اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کا ادارہ یو نائیٹڈ
نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز (UNHCR) اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں
دنیا کے سو سے زائد مما لک میں 20 جون کا دن پناہ گزینوں کے عالمی دن کے
طور پر مناتی ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں مفلوک
الحال پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو جنگ ، نقص امن یا مختلف وجوہات
کی بناہ پر اپنا گھر بار چھوڑ کردوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں، اور لوگوں میں سوچ بیدار کی جاتی ہے کہ وہ ان پناہ
گزین بھائیوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ عالمی سطح پر جنگوں،
بدامنی ، نسلی تعصب،مذہبی کشیدگی ،سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث آج
بھی کروڑ وں افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے افراد انتہائی غربت کے علاوہ بنیادی حقوق
سے بھی محروم رہتے ہیں۔ افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر
پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعدا د میں افغان بطور مہاجر پناہ گزین ہیں۔
پاکستان اس وقت جہاں خود معاشی و انرجی بحران سمیت مختلف بحرانوں کا شکار
ہے ، ایسے میں پناہ گزینوں کی یہ بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر
مذید مسائل کا باعث بن رہی ہے، جبکہ افغانستان کی صورت حال اب بہتری کی
جانب گامزن ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک
بھیجنے کے لئے اقدامات کررہی ہے، واپسی پر ان خاندانوں کو معقول وظیفہ بھی
دیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود لاکھوں افغان پناہ گزین واپس جانے کے لئے
تیار نہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ افغان پناہ گزینوں کو واپسی پر قائل
کرنے کے لئے مذید اقدامات کرے، تاکہ ملک پر پناہ گزینوں کا اضافی بوجھ ہلکا
ہوسکے۔ پاکستان میں پناہ گزینوں کی کل تعداد قریباً 14 لاکھ بتائی جاتی ہے
جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے، اس کے علاوہ 6 لاکھ سے زائدافغانی غیر
قانونی طور پر ملک کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔
دنیا بھر میں جاری پرتشدد واقعات ، جنگوں اور ملکوں پر ناجائز تسلط کے باعث
بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ان
کی تعداد جنگ عظیم دوم کے دوران بے گھر افراد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اقوام
متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ سال 2017ء میں امیر ملکوں نے دنیا بھر میں
64 فی صد تارکین وطن کا بوجھ اٹھایا، یہ تعداد تقریباً 16کروڑ 50 لاکھ سے
زائد ہے۔ مہاجرین کی اس تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ شام میں جاری خانہ جنگی
ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد ر
50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یوں ترکی مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا
ملک بن چکا ہے جبکہ شام کے مظلوم شہری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر
اور پناہ گزین ہیں، میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان نقل
مکانی پر مجبور ہیں۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان اپنا وطن
چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں
رہنے پر مجبور ہیں۔ فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان
ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود
ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزارافراد،
سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار
رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے ادارے(UNHCR )کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی یہ تعداد
انتہائی پریشان کن ہے، اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انفرادی تکالیف کی عکاسی
ہوتی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری کشیدگی کو روکنے اور
مسائل کے بروقت حل میں کس قدر ناکام رہی ہے۔ حالیہ 76 لاکھ پناہ گزینوں کا
مطلب ہے کہ ہر پلک جھپکنے پر ایک اور شخص پناہ گزین بن رہا ہے۔ اپنا گھر،
اپنی سرزمین چھوڑنے کا دکھ ایک پناہ گزین ہی جان سکتا ہے اس پر غیر ملک میں
پناہ گزین کی حیثیت سے کسمپرسی کی زندگی بسر کرنا انسانیت کی تضحیک کے
مترادف ہے، بلاشبہ میزبان ملک پناہ گزینوں کو جگہ دے کر انسانیت کا حق ادا
کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ پناہ گزینوں کو کبھی بھی
برابر کے شہری حقوق میسر نہیں ہو پاتے ۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن کا پیغام
ہے کہ اقوام عالم کو چاہیے وہ اپنے کردار کو اس قدر مضبوط بنائے کہ ملکوں
اور قوموں کے درمیان تنازعات، شورشوں اور نقص امن کی صورتحال پر اپنا موثر
کردار ادا کرسکے۔ تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہتر
ہواور کسی بھی شخص کو مجبور ہوکر کسی دوسرے ملک میں پناہ گزینی کی زندگی
بسر نہ کرنا پڑے۔جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ کا
کردار محض قراردادیں پاس کرنے سے زیادہ نہیں۔ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب
دیکھنے والے ممالک اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سازشوں، ظلم و جبر اور
ناجائز تسلط کے لئے سرگرم عمل ہیں اور روزبروز بڑھتی یہ صورتحال کروڑوں
لوگوں کی پناہ گزینی سمیت بہت سے مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ |