بجلی کا بحران

آج کل پاکستان جن مسائل سے شدت سے دوچار ہے اور جن سے عوام شدید طور پر متاثر ہیں ان میں بجلی کا بحران انتہائی اہم ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بلا تمیز ہر شخص پریشان ہے۔انسان نے ترقی کا بہت سارا سفر بجلی ہی کے دم سے طے کیا ، زندگی کی بہت ساری سہولتوں کا عادی ہوا ، ہاتھ سے ہونے والے بہت سارے کام بجلی سے ہونے لگے اب جب زیادہ تر گھروں سے ہتھ پنکھیاں اور گھڑے اٹھ چکے تو بجلی دغا دینے پر آگئی ہے لوڈشیڈنگ نے واقعی زندگی مشکل بنادی ہے اور آسانی سے مشکل کی طرف کا یہ سفر خاصہ مشکل ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مرض لاعلاج ہو چکا یا چارہ گروں کے کچھ ہنروں کی آزمائش ابھی باقی ہے۔ جب بھی لوڈشیڈنگ بڑھتی ہے تو بیشمار حکومتی اعلانات آسرے اور سہارے بن کر قوم کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں کہ ’’جلد ہی بجلی کی کمی پر قابو پا لیا جائے گا۔یہ ڈیم بنا دیں گے وہ ڈیم بنا دیں گے بجلی کی کمی عارضی ہے ختم ہو جائے گی‘‘۔اور یہی سنتے سنتے ایک زیادہ شدید بحران آجاتا ہے، اور عوام پھر چیخ اٹھتی ہے۔

کیا واقعی بجلی کا یہ بحران لاعلاج ہے اور کیا واقعی ہم اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں یا ایسا ہے کہ ہم وسائل اور ذرائع رکھتے ہیں لیکن منصوبہ بندی نہیں کرتے اور یا عمل کا فقدان ہے۔اعداد وشمار تو جو ہیں سو ہیں یہ درست ہے کہ ہماری بجلی کی زیادہ کھپت گھریلو سطح پر ہے لیکن بہتری کی کسی کوشش کے بغیر اگر گھریلو صارفین سے کہا جائے کہ ’’ایک بلب بجھا دیجئے‘‘ تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ بھی اچھا ہے لیکن چاہے ہم دو بلب بھی بجھا دیں تو جب تک نئی بجلی نہیں بنے گی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی۔اور نئی بجلی بنانے کے لیے حکومت کو ایک سے زیادہ ذرائع اور وسائل کو استعمال کرنا ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کو اگر اس مسئلے کا واحد حل قرار دیا جائے تو قومی اتفاق رائے پیدا ہونے میں نجانے کتنے سال لگیں اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اگر یہ ڈیم نہ بنایا تو ہم اگلا قدم نہ اٹھا سکیں گے بجائے رک جانے کے چلتے رہنا ہمارے لیے زیادہ سود مند ہے۔ہمیں مزید ایسے مقامات تلاش کرنا ہونگے جہاں ڈیم بنائے جا سکیں بجائے بہت بڑے منصوبے بنائے جائیں اگر بجلی علاقائی سطح پر فراہم کی جائے تو یوں دور دراز تک لائن بچھانے کے اخراجات اور نقصانات میں خاطر خواہ کمی کی جا سکے گی اور بڑے منصوبے میں خرابی کی صورت میں ملکی سطح پر مکمل بریک ڈاؤن سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں بجلی چھوٹے ڈیمز اور منصوبوں کے ذریعے پیدا کی جارہی ہے ہم اپنے شمالی علاقوں میں بلند آبشاروں اور تندوتیز دریاؤں کو اس مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔چھوٹے منصوبوں سے گھریلو ضروریات مقامی سطح پر پوری ہونے سے مرکزی نظام میں بجلی کی بچت ہوگی جسے صنعتی منصوبوں یا نزدیکی بڑے شہروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

کوئلہ بھی بجلی پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں جس کو توانائی کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور بجلی کی پیداوار کے لیے بھی لیکن بجلی کی شدید کمی پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تھرمل پاور سٹیشنز کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار مزید بڑھ سکے اور خاص کر ان علاقوں میں ایسا کیا جائے جہاں کوئلہ موجود ہے تاکہ نزدیکی علاقوں کو بجلی پہنچائی جا سکے۔ سندھ اور بلوچستان کے وہ علاقے جہاں کوئلہ وافر مقدار میں موجود ہے میں تھرمل پاور سٹیشن لگائے جائیں۔ ہمیں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنا ہوگا تاکہ بجلی کی کمی کے باعث ملکی صنعت جس نقصان سے دوچار ہے اس سے بچا جا سکے۔

عالمی سطح پر ایک ذریعہ جسے بجلی کی پیداوار میں اہمیت حاصل ہو رہی ہے، وہ ہے ہوا۔پاکستان کے ساحلی علاقوں میں مسلسل ہوا چلتی رہتی ہے یہ پٹی ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبی ہے اس میں سندھ اور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں۔سندھ کے ڈھائی سو کلومیٹر علاقے میں فی کلومیٹر100-150 اور بلوچستان کے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کے علاقے میں فی کلومیٹر آبادی 10-50 افراد پر مشتمل ہے۔اِن علاقوں میں آبادی کچھ اس طرح بکھری ہوئی ہے کہ یہاں تک بجلی کے مرکزی نظام سے بجلی پہنچانا نہ صرف مہنگا بلکہ انتہائی مشکل کام بھی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام اب بھی آج کی دنیا سے صدیوں پیچھے ہیں۔اِن علاقوں کی گھریلو بجلی کی ضروریات کا تخمینہ تقریباً 250KW ہے جو کہ یہاں مسلسل چلنے والی ہوا سے بخوبی پوری کی جا سکتی ہے۔اس علاقے کے اپنے ذرائع سے ہی انہیں بجلی فراہم کرکے انکی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔

شمسی توانائی اگرچہ مہنگا طریقہ ہے تاہم اسے بھی بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک بار خرچے کے بعد یہ توانائی آپ مفت اور بے اندازہ حاصل کر سکتے ہیں۔راولپنڈی کا رومی پارک شمسی توانائی کی ایک مثال ہے دوسری مثال حال ہی میں پاک فوج کا سوات میں تقریباً ایک ہزار گھروں سے زیادہ کو شمسی توانائی سے روشن کرنا اور والی بال اور فٹ بال گراؤنڈ میں بجلی مہیا کرنا ہے اسی طرح سیاچین میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال بھی شمسی توانائی سے کام کر رہا ہے لیکن ضرورت اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ہے۔

یہ تو وہ ذرائع تھے جن کے ذریعے ہم بجلی کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ ہمیں بجلی کے استعمال میں کفایت کی عادت بھی ڈالنی ہوگی۔گھڑی کو آگے پیچھے کرنے کا تجربہ بھی ہم کرچکے ہیں اور یہ کچھ زیادہ کامیاب نہ تھا بازار سرشام بند کرنے کے حکم نامے بھی کئی بار جاری ہوئے لیکن عمل کہیں نظر نہ آیا۔بات یہ ہے کہ کاروبار جلد بند کرنے سے کاروباری سرگرمیوں کو نقصان زیادہ پہنچتا ہے بجلی کی بچت کم ہوتی ہے کیونکہ شدید گرمیوں میں لوگ شام کو ہی بازار جا سکتے ہیں ریسٹورنٹ وغیرہ شام کو ہی چلتے ہیں یعنی زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ دکانوں، مارکیٹوں اور ریسٹورنٹس میں ایک ہی رو میں لگے ہوئے بے شمار بلب بند کروا دیئے جائیں اور دکان کے سائز کے مطابق کم سے کم بلب لگانے کی اجازت ہو۔اگرچہ بجلی کا کمرشل استعمال کل استعمال کا 7.2 فیصد ہے لیکن اس وقت ہمیں کم سے کم بجلی کی بھی ضرورت ہے تاکہ صنعتی اور ترقیاتی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔سٹریٹ لائٹس ترقی کی نشانی ہے لیکن اگر اِنہیں بھی ضرورت کے مطابق کر دیا جائے تو اِن پر خرچ ہونے والی 0.5 فیصد بجلی میں مزید بچت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح رات کی تقریبات، عشائیوں وغیرہ میں روشنیوں کا جو سیلاب نظر آتا ہے اسے کنٹرول کیا جائے۔ایئرکنڈیشن نہ چلانے کا فیصلہ قابل تحسین ہے کہ ایک تو بجلی کی بچت ہوگی دوسرا ماحول میںFC Cگیسوں کا اخراج کم ہوگا تا ہم اس فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف احکامات اور اعلانات سے بات نہیں بنتی اس کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر حکام کو مثال بننا پڑے گا۔

بجلی چوری ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر قابو پاکر شاید ہم بجلی کی بچت کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کمی بھی لاسکیں۔شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں وسیع پیمانے پر بجلی چوری کی جاتی ہے اور بہت معمولی رقم کے عوض میٹر ریڈرز اس چوری کو ’’نظر انداز‘‘ کردیتے ہیں اور بہت ہی معمولی بل سے ایک ہی گھر میں تین چار ایئرکنڈیشنر چلتے رہتے ہیں جس کا خمیازہ ’’ایماندار‘‘ صارفین کو بہت بڑے بل کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

بجلی کے لئے منصوبے لگانے کے لیے اگر پرائیوٹ سیکٹر کی مدد ضروری ہی ہے تو پاکستانی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جائے اور خاص کر ان لوگوں کو جن کی شہرت اچھی ہے اگر ہم نے اپنی تمام صنعت غیر ملکیوں کے حوالے کردی تو کیا ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی دولت اور سرمایے میں اضافے کی بجائے ہماری ترقی کے لیے کام کریں گے۔کراچی الیکٹرسٹی سپلائی کارپوریشن (KESC) کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ غیر ملکی کمپنی نے اس کے ساتھ کیا کیا اور کراچی کو اپنی تاریخ کے بجلی کے بدترین بحران سے گزرنا پڑا اور پڑ رہا ہے۔ہمیںاپنی تجارت بھی خود کرنی ہوگی اور وسائل اور مسائل کے مطابق تحقیق بھی خود کرنی ہوگی کہ ہم اپنے ذرائع میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں اور ہر شخص کو اپنا حصہ اس طرح اور اس سوچ کے ساتھ ڈالنا ہے کہ اِس یا کسی بھی قومی مشن میں صرف اس نے حصہ نہ ڈالا تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا گناہ اس کے سر ہوگا پھر نہ تو کوئی قوم اور نہ ہی کوئی شخص ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552463 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.