔ وہ خوش ہو گئی کہ عیان اس سے راضی ہو گیا۔ کھانے کے بعد اسے عجیب
دل خراب ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے مگر جلدی جلدی برتن سمیٹے تاکہ
عیان کے قریب جا کر بیٹھ سکے ۔ وہ جب عیان کے پاس جا کر بیٹھی تو اس کے
چہرے کی مسکراہٹ نے اسے سب بھلا دیا۔
عیان نے ہنستے ہوئے کہا ۔ میرے لیے دو ڈبے تو نکال لاو ۔ وہ فوراً سے اُٹھی
اور دو عدد ڈبے لے کر بیڈ پر عیان کے ساتھ چپک کر پیٹھ گئی ۔ اس نے ڈبے
عیان کو تھماتے ہوئے کہا۔ کتنی سردی ہے۔ عیان نےہاں میں سر ہلایا۔ وہ ڈبے
کو کھول کر پینے لگا۔ عارفہ خوش تھی کہ عیان نے اسے شراب پینے کا نہیں کہا
تھا۔ وہ جب صبح اُٹھی تو بہت خوش تھی اس نے نماز پڑھی ۔ جیسے ہی وہ نماز
پڑھ کر فارغ ہوئی تو اسے قہ ہو گئی ۔ اس کا دل پھر سے عجیب ہونے لگا۔ وہ
کچن میں آ کر چائے بنانے لگی ۔ اتوار کا دن تھا۔ عیان اتوار کو دیر تک
سوتا رہتا تھا۔ عارفہ نے اپنے لیے ہی فقط چائے بنائی ۔ اس کا دل چاہ رہا
تھا کچھ کھائے ۔ وہ فریج سے کیک نکال رہی تھی کہ اس نے رات والے پیک کی طرف
دیکھا۔ دل ہی دل میں سوچا ۔یہ برگر اچھے نہیں تھے ۔ اسی لیے تو اسے قہ ہوئی
تھی ۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں اس نے پیک اُٹھایا تو اس کی نظر جس تحریر سے
گزری ، اسے دیکھ کر اسے دوبارہ متلی محسوس ہونے لگی۔
وہ کلیاں کرنے لگی۔ وہ برگر خنزیر کے خوشت کے تھے ۔ میرے اللہ ۔ میں نے کیا
کھایا۔ وہ چھوٹے بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ شراب پی کر بدمست سونے والے کو
کسی کے رونے کی آواز کہاں سنائی دیتی ہے۔ وہ دیر تک روتی رہی ۔ اس نے چائے
نہیں پی ۔ افسردگی اور ندامت سے اس کا بُرا حال تھا۔ وہ سوچ رہی تھی،کہ رات
وہ کس قدر خوش تھی ۔اس کے دماغ میں اپنے ہی الفاظ کی بازگشت سنائی دی۔ امی
دین دار ہونے میں کوئی بُرائی نہیں ہے مگر مجھے اس جھمیلے میں نہیں پڑنا۔
اوہ میرے اللہ ۔ وہ روتی جا رہی تھی۔ جو وہ کر چکی تھی اس کا ازالہ کیسے
ہو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے مذید
قہ کی۔ اس نےایم اے اسلامیات کیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اللہ تعالی نے کس
طرح قرآن مجید کی سورت مائدہ میں حلال و حرام کو واضح الفاظ میں بیان کیا
ہے ۔ مسلمان جس جانور کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ اپنی حلق سے اتار
چکی تھی۔ ندامت کے احساس سے موت کیوں نہیں آتی ۔ وہ پہلی دفعہ سوچ رہی
تھی۔ اس نے کتنی بڑی غلطی کر دی تھی۔
عیان دن ایک بجے اُٹھا وہ ہشاش بشاش دیکھائی دے رہا تھا۔ وہ عارفہ کے پاس
آیا تو اس کی سوجھی ہوں ، انکھیں دیکھ کر اس نے انجان بنتے ہوئے کہا۔ یار
ناشتہ تو دو ۔ بہت بھوک لگی ہے۔ عارفہ نے کچن میں جا کر وہی شاپر اُٹھایا
اور عیان کے سامنے میز پر پھینکتے ہوئے کہا۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔آپ نے
مجھے گندگی کھلاتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا۔ عیان نے اس کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا۔ گندگی ۔ کیسی گندگی ؟
دیکھو عارفہ ،تم حد سے بڑھ رہی ہو ، تمہارا مطلب ہے میں گندگی کھاتا ہو۔
گندگی تو میں پاکستان سے اُٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا ہوں ۔ عارفہ نے چیختے
ہوئے کہا۔ تو پھر واپس چھوڑ آئیں مجھے۔ ویسے بھی مجھے سور کے ساتھ نہیں
رہنا۔ عیان نے ایک تھپر کھینچ کر اس کے منہ پر مارا ۔ کیا بولا تم نے پھر
بولو! کافی دیر اس کی دھلائی کرنے کے بعد وہ ناشتہ بنانے لگا ۔
عارفہ دیر تک روتی رہی۔ اس بات کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر اب عارفہ نے
عیان کو راضی کرنے کا نہ سوچا ۔ وہ بھی بے نیازی برتا کرتا۔ عارفہ اس واقعہ
کے بعد مذید دین سے قریب ہو گئی۔ وہ جانتی تو سب کچھ پہلے بھی تھی مگر نفس
کے آگے انسان اکثر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ،کاش میں
اس وقت سوچتی کہ حرام کے مال پر ہونے والے لڑکے کی پرورش کیسی ہو گی۔ حرام
تو حرام ہے وہ سور ہو یا پھر کسی کا حق ۔ میں نے کیوں نہیں سوچا ۔وہ ہر روز
اپنے آپ کو کوستی ۔اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اس حد تک دین کے
قریب ہو سکتی ہے۔ اس نے اپنی امی کو ساری بات بتا دی تو اس کی امی نے
افسردگی سے کہا دیکھو عارفہ ، ہر مرد میں کچھ نہ کچھ عیب تو ہوتے ہی ہیں ۔
تم اپنے پیار سے اسے اچھا بنانے کو کوشش کرو۔ عورت اپنی محبت سے مرد کو بدل
لیتی ہے۔ بیٹا ، جو ہوا اسے بھول کر دوبارہ اس سے بات کرو۔ ہمارے معاشرے
میں طلاق یافتہ عورت کی کی حیثیت ہوتی ہے تم اچھی طرح جانتی ہو۔
عارفہ کو اپنی ماں کی باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں مگر اس نے ایک بار پھر
عیان سے بات کرنے کا سوچا۔ دل ہی دل میں خود کو تسلی دی ۔ عیان یہاں آ کر
بہک گیا ہے ۔ اسے دین سے روشناس کروانا چاہیے۔ ممکن ہے کے وہ سدھر جائے۔اس
نے قرآنی کی آیات کو ایک صفحہ پر لکھنا شروع کیا ۔
سورت البقرہ آیت نمبر۔۱۲۸
اے لوگو! زمین پر جو چیزیں موجود ہیں،ان میں سے حلال پاک چیزوں کو کھاو اور
شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
سورت المومنون۔۵۱
اے پیغمرو ں پاک چیزوں میں سے کھاو۔نیک عمل کرو۔ یقیناًمیں تمہارے اعمال سے
خوب واقف ہوں ۔
ابھی وہ لکھ ہی رہی تھی کہ عیان اندر داخل ہوا ۔ اس کے ساتھ کو اس کا دوست
بھی تھا۔ عیان نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔ شی اذ مائی وائف۔ اس گورے کو دیکھ
کر عارفہ کو حیرت ہوئی ۔ عیان کبھی کسی کو اس طرح گھر نہیں لایا تھا۔ یہاں
آئے ہوئے عارفہ کو دو ماہ سے ذیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ عارفہ نے دیکھا
کے عیان اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا ۔ کافی دیر گزر چکی تھی ۔ جب وہ
باہر نہیں ۔ آئے تو عارفہ کو حیرت ہوئی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ جو
شخص شراب پی سکتا ہے سور کا گوشت کھا سکتا ہے ۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اس
نے اندر جانا مناسب نہیں سمجھا مگر کافی دیر بعد عیان کمرے سے باہر آیا
اور عارفہ کو کمرے میں ساتھ چلنے کا کہا،عارفہ کے انکار پر اس نے اسے
زبردستی کمرے میں لے کر جانے کی کوشش کی عارفہ نے میز پر پڑا گلدان اس کے
سر پر اس ذور سے مارا کے اس کے سر سے خون کافوارہ پھوٹ پڑاوہ درد سے
چیخا۔وہ درد سے چلا رہا تھا۔ اتنے میں وہ گورا کمرے سے نکل آیا عارفہ کی
طرف بڑھا ہی تھا کہ عارفہ بھاگتی ہوئی ،گھر سے باہر نکل گئی۔ وہ ایسے بھاگ
رہی تھی جیسے اس کے پیچھے کسی نے کتے چھوڑ دیے ہو۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک ہوسپٹل میں تھی۔ ہر جگہ گورے ہی گورے تھے۔ کوئی
کوئی سیاہ فام بھی نظر آ جاتا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ خواہشات
نفس انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں ، اسے اپنا ہی دیا ہوا لیکچر یا
د آ رہا تھا۔ جو شخص حلال اور حرام میں فرق نہیں کرتا اس سے ڈرنا چاہیے۔
وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی ، اگر آفتاب مر گیا تو پھر سے نے اطمینان سے
کہا۔کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ذیادہ سے ذیادہ کتنی زندگی ہے ۔ ساٹھ سال ، ستر
سال ۔ حد ہو گئی تو سو سال ۔ بس اتنی سی زندگی۔ اس ابدی زندگی کو اس حقیر
مدت کے لیے کیسے قربان کر سکتی ہوں ۔
اس کے پاس کچھ پولیس والے آ کر کھڑے ہوئے ۔ وہ تحقیق کر رہے تھے۔ اس نے
صاف صاف ہونے والے واقعہ کو بتا دیا۔ آفتاب کو گہری چوٹ تو آئی تھی مگر
وہ زندہ تھا۔ عارفہ نے طلاق لینے کی اپیل کی ۔ جو منظور ہو گئی ۔ عارفہ کو
واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔
جب وہ واپس آئی تو اس کے ماں باپ ایرپورٹ پر کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے
۔ اس نے اپنے ماں باپ کو تسلی دی۔ جب اپنا وجود رب کو سونپ دیا جاتا ہے تو
وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیتے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا۔ انسان
آپ کو کچھ نہیں دے سکتے ۔ وہ رب ہی ہے جو نت نئے وسیلے بنا کر انسان کو
سنبھالتا ہے۔
اس نے سوچ لیا تھا۔ وہ اپنی باقی زندگی گمرائی میں نہیں گزارے گی۔ اسے جو
تجربہ ہوا تھا۔ وہ اس کی دل کی زرخیزی کے لیے لازمی تھا۔ وہ اپنے بیڈ پر
لیٹی تھی ۔۔ یہ وہی بیڈ تھا جہاں چھ ماہ پہلے یہی عارفہ کچھ اور تھی اور
آج کچھ اور ۔ اس کی بند انکھوں کے کونوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ جب اس کی
امی کمرے میں آئی تو انہوں نے دھیرے سے عارفہ کا نام لیا۔ عارفہ نے انکھ
کھولی اور امی کی طرف دیکھا ۔ وہ رو رہی تھیں ۔ اس نے امی سے کہا۔ امی آپ
رو کیوں رہی ہیں ۔ امی نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو؟
تم کیوں رو رہی ہو؟
عارفہ نے مسکرا کر کہا۔ میری انکھوں سے نکلنے والے آنسو اس دنیا کے لیے
نہیں ہیں ۔ امی۔ میں رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں ، جس نے مجھے اندھے
کنواں میں گرنے سے بچا لیا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میری یہ زندگی لوگوں
کی باتوں کے لیے موضوع بنے گی۔ نہ ہی مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میرا رشتہ
ٹوٹ گیا۔ مجھے تو اس بات کا افسوس ہے کہ تمام علم کے باوجود میں اپنے نفس
کے بہکاوے میں آگئی ۔ میں نے کیوں نہیں سوچ پائی کے صدیق انکل نے رفیہ کا
رشتہ عیان کو کیوں نہیں دیا۔
میں نے چمک دمک سے دھوکا کھایا لیکن امی مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اس کی امی نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ہم انسانوں میں یہی بُری بات ہے بیٹا
کہ ہم تھوڑے سے فائدے اور تھوڑی سی زندگی کے لیے ، اس ابدی زندگی کو فراموش
کر دیتے ہیں ۔ جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ جہاں رب وعدہ کرتا ہے کہ مومن کے
لیے ہر وہ چیز ہو گی جووہ چاہے گا۔ہم مگر جلد باز ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ نے دوبارہ پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ فارغ اوقات میں بچوں کو قرآن
پڑھاتی اور درس قرآن میں لگا تار جانے کی وجہ سے اسے دین کے علم میں مہارت
ہو چکی تھی۔ رفیہ ایک دن جب اس سے ملنے آئی تو وہ قرآن کا درس دے رہی
تھی۔ رفیہ نے اسے بتایا کہ اس کی شادی طے ہو گئی ہے ۔ عارفہ نے مسکراتے
ہوئے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری قسمت اچھی کرئے۔ وہ نیک ہو اور تمہیں نیکی کی
طرف لے کر جانے والا ہو۔ رفیہ نے عارفہ میں غیر معمولی تبدیلی دیکھی ۔ اس
نے اس کا تذکرہ اپنے گھر میں کیا ۔ صدیق صاحب نے وقار سے کہا۔ عارفہ سے کیا
تم شادی کرو گئے۔ اگر ایسا کرو تو تمہیں بڑا اجر ملے گا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ
کی سنت ہے ۔ بیٹا تم جانتے ہو ۔ایک اچھی نیک بیوی مرد کا سب سے قیمتی
سرمایا ہوتی ہے۔ وقار نے اپنے والد کی بات سنی تو کہا۔ جیسا آپ بہتر
سمجھیں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
وقار کا رشتہ آیا ہے تمہارے لیے امی نے دھیرے دھیرے سے عارفہ کے بیڈ پر
بیٹھتے ہوئے کہا۔ عارفہ نے حیرت سے کہا۔ مگر وہ کیوں ایک طلاق یافتہ سے
شادی کرئے گا ۔
عارفہ نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ آمنہ نے عارفہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
شاہد اس لیے کہ یہ سنت ہے۔ اللہ کے نیک بندے نبی ﷺ کی سنتوں کو قائم رکھے
ہوئے ہیں ۔عارفہ نے کچھ دیر امی کی طرف دیکھا تو اس کی امی رونے لگی ۔ اس
نے اپنی انکھوں میں آنسو سمیٹتے ہوئے کہا۔ امی آپ کو جو مناسب لگے کر لیں
۔
اس کی ماں کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ سب بہت خوش
تھے۔جس دن مہندی کی رسم کی جا رہی تھی۔اس دن ،عارفہ نے اپنی پھوپھو کے منہ
سے ایسی بات سنی جیسے سن کر اسے اپنے وجود لزرتا ہوا محسوس ہوا۔ لاش آرہی
ہے اس منحوس کی ۔ ہماری بچی کے ساتھ کرنے والے سے رب نے بدلا لے لیا۔ آمنہ
نے کہا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ طارق ساری زندگی لوگوں کو لوٹتا
رہا ۔ آج اکلوتا بیٹا ، خاندان کی عورتیں عیان سے متعلق بتا رہیں تھی۔ کار
ایکسڈینٹ میں اس کی موت ہو گئی۔
سب اسے کوس رہے تھے جبکہ عارفہ رو رہی تھی۔ وہ سارے کے سارے لمحے یکے بعد
دیگرے اسے دیکھائی دے رہے تھے جو اس نے اس کے ساتھ گزارے تھے۔ اس کے دل میں
فقط یہی آ رہا تھا ۔ یہ ہے وہ زندگی جس کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار
ہونے ہیں جس کی لذات ہمیں اندھا کر دیتی ہیں ۔ بس اتنی سی زندگی کے لیے
انسان ، انسان سے جانور بن جاتا ہے۔ خلوص و محبت کی بجائے شکل و صورت ،روپے
،پیسے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے دل میں نہ اس کے لیے محبت تھی نہ نفرت
،بلکہ اس کا دل خوف سے بھر گیا تھا۔ یہ وہ منزل ہے جو ہم سب نے عبور کرنی
ہے۔ باہر سے باتیں اس کے کانوں تک تو پہنچ رہی تھیں مگر اس کا دماغ فقط رب
کی کبریائی بیان کر رہا تھا۔
(نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی توفیق صرف اللہ ہی کی طرف سے
ہے)آنسو اس کی انکھوں سے گرتے جاتے اور وہ کہتی جاتی ۔اے رب مجھے توفیق
دینا کہ میں شیطان کے بہکاوے میں نہ آوں ۔ مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ
رکھنا۔
|