اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس
میں فساد نہ پھیلاؤ
(سورہ اعراف56)
فساد جس کو دنیا Terrorism کے نام سے پکارتی ہے،اتنا دماغوں پہ چھایا ہوا
ہے کہ اب کوئی بھی بات کہیں کی بھی ہو کہیں سے لی گئی ہو Terrorism میں
شامل ہوتی ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Terrorism ہے کیا چیز؟ اس لئے
کہ پوری دنیا کا میڈیا اس وقت Terror، Terrorپکار رہا ہے' مگر کوئی آج تک
یہ نہیں سمجھ پایا کہ Terrorism ہے کیا چیز؟
میں پوری دنیا سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ Terrorismایکشن ہے یا ری
ایکشن؟ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہونا چاہیے، terrorismاگر ایکشن ہے
تو کوئی بھی ایکشن بغیر مقصد اور منزل کے نہیں ہوتا،اس کی کوئی نہ کوئی
منزل ہونی چاہئے جہاں سے یہ ایکشن ہوتا ہے، آپ گھر سے نکلتے ہیں آفس کے لیے
یہ جو آپ کا چلنا ہے یہ ایکشن ہے، کیونکہ ایکشن کی کوئی نہ کوئی منزل ضرور
ہوتی ہے کہ یہ ایکشن ہوا تو ہوا کیوں؟ بغیر کسی Reason کے نہیں اور اگر
ایکشن ہے ری ایکشن کیا ہے جس کے ذریعے یہ ایکشن ہوا؟ میرے خیال سے کوئی بھی
terrorismکو ایکشن نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ اگر یہ ایکشن ہے تو اس کا ری
ایکشن کیا ہوگا؟ کہ کیوں یہ ری ایکشن پیدا ہوا؟
یہ ہیومن نیچر ہے کہ جب بھی ان کی کوئی ڈیمانڈ رکتی ہے تو اس کے اندر الجھن
پیدا ہوتی ہے' اس کے معنی ہیں کہ جب یہ ہیومن رائٹس رکتا ہے، سمجھئے کہ
الجھن پیدا ہوگئی، جب یہ رکتی ہے تو شور وغل میں تبدیل ہوجاتی ہے جب اس کا
کوئی جواب نہیں ملے گا تو پھر اس سے terrorismپیدا ہوگا اس کے معنی ہیں کہ
terrorismایکشن نہیں ہے ری ایکشن ہے۔ یہ ہیومن نیچر ہے، جب چھوٹا سا بچہ
روتا ہے اور اگر ماں باورچی خانے میں ہو تو اگر اُس روتے ہوئے بچے کو ماں
نے نپل دے دیا، ڈیمانڈ اصلی تھی لیکن سپلائی نقلی تھی' بچہ فوراً سمجھ گیا
کہ یہ ماں نہیں ہے' یہ کوئی اور چیز ہے' پہلے تو نادان تھا بچہ تھا' جہالت
کی بنا پر سمجھا کہ یہ ماں آگئی ہے' یہ فطری عمل ہے تو پہلے ڈیمانڈ تھی کہ
مجھے اپنی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے۔
اس لئے اگر آج دنیا کے اندر terrorism پیدا ہو رہا ہے تو اثر ہے کسی نہ کسی
چیز کا ۔ لہٰذا ا گر پوری دنیا چاہتی ہے U.N.O چاہتی ہے کہ دنیا کے اندر
terrorism کو روکیں تو terrorism کے اثر کو روکنا پڑے گا۔
نجی کمپنیوں کے آفیسرز کی مثال لے لیجئے کہ جو ملازمین پر ظلم ڈھاتے ہیں
اُن سے زبردستی کام لیتے ہیں'تنخواہیں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نہیں دیتے'
ملازمین بے چارے مجبور ہوتے ہیں' اپنے بچوں کے لئے بھی تو کچھ کرنا ہے ناں
اُن کا پیٹ بھی تو پالنا ہے ، لیکن Boss ہے کہ اُن سے زیادہ سے زیادہ کام
لیتا جا رہا ہے، اسی طرح جب ظلم بڑھتا ہے تو ملازمین تھک جاتے ہیں ، جب
ملازمین تھک جاتے ہیں تو وہ Revenge لیتے ہیں Boss سے ، نتیجہ کیا نکلتا ہے
کام میں سے جی چرا لیا ، اس کے کسی پراجیکٹ میں کمی بیشی کرلی، ان کا مال
پڑا ہوا تھا اٹھا کے لے گئے، آپ نے اکثر ملاحظہ کیا ہوگا جو ملازمین کیا
کرتے ہیں، اسی چیز کو دنیا Terrorism کے نام سے پکارتی ہے کہ ایک کمزور
انسان جب بڑی طاقت اور بڑی شخصیت سے انتقام نہیں لے سکتا تو وہ نقصان
پہنچانے کے بعد اپنے دل کو تسکین دیا کرتا ہے، یہ بہکا ہوا Revenge یعنی
انتقام ہے، اس انتقام کو اگر آپ نے Terrorismکا نام دے دیا تو اس کا مطلب
یہ ہے کہ بغیر Reason کو ختم کئے آپ Terrorism کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو
لہٰذا پہلے غریبوں کو حق دیجئے پھر اگر وہ چیختے چلاتے ہیں تو، تب ان سے
پوچھئے کہ چیخ کیوں رہے ہو Reasonکیا ہے ہو سکتا ہے ان کے حق کے لئے Demand
کررہے ہوں۔
اب ڈیمانڈ صحیح ہے یا غلط یہ بعد کی بات ہے وہ ڈیمانڈ تو کررہی ہے، اب
ڈیمانڈ کے معنی یہ تو نہیں کہ پولیس ایکشن کرلیا جائے، گولی اور آنسو گیس
تک کی نوبت آجائے اور فساد برپا کیا جائے، اولاد بھی ڈیمانڈ کرتی ہے صحیح
اور غلط' رعایا آپ کی مانند ہے تو اب ڈیمانڈ کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ آپ
رائفل لے کے کھڑے ہوجائیں بیٹے کے سامنے کہ تونے موٹر سائیکل مانگی کیوں
ہے؟
تو بچے کی دیمانڈ کبھی بے تکی بھی ہوتی ہے اس کیلئے سمجھانا ہے' ان کو یہ
کہہ دینا کہ تم Terrorist ہو گئے ہو، نہایت سنگین بات ہے، بچے کو بہلا یا
بھی تو جا سکتا ہے' تو جب بچے کو بہلایا جا سکتا ہے تو چیختی ہوئی نعرے
لگاتی ہوئی قوم کو بھی بہلایا جاسکتا ہے اس کو Terrorism کا نام نہیں دے
سکتے' جب آپ سوچنے اور سمجھنے کا دروازہ بند کرلیں تو جب آدمی ظلم کو ایک
مرتبہ برداشت کرلیتا ہے تو پھر وہ ظلم،ظلم نہیں رہتا اس کا پھروہ عادی ہو
جاتا ہے۔
گھن گرج اس وقت بری معلوم ہوتی ہے جب وہ پہلے پہلے ہو لیکن دن رات آپ گھن
گرج کے اندر زندگی گزار رہے ہوں تو آپ کے اندر کا سسٹم اس کو Accept کرلیتا
ہے اور وہ کوئی بری بات نہیں رہتی' نیا نیا اگر کوئی ہنگامہ ہو تو ہم باہر
سڑکوں پر نہیں نکلتے لیکن جب روز ہنگامہ ہو تو پھر اس کی کیا حالت ہوتی ہے
؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں' قیامت کے بارے میں ہے کہ ایک دن آئے گی لیکن
اگر روز قیامت ا ۤئے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ افغانستان میں کابل کے اندر بمباری ہورہی ہے اور
عورتیں بڑے مزے سے شاپنگ کررہی ہیں' دوسری طرف آگ لگ رہی ہے' ان کے دل و
ماغ نے گھن گرج کو قبول کرلیا ہے تو پھر ہر قسم کے ناصحانہ طریقے' سمجھانے
کے ڈھنگ بالکل بے کار ہوجاتے ہیں پھر وہ Mantly اس برائی کو قبول کرلیتی
ہے' لہٰذا دنیا میں terrorism کو رکنا چاہیے مگر یہ خون کا نام نہیں ہے ذہن
میں خلفشار کا نام ہے۔
سب سے پہلے اس کے Reason کو ختم کیجئے کہ وہ terrorism آتا کہاں سے ہے ' سب
سے پہلے جہاں سے terrorism پیدا ہوتا ہے وہ بچپن سے پنپتا ہے' جب انسان اس
دنیا کے اندر آنکھ کھولتا ہے اور ماں کی گود میں آتا ہے چھوٹا بچہ ہے' نہیں
جانتا کہ میں کہاں آگیا ہوں' اس نے جب آکسیجن نہیں دیکھا تھا اب وہ محسوس
کرتا ہے کہ ہوا لگ رہی ہے'پیدا ہونے والا بچہ کسی قسم کی آواز کو تو نہیں
جانتا تھا، ماں کے پیٹ میں محسوس کرتا تھا کہ کوئی آواز نہیں آئے گی ،اب وہ
محسوس کرتا ہے کہ کوئی آواز آئے گی، ماں کے پیٹ کا بچہ نہیں جانتا تھا کہ
smell کیا چیز ہے ، اب وہ مختلف قسم کے آدمیوں کے جسم کی بو محسوس کرتا ہے
تو محسوس ہوتی ہے کہ یہ کیا چیز ہے، آدمی کا لمس محسوس کرتا ہے کہ یہ کیا
چیز ہے مجھے کون چھو رہا ہے، جب وہ روتا ہے تو ڈر اور خوف کا نتیجہ ہوتا ہے
اور سوچتا ہے کہ میں کہاں آگیا غلط لوگوں میں تو نہیں آگیا ، یہ شور و غل
کیسا ہے، کس نے مجھے ہاتھ سے پکڑا، یہ بو کیسے آرہی ہے ڈر اور خوف کی بنا
پر وہ روتا ہے، جہاں خوف ہو وہاں حفاظت ہونی چاہئے، جب وہ ڈرا تو کسی نے
اُسے سینے سے لگا لیا ، جب سےنے سے لگایا اور پیار کرلیا تو اس کو محسوس
ہوتا ہے کہ یہ کوئی اچھا آدمی ہے یہ کوئی میرا دشمن نہیں ہے ، جب کوئی ایسا
کرتا ہے کہ ہاتھوں کی نزاکت اور سینے کا نرم و گداز ہونا دل کو سکون دیتا
ہے، یہ دونوں چیزیں خوف اور ڈر کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت یہ انسان کیلئے
ضروری ہے، جب یہ بچہ آگے بڑھتا ہے تو اسے جگہ جگہ قدم قدم پر ڈر لگا رہتا
ہے اسے چاہئے کیا؟ اسے ہر وقت پیار چاہئے ، کیونکہ ہر وقت ڈر اور خوف ہے تو
اسے چاہئے پیار، بچے کے خالی ذہن کے اندر جو خالی جگہیں ہیں اسی میں ممتا
کی ضرورت ہے، پیٹ کیلئے دودھ کی ضرورت اور ذہن کے لئے پیار کی ضرورت، بچہ
اِسی طرح پروان چڑھتا ہے۔
اب سائیکالوجی کا پورا Chapterآپ پڑھ لیں، دل سہمے ہوئے ہیں پریشانیاں ہوتی
ہیں اور کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ روز اپنے بچے پر ظلم کرتے ہیں اور
بچوں کو مارتے رہتے ہیں اور جب گھر میں آتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے زمین ہل گئی اور گھونسا ہلا دیا شانہ الٹ دیا صوفہ سیٹ پلٹ دےا کیا
ہوا ہنگامہ ہوگےا، معلوم ہوا کہ جناب BigBoss آگئے۔ تو اب یہ معلوم ہوا کہ
ستانے والا باپ ہے کیا چیز؟ پتہ چلا جس کو بچپن میںپیار نہیں ملتا وہ بڑا
ہو کے Terrorism پھیلاتا ہے ، دوسرے کو دکھ پہنچا کر خوش ہونا یہ ایک ذہنی
بیماری ہے یہ ہے اصل میں Terrorism جس کا منشاء دوسرے کو دکھ پہنچانا ہوتا
ہے، یہ ستانے والا Terrorist نہیں ہے، یہ بہتا ہوا Revengeہے، اس کو آپ گڈ
مڈ مت کیجئے، دونوں کے Reason علیحدہ علیحدہ ہیں، تو جو انسان دل آزار ہوتا
ہے ستاکے خوش ہونے والا لاشوں کے ڈھیر لگانے والا وہ Mantly اپ سیٹ ہوتا
ہے، بچپن سے جس کو اداسیاں ملی ہوں جسے پیار نہ ملا ہو جس کے باپ کو فرصت
نہ ہو اولاد کے ساتھ کھیلنے کی ماں کو موقع نہ ملے اولاد کے ساتھ باتیں
کرنے کی اسی میں انسان اداسیوں میں ڈوب جاتا ہے، اور پھر بڑا ہوکے جب اس کے
ہاتھوں میں پاور آتی ہے اور گھر میں وہ شوہر بنتا ہے ، وہ زہر کا پیالہ بن
جاتا ہے، اور اس کے شک ہی شک میں ایک آواز آتی ہے کہ مجھے کسی نے پیار دیا
تھا جو میں کسی کو پیار دوں؟! آپ اندازہ لگائیں کہ یہ جو Terrorism پیدا
ہوتا ہے دل آزاریاں ستانا یہ بچپن کی اداسیوں کا نتیجہ ہے اگر آپ کسی کے
ذہن سے باپ کو پیار دینا چاہتے ہیں ، شوہر کو محبت دینا چاہتے ہیں تو اس کے
بچپن کو پیار دے دیجیے جب بچپن کا یہ پودا پیار کے پانی سے زندگی پائے گا
اب جو اس کے پھل ہوں گے وہ کڑوے نہیں ہوں گے نہایت ہی خوشگوار ہوں گے۔
لہٰذا اگر سماج میں ظلم و ستم روکنا چاہتے ہیں تو جب تک کہ بچے کے باپ کے
پاس ٹائم نہ ہو ماں کے پاس فرصت نہ ہو پورا سماج ظلم میں ڈوبا رہے گا، یہ
وہ Terrorism ہے جو گھروں کے اندر پلتا ہے،اور موقع پاکر ظلم و ستم کرتا
ہے، لہٰذا ضرورت پڑتی ہے اس بات کی وہ کانٹے نکالے جائیں جس سے درد پیدا ہو
رہا ہے، لیکن کانٹا یونہی رہے اور آپ کہیں کہ درد نکالو ، پہلے راستے کے
کانٹے صاف کرو پھر درد کا علاج فوراً ہوجائے گا، لیکن راستے میں روز تم
کانٹے بچھائے جاؤ اور چلنے والوں سے کہو کہ آہ نہ کریں اور پیروں کے درد سے
نہ چیخیں نہ چلائیں یہ کیسے ممکن ہے اس لیے میری یہی عرض ہے کہ Reasonختم
کریں پھر دیکھئے حل کیسے نکلتا ہے ۔
حضور ؐ کا زمانہ تھا صحابہ کرام ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ایک شاعر آیا چیخ رہا
ہے چلا رہا ہے ہمارے حضور ؐ کے خلاف بہت چیخنے لگا، دوستوں کو غصہ آیا،
اپنی اپنی تلواروں کو اپنے ہاتھ میں رکھا مار ڈالو اس کو یہ حضور ؐ کی
توہین کررہا ہے حضور نے فرمایا نہیں نہیں امن و سلامتی سے کام لو'جناب علی
ؑ سے فرمایا: علی ؑ! شاعر کی زبان کاٹ دو، حضرت علی ؑ اٹھے اُس کے کاندھوں
پہ ہاتھ رکھا، کونے میں لے گئے نہ جانے کیا باتیں ہوئی ہوں گی تھوڑی دیر کے
بعد دونوں ہنستے ہوئے چلے آرہے ہیں علی ؑ بھی ہنستے ہوئے آرہے ہیں اور وہ
بھی قصیدے کہہ رہا ہے نبی ؐ کی شان میں سبحان اللہ، دوستوں نے کہا: حضور!
علی ؑ نے تو آپ کا آرڈر نہیں مانا آپ نے تو آرڈر دیا تھا کہ زبان کاٹ لو،
لیکن زبان تو کہیں نہیں گئی بلکہ اور بڑھ گئی ہے انہوں نے فرمایا: علی ؑ سے
پوچھو ،کیونکہ وہ ہی گئے تھے' جناب علی ؑسے پوچھا گیا سرکار: آپ کو تو کہا
تھا کہ شاعر کی زبان کاٹ دو لیکن نہیں کاٹی' انہوں نے کہا: حضور ؐ نے مجھے
کہا تھا اس کی زبان کاٹ دو میں نے کاٹ دی، یہ بھوکا تھا اسلام سے پہلے بڑے
بڑے چودھریوں کی تعریف کرتا تھا تو پیسے ملتے تھے اسلام نے کہا کسی کی
تعریف نہیں بس الحمد اللہ ، اللہ کی تعریف، اب اس کا پیٹ ہوگیا خالی سارے
اللہ کی تعریف کرنے لگے اب بےچارہ سمجھا کہ اس کے پاس تو ہے نہیں تو اب یہ
بھوکا ہے تو کیا کرے یہ Terrorist تو بنے گا' جب میں نے کہا تیرے بیوی بچے
پریشان معلوم ہوتے ہیں وہ پس و پیش سے کام لینے لگا' میں نے کہا یہ آۤٹا
واٹا لے جاؤ' یہ کپڑے وغیرہ لے جاؤ' اور جب بھی کوئی ضرورت پڑے آجایا کرو
ہم تمہیں دے دیا کریں گے' کہتا ہے: کتنے اچھے ہیں آپ علی ؑ ! یہ گنگاتا ہوا
چلا گیا ۔
چھوٹی سی مثال ہے اگر یہ کہیے کہ یہ جو Terrorist بن کے آیا تھا اگر اس کو
ختم کیا جاتا اور مارا جاتا تو ان میں تو کوئی مشکل کام نہیں تھا بے چارہ
ایک آدمی تھا اتنے لوگ تھے مگر اسلام نے یہی بتایا کہ ایکشن اور ری ایکشن
میں فرق ہے' یہ جو چیخ رہا ہے چلا رہا ہے یہ ری ایکشن ہے اسلام کے آنے کی
بنا پر کہ جو اس کا دھندہ چل رہا تھا وہ تو ختم ہو گیا جب اس کی ڈیمانڈ
پوری ہوگئی تو اب اس کا چیخنا چلانا ختم ہوجائے گا ۔
امام علی رضا ؑ کے زمانے میں مامون الرشید بادشاہ تھا' ایک سید بزرگ سفید
ریش چوری میں پکڑا گیا' جب چوری میں پکڑا گیا تو خلیفہ نے حکم دے دیا کہ اس
کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں؟ جب بوڑھے کو یہ معلوم ہوا کہ میرے ہاتھوں کے کٹنے
کا آرڈر آگیا ہے ' تو اس نے بادشاہ کو کہا کہ تو ہے ایک غلام' اور میں ہوں
ایک آقا' غلام کا حق نہیں بنتا کہ وہ آقا کا ہاتھ کاٹے' اس سے بادشاہ اور
بھڑک گیا کہا: ایک تو چوری کر کے آیا ہے اور ساتھ سینہ زوری بھی' کیا میں
غلام ہوں؟ بکواس کرتے ہو!مامون نے امام ؑ سے کہا کہ آپ دیکھ لیں یہ ہیں
قریش کے لوگ ' جرم ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس اتنی عقل نہیں ہے کہ مجھے غلام
کہہ رہا ہے۔
امام ؑ نے فرمایا: مامون کہا تو اس نے ہے لیکن اس سے Reason تو پوچھو!اگر
یہ Reason نہ بتا سکے تو اس نے جھوٹ کہا' جھوٹ کی سزا الگ ہے۔
بادشاہ نے اس سے پوچھا جی بتاؤ: تو نے مجھے غلام کیوں کہا؟ اس نے کہا
مامون! تیرے باپ ہارون رشید نے تیری ماں کو مسلمانوں کے خزانے سے خریدا
تھا' بیت المال سے ' بیت المال بادشاہ کی پراپرٹی نہیں ہوتا اسلام میں پبلک
کی دولت ہوتی ہے' عوام کی دولت سے اس نے تیری ماں کو خریدا' اس میں میرا
بھی حق تھا لہٰذا دنیا معاف کردے میں اپنا حق معاف نہیں کرتا ' لہٰذا تیرا
کوئی حق نہیں بنتا کہ تو مجھ پر حد جاری کرے' مامون تو پریشان ہوگیا اس نے
امام سے کہا: دیکھ لیا آپ نے کہہ کیا ہو رہا ہے سماج میں ؟ فرمایا: یہ غلط
تو نہیں کہہ رہا بات تو سچ ہے تیری ماں لونڈی تھی اس نے خریدا تھا اور وہ
بھی مسلمانوں کے مال سے اس نے کہا اب اس نے چوری کی ہے لہٰذا اس کا ہاتھ تو
کاٹنا ہی پڑے گا۔
اب یہاں بوڑھے سے کہہ رہے ہیں کہ تو نے چوری کیوں کی؟ اسلام بغیر Reason کے
سزا نہیں دیتا اگر اس نے چوری کر کے جرم کیا ہے تو پہلے یہ پوچھا ہے کہ تو
نے چوری کیوں کی؟ شوق' عادت اور مجبوری کیا چیز تھی؟
اب یہ جو بوڑھا تھا وہ پریشان ہو گیا اس بات پر کہ چوری کیوں کی؟ اس نے
امام سے کہا کہ: میں تو بھوکا تھا بھوکا رہتا ہی ہوں' میرے بچے بہت بھوکے
تھے میں نے ایک ایک سے قرض لینا چاہا کسی نے مجھے قرض نہیں دیا بھوک حد سے
بڑھنے لگی' جب مجبوری اس حد تک پہنچ گئی تو میں نے سوچ لیا کہ رات کے
اندھیرے میں دکان توڑ کر میں روٹی چوری کر لوں تاکہ میرے جو چھوٹے چھوٹے
بچے ہیں اُن کا پیٹ پال سکوں۔
امام ؑ نے فرمایا یہ جرم نہیں ہے' جو مجبوری کی بنا پر کیا جائے' خطا اس کی
نہیں ہے خطا تیری ہے کیونکہ تیرا فرض بنتا تھا کہ تو ہر معاملے میں ذمہ
داری کا مظاہرہ کرتا' لہٰذا یہ مجبور تھا اس لیے مجبوریاں اس بات کی اجازت
نہیں دیتیں کہ چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے'لہٰذا اسلام کہتا ہے کہ
اس کو غذا دو اس کی Demandکو پورا کرو!اس کے بعد اگر سمجھانے کے بعد بھی
کوئی جرم کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔
بس میری پوری دنیا والوں سے التجا ہے کہ قرآنِ کریم کی طرف تھوڑا سا تحمل
مزاجی سے رجوع کریں اور غور کریں جو کہ انسان کے نیچر کو جانتا ہے اور اس
کا حل پیش کرتا ہے: کہ ارشادِ خداوندی ہے:
وَلَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا
اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ (اعراف56) |