ایک چیز جو ہمارے ہاں غلط ہے وہ ہے سوال کو دبانا- افسوس
ہے کہ ہمارے معاشرے میں سوال کو دبا دیا جاتا ہے- کوئی اگر اللہ پہ سوال
اٹھائے، کوئی اگر انبیاء پہ سوال اٹھائے، کوئی اگر معاد کی حقیقت کے متعلق
علم و عقل کی رو سے کچھ استفسارات کرے تو بجائے ان کو دلیل و برہان سے جواب
دینے کے فتوے داغے جاتے ہیں-
مسلمانوں کی علمی تاریخ بھی بڑی عجیب ہے- جس قدر فخر کا سامان ہے اس میں،
اسی قدر ندامت کے پہلو-
افسوس یہ ہے کہ ہمارے لوگ طالب علم کی جگہ سے اٹھ کر استاد کی نشست پہ بیٹھ
گئے ہیں- جو عقائد متوارث منتقل ہوئے ہیں کبھی ان کو علم و عقل کی رو سے
پرکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے-
میں مانتا ہوں کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی تکلیف دہ چیز ہو جیسی کہ اپنے
عقائد سے دستبردار ہونا- میرے ساتھ ایسا بارہا ہوچکا ہے کہ جس چیز کو میں
دل و جان سے مانتا تھا اور دوسرے دن کوئی دلیل اس کے خلاف آجاتی تھی تو وہ
لمحہ میرے لئے اتنا پریشان کن ہوتا تھا کہ شاید ہی کوئی ایسا موقعہ ہو- میں
بہیترے کوشش کرتا تھا کہ کسی طور پر اس سوال کا جواب ملے- میں ڈھونڈتا تھا
کہ کسی طرح کوئی ادنئ سے ادنئ دلیل مجھے اپنے عقیدے کی حق میں ملے جس سے
میں اس سوال کو دور پھینک دوں لیکن یہ کام ناممکن کی حد تک مشکل ہوتا ہے-
لیکن اگر ہمیں علم کی دنیا میں آگے پڑھنا ہے تو ابن رشد کو بولنے کی اجازت
دینی ہوگی- اگر ہمیں علم کی دنیا میں ترقی کرنی ہے تو حسین بن منصور کو
سولی پہ نہیں بلکہ دلائل کے میدان میں لانا چاہیے-
دلائل کبھی استبدادی ذرائع سے بند نہیں کیے جا سکتے- جتنا ان کے خلاف
پرتشدد طریقہ اپنایا جائے گا اتنا وہ کھڑے ہوں گا-
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ اخلتلاف بھی اللہ تعالئ کی کتنی بڑی نعمت ہے-
ذرا تصور کریں کہ اگر ہماری تاریخ میں ایک مخصوص طرز فکر رائج ہوتی اور
کوئی اختلاف نہ ہوتا تو بے رنگ ہوتی ہماری دنیا-
جس طرح اگر ہر جگہ سفید رنگ ہوتا اور کوئی رنگ نہ ہوتا تو ہم اکتا جاتے-
اسی طرح اگر علم کی دنیا میں ایک مخصوص مکتبہءفکر ہوتا اور کوئی طرز فکر نہ
ہوتا تو علم کی نشوونما کیوںکر ہوتی؟
لیکن افسوس کہ ہمارا رویہ علم کی جانب غیرعالمانہ ہے-
میرے جلیل القدر استاذ جاوید احمد غامدی کہتے ہیں؛ تنقید کی نگاہ ہونی
چاہیے تنقیص کہ نہیں-
افسوس کے ساتھ ہمارا یہ ہی معاملہ ہے کہ ہم مخالف کی تنقید نہیں کرتے تنقیص
کرتے ہیں- اگر تنقید کی اجازت دی جاتی تو علم کا یہ چشمہ ہر ہنوز جاری
رہتا-
|