مہاجرین کا عالمی دن

 20جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مہاجرین کا عالمی دن منایا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 55/76کے تحت اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔مختلف قومیں بھی مہاجرین کے دن کو اپنے طور پر مناتی ہیں۔ افریقن ریفوجی ڈے بھی منایا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک چرچ بھی مائیگرنٹس اور ریفوجی ڈے مناتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ریفوجیز کے لئے ایک کمیشن بھی قائم کر رکھا ہے۔ اگر چہ ریفوجیز یا پناہ گزینوں کا دن الگ طور پر منایا جاتا ہے تاہم مائیگرنٹس بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ اعزاز ہے کہ ان کا سنہ ہجری ہی اسلامی سال کا آغاز ہے۔ ہجرت کو اتنی اہمیت اسلام سے زیادہ اور کوئی دے بھی نہیں سکتا ہے۔ آج سے 1434سال قبل رسول رحمت، ہمارے پاک نبی ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے اپنی امت کے لئے سنت قائم کی۔ جس پر قیامت تک مسلمان عمل کریں گے۔ لوگ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے، قحط سالی ، وبائی امراض ، بہتر معاش، جنگوں ، یا ایسے دیگر اسباب سے ہجرت کرتے ہیں لیکن ہمارے پیغمبر ﷺ نے صرف اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے خود بھی ہجرت کی اور اپنے صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی اجازت دی۔ آپﷺمکے سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ۔ لیکن وہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر ہر گز نہیں بیٹھ گئے۔ بلکہ جہاد میں مصروف رہے۔ اور پھر فاتح بن کر مدینہ میں داخل ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت68ملین یا سات کروڑ لوگمہاجر یا آئی ڈی پیز ہیں۔جنگیں، تنازعات اور مظالم اس کی وجہ ہیں۔سب سے زیادہ مہاجرین شام(63لاکھ) ، افغانستان(24لاکھ)، جنوبی سوڈان(24لاکھ)،میانمار یا برما(12لاکھ)، صومالیہ(10لاکھ)، سوڈان(7لاکھ)، کانگو(سوا6لاکھ)، ایریٹیریا(5لاکھ)، برونڈی(سوا 4لاکھ) کے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2017میں ہر دو سیکنڈز کے بعد ایک فرد مہاجر ہوا۔

قیام پاکستان کے موقع پر دنیا کی بڑی نقل مکانی ہوئی۔ تقریباٍ ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان کو ایک وقت میں 30لاکھ سے بھی زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرنا پڑی۔ کشمیریوں کی بھی ہجرت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے ۔1932,1948, 1965, 1971میں ڈوگروں اور بھارتی فورسز کے مظالم سے بڑی تعداد میں کشمیریوں نے ہجرت کی۔ ہزاروں کشمیری گزشتہ 30سال اور لاکھوں 70سال سے ہجرت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ بھارتی ریاستی دہشتگردی اورمظالم ان کی ہجرت کا باعثبنے۔لیکن اقوام متحدہ نے کشمیری مہاجرین کو ریفوجیزیا آئی ڈی پیز کا سٹیٹس نہیں دیا۔ جو کہ کشمیر کاز کے لئیمثبت پیش رفت نہیں ہے۔ 1990کے کشمیری مہاجرین آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔ لیکن زیادہ تعداد آزاد کشمیر میں ہی موجود رہی۔ ان میں سے چند ہزار پہلے نیلم روڈپر کامسر کے چار کیمپوں میں مقیم تھے۔ انھوں نے یہاں بچوں کو موسمی سختیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک یا دو کمرے کے مکانات تعمیر کر لئے تھے۔ حکومت پاکستان اور مخیر حضرات نے ہر طرح سے تعاون کیا۔005 2ء کے زلزلہ میں یہ علاقہ زلزلہ کے مر کز سے بالکل قریب تھا۔ اس لئے یہاں زلزلہ کی شدت بھی بہت زیادہ تھی۔ یہاں تعمیرات ایسے زمین بوس ہو کر لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو گئیں کہ یہ یقین کرنا بھی مشکل تھا کہ یہاں کبھی کوئی انسانی بستی موجود تھی۔ ہزاروں لوگ قریب ہی چہلہ میں منتقل ہوئے۔ مقامی آبادی نے تعاون کیا اور اپنی زمینیں کرائے پر دے دیں۔ جگہ جگہ خیمے لگ گئے۔ پوارا مظفر آباد خیموں کا شہر بن گیا۔ پاکستان کے عوام نے زبردست اور تاریخی ایثار و جذبے کاعملی مظاہرہ کیا۔ بے آسرا لوگوں کی ہر طرح سے دلجوئی کی۔ متاثرین کا دکھ محسوس کیا۔ مخیر حضرات نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔معصوم بچوں نے اپنا جیب خرچ بھی نچھاور کر دیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہم آہنگی اور یک جہتی کی مثالیں قائمہو رہی تھیں۔آزاد کشمیر میں مہاجرین سے متعلق محکمہ بحالیات و آباد کاری موجود ہے۔ توقع ہے حکومت مہاجرین کی بحالی اور مہاجرین کیمپوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، گزارہ الاؤنس میں مزید اضافے، شناختی کارڈز کے اجراء، مہاجر کارڈ کو ہی ڈومیسائل قرار دینے جیسے فوری اقدامات کرے گی۔مایوسی کے عالم میں لوگ واپس جا رہے تھے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں نے کشمیریوں کی واپسی کی اطلاعات پر فوری نوٹس لیتے ہوئے مثبت ردعمل ظاہر کیا اور اہم اقدامات کلا اعلان کر دیا ۔ مہاجرین نے ہندوستان کی سرینڈر پالیسی کو مسترد کردیا اور تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔وہ کسی نہ کسی طور پر تحریک آزادی سے وابستہ ہیں۔ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس کی ترقی اور سلامتی کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

آج مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقامی پارٹی پی ڈی پی سے اتحاد ختم کیا اور بھارت نے ایک بار پھر کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا ہے۔ تحریک عروج پر ہے۔ نئی نسل نئے ولولے سے اور دلیری سے بھارتی فورسز کے سامنے سینہ تانے کھڑی ہے۔ آزاد کشمیر میں اقتدار اور کرسی کے لئے آپس میں لڑنے اور قوم کو تقسیم کرنے کی ڈرامہ بازی بندہونی چاہیئے،اتحاد اور یکسوئی کے ساتھ آزادی کی جدوجہدکو تمام محازوں پر تیز کیا جائے۔ آگ سے ایک کمرے کے بجائے پورے گھر کو بچانے کی کوشش سے بیس کیمپ کا حقیقی کردار بحال ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں نے سرینڈر کبھی نہیں کیا۔ کسی نہ کسی صورت میں تحریک آزادی جاری رکھی۔گزشتہ برسوں میں نوجوانوں نے ایک نئے طرز کا انتفادہ شروع کیا۔ نہتے سکولی بچوں اور بچیوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں۔یہ نئی نسل شہداء کے ورثا کی نسل ہے۔جو کسی کمپرومائز پر تیار نہیں۔پاکستان پر بیرونی و اندرونی دباؤ ہے۔ لیکن کشمیر کی قیمت پراس دباؤ کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہیئے۔ اس بارے میں کور کمانڈرز، فارمیشن کمانڈرز ، پارلیمنٹ، وزارت خارجہ کو بھی بحث کرانا چاہیئے۔ اے پی سی میں اس کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے۔ پاکستان کی سلامتی اور تکمیل کا دارو مدار کشمیر کی آزادی پر بھی ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی نشستوں میں 12سیٹیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں بسنے والے جموں و کشمیر کے مہاجرین کے لئے مختص ہیں ۔آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخاب کے ساتھ ہی ان 12سیٹوں پر بھی انتخاب ہوتا ہے۔65 ء 1947 ء کے کشمیری مہاجرین راولپنڈی،لاہور،کراچی،پشاورسمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں قیام پذیر ہیں۔ انہیں بھی تحریک آزادی میں بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔1990کے مہاجرین کے لئے بھی آزاد کشمیر اسمبلی میں کم از کمچارنشستیں مختص کی جائیں جبکہ مہاجرین کیمپوں میں سہولیات، جنھیں مہاجرین کیمپوں میں رہائشی سہولیات دستیاب نہیں ان کے لئے مظفر آباد یا راولپنڈی اسلام آباد میں رہائشی بستی قائم کی جائے۔ کوٹہ پر سختی سے عمل درآمدیقینی بنایا جائے۔1947سے آج تک کے تمام کشمیری مہاجرین کو اقوام متحدہ کے ادارے UNHCRمیں رجسٹرڈ کرایا جائے۔یہی مہاجرین کے عالمی دن کے موقع پر کشمیری مہاجرین کا مطالبہ اور پیغام ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555492 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More