اگلا تہوار

محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب ,
وقت ہمیشہ اپنی مخصوص رفتار سے ہی چلتا ہے اور وہ کبھی رکتا نہیں ہے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب رمضان المبارک کے مہینے کی آمد آمد تھی اور چاند نظر آجانے کی صورت میں روزاداروں کے چہروں پر خوشیوں کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے مساجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی اور ہر طرف ایک دلکش منظر دکھائی دیتا تھا لیکن اس ظالم وقت نے ہم سے یہ رونقیں بھی چھین لی اور تیزی سے گزرتے ہوئے ان لمحات کو ہماری ماضی کا حصہ بنا کر چلاگیا اب اس وقت ہم لوگ عید کا تہوار اپنی پوری عقیدت واحترام کے ساتھ منانے میں مصروف ہیں لیکن یہ ظالم وقت ہم سے عید کی یہ خوشیاں بھی تیزی سے لیکر چلا جائے گا اور پہر اس عید پر گزارا ہوا ہر پل ہر لمحہ ہمارے لئیے یادگار بن جائے گا .

لیکن اس کے بعد ہمارے یہاں سب سے بڑے تہوار کی آمد کا شور شروع ہوجائے گا جس کا عوام کو کم اور سیاستدانوں کو زیادہ انتظار ہے اور وہ ہے الیکشن کا تہوار آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہاں لفظ تہوار کیوں استعمال کیا تو میں اس ملک کو اپنی زندگی کے کم وبیش 50 سے زیادہ سال دے چکا ہوں اور عمر کے ان پچاس سالوں میں کئی الیکشن اور کئی سلیکشن ہوتے دیکھے اس لئیے میرے نزدیک ہمارے ملک میں الیکشن کا ہونا کسی تہوار سے کم نہیں کیوں کہ جو شخص الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے اس گھر میں ایسا محسوس ہوتا ہے جسے کوئی تہوار ہے اور تہوار بھی ایسا جس میں مقابلہ ہو ہار اور جیت کا سلسلہ ہو اور اسی شوروغل میں کھڑا ہونے والا شخص اپنے گھر میں اپنے عزیزواقارب کے درمیاں اپنے دوستوں کے ہمرہ اور اپنے کارکنان کے ہمرہ اپنی شکست یا اپنی جیت کی جستجو میں پورا دن ایک عجیب سی بے چینی میں گزارتا ہے اگر اسے کامیابی ملتی ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے جیسے اسے کوئی قیمتی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو ( ویسے یہاں کی سیٹ ملنا کسی خزانے سے کم نہیں) اور اگر وہ ناکام ہوجائے تو دھاندلی کا واویلا شروع کردیتا ہے اگر اس کی جماعت کو واضح اکثریت مل جائے تو وہ حکومت میں آکر اپنے سارے خواب پورے کرنے اپنے گھروالوں کے خواب پورے کرنے اور اپنے یاردوستوں اور عزیزواقارب کو نوازنے میں لگ جاتا ہے اور اگر کامیابی نہ ملے اور اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے تو حکومت کے ہر اقدام پر تنقید کرنا اور اس کے خلاف سیاسی پروپگینڈہ کرنا اس کا معمول ہوجاتا ہے اپنی زندگی میں ہونے والے تمام الیکشن میں حکومت سنبھالنے والوں اور اپوزیشن میں بیٹھنے والوں کا یہ ہی حال دیکھا ہے اس ملک کی سیاست کا اور اس ملک کے اداروں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی ایماندار شخص اس ملک کی سیاست میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کسی بھی ادارے میں اگر کوئی شخص اپنی ایمانداری دکھاکر اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے یا پہر اوپر پہنچادیا جاتا ہے تا کہ ان کرپٹ اور یہودیوں کے غلاموں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور ان کا شیطانی مقصد پورا ہوتا رہے-

اسی لئیے اب دن بہ دن باشعور اور سمجھدار عوام کی الیکشن جیسے تہوار سے دلچسپی ختم سی ہوتی جارہی ہے اور الیکشن میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ کم سے کم ہوتا جارہا ہے .

اور یہ ٹرن آؤٹ کم کیوں نہ ہو جب اس ملک میں صرف اور صرف کھوکھلے نعرے لگانے والے لوگ اپنے کئے ہوئے وعدے پر عمل نہ کرنے والے لوگ اور مسلسل حکومت میں رہنے کے باوجود اپنے ملک کے لئیے اپنے صوبے کے لئیے اپنے شہر کے لئیے اور اپنے اپنے حلقے کے لئیے کچھ نہ کرسکنے والے لوگ اقتدار میں آجائیں تو پہر اس ملک کا وہ ہی حال ہوگا جو آج ہمارے ملک پاکستان کا ہے ستر سال گزجانے کے باوجود آج بھی ہم پانی اور بجلی جیسی نعمتوں کی کمی کا شکار ہیں کیا الیکشن اور کیا اس میں سلیکٹ ہوکر آنے والے لوگ عوام کی اکثیریت اب اس لفظ سے بیزار نظر آتی ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد الیکشن والے دن یا تو اپنے کام کاج میں مصروف نظر آتی ہے یا پہر گھروں میں بیٹھ کر آرام کررہے ہوتے ہیں اور اس معاملے میں میرا ذاتی خیال یہ کہ ووٹ ایک قومی امانت ہے اس لئیے اگر کرپٹ, بے ایمان, وعدہ خلاف, غددار اور ملک سے محبت نہ کرنے والے لوگوں کو منتخب کرکے ہم انہیں اقتدار میں لاتے ہیں تو شرعی طور پر تو گنہگار ہم بھی ہوں گے لیکن دنیاوی اعتبار سے اس کا خمیازہ زندگی میں بھگتنا بھی پڑے گا اس لئیے اگر آپ کو ایسا کوئی شخص یا کوئی بھی جماعت اپنے معیار پر پورا اترتی نظر نہیں آتی تو اپنی امانت اپنے پاس رکھیں کم از کم آپ گنہگار ہونے سے تو بچ جائیں گے اور بروز محشر خالق کائنات کو بھی جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا باقی رہی الیکشن میں جیت کر اپنا اقتدار سنبھالنے والی جماعت کی بات تو جیسے ہمارے اعمال ہوں گے ہم پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دئیے جائیں گےاس لئیے ہمیں اپنا قبلہ بھی درست کرنا ہوگا اور جب بھی اس ملک کی قوم نے یعنی ہم نے اپنا قبلہ درست کرلیا تو سمجھ لیجئے کہ اللہ رب العزت ہمیں نیک اور صالح حکمران عطا فرمادے گا اور جب تک ہمارے اعمال ایسے ہی رہیں گے تو ہم پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط ہوتے رہیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں 2018 کے ہونے والے الیکشن کا اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ہم پر کیسے حکمران مسلط ہوتے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہی اس ملک اور اس کی عوام کا حامی وناصر ہو (آمین بجاالنبی امین).
 

محمد یوسف راهی
About the Author: محمد یوسف راهی Read More Articles by محمد یوسف راهی: 167 Articles with 134640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.