دن با دن ہمارے معاشرے کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا
رہی ہے ملک کی اس بد رنگ تصویر کو دیکھ کہ اوب گئی ہوں میں اس لیے نیوز سے
پرہیز کر رہی ہوں ، پر کیا کیا جائے ملک تو اپنا ہے نا، یہ لوگ بھی اپنے
ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی نظر ڈال ہی لیتی ہوں اور سخت مایوسی کا سامنا کرنا
پڑتا ہے ملک میں ہماری قومیت میں اب کچھ بچا ہی نہیں جو قابل تعریف ہو جدھر
نظر ڈالو بس بے حسی کے ہی ڈیرے ہیں کہیں سیاست کسی جگہ مذہب اور کسی جگہ
رواج یہ جھوٹ کی بیڑیاں جو ہمارے دماغوں کا فتور ہیں کب تک ہماری خوبصورت
زندگی کے پیروں کی زنجیر بنی رہیں گی ایک طرف ہیڈلائن پہ عید کی خوشیاں
دیکھائی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی ٹی وی سکرین پہ چل رہا ہے کہ شوہر نے بیوی
کا بے رحمی سے قتل کر دیا اور پھر خود بھی خود کشی کر لی انتہائی دلبرداشتہ
ہو کے چینل چینج کیا تو وہاں بھی ممتاز نامی دماغی مریض عورت نے شوہر کو
بھی مار ڈالا خود بھی مر گئی یا اﷲ رحم ۔آج میں عورت کے اس وجود پہ بات کر
رہی ہوں جس کو ایک جسم ہی سمجھ لیا ہے ہم نے، ہم یہ بھول بیٹھے ہیں اس میں
روح بھی ہے۔عورتوں پہ ہوتا تشدد بڑھتا ہی چلا جا رہا وہ اپنے کسی بھی رنگ و
روپ میں محفوظ نہیں ہے آخر کیوں؟کبھی ہیڈ لائن آ رہی ہوتی ہے کہ آج ایک نشے
کی لت میں مبتلا شوہر نے بیوی کو جلا کر مار دیا کہیں عورت نے سسرال والوں
سے تنگ آکر خودکشی کر لی اور کہیں لڑکیوں کی پڑھائی پہ روک ٹوک کہیں بچیوں
کے ساتھ زیادتی آخر کب تک آدم کے بیٹے حوا کی بیٹیوں کو نیلام کرتے رہیں گے
کب تک وہ کسی بھی رشتے کا حق حاصل ہونے پہ اسے اپنی جاگیر سمجھتے رہیں گے
آخر کب تک؟
کسی بھی ذات سے کسی بھی ماحول سے تعلق رکھنے والی ہر بچی ہر خاتون کو اپنی
زندگی جینے کا پورا پورا حق ہے ماں باپ خواب نہیں دیکھنے دیتے اڑان نہیں
بھرنے دیتے کہ اچھا رشتہ نہیں ملے گا اتنے تنگ نظر لوگ ہیں ہم کیوں آخر
کیوں؟شادی ہوتے ہی رسموں کی زنجیر کو خوبصورت زیوروں میں لپیٹ کے عورت کے
گلے کا طوق بنا دیا جاتا ہے حد ہے ۔۔اور اسی حد میں اسکو باندھ دیا جاتا ہے
وہ خواب نہیں دیکھ سکتی وہ کسی کی بیوی ہے وہ کچھ بننے کا سوچ نہیں سکتی
کیوں کے وہ کسی کی بہو ہے یہ بھی کافی نہیں تھا اب وہ سانس بھی نہیں لے
سکتی کیوں کے وہ ایک عورت ہے۔وہ سارے رشتے سنبھالے ہر فرد کی چھوٹی بڑی
خواہشات کا بخوبی خیال رکھے اور اس سے کوئی غلطی سے بھی غلطی ہو جائے تو
طعنوں کے وار الگ اور ہاتھوں کہ وار الگ سہے کیا یہ زیادتی نہیں خدا کا خوف
کیوں نہیں ہے ہمیں؟اپنا بچپن اپنی خوشیاں اپنا لڑکپن ضد چھوڑ کر صنف نازک
آپکی زندگی میں کئی نئے خوابوں کے ساتھ قدم رکھتی ہے کتنا اعتبار کرتی ہے
کیا اس لیے کے اسے جانواروں کی طرح باندھ کے رکھا جائے وہ اپنے سارے اصول
طریقے چھوڑ کر آپ کے طور طریقے اپناتی ہے اور مہذ چند غلطیوں کی بنا پر
اسکی قربانی کو اتنی بری طرح سے روند دیا جاتا ہے۔ چلیں آپ بتائیں آپ اپنے
طریقے اصول رد کر کے اسکے مائیکے میں پانچ دن بھی گزار سکتے ہیں؟نہیں نا تو
اسکی یہ قربانی اسطرح رائیگاں کیوں کرتے ہو جھوٹی اور کھوکھلی غیرت کے لیے
غیرت صرف عورت ذات کے لیے ہی کیوں کبھی بیٹا بھی قتل کیا ہے نہیں نا وہ مرد
جو ہے۔حقیقت میں ہر چیز کو بڑھاوا ہم نے خود دیا ہے۔ پڑھے لکھے جاہل لوگ
ہیں ہم عورت ذات پہ لطیفے پٹھانوں پہ لطیفے بنا بنا کے خوش ہوتے ہیں اور
فخر محسوس کرتے ہیں ہم جو اپنے ہی ھاتھوں سے اپنی ثقافت تہذیب کا مذاق بنا
کے خود کو کامیاب سمجھ لیتے ہیں۔
شریعت یا مذہب میں کہاں لکھا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی پڑھ نہیں سکتی کسی
عہدے پہ فائض نہیں ہو سکتی کچھ بن نہیں سکتی کہاں لکھا ہے کہ شادی کے بعد
اسے اپنی زندگی جینے کا حق نہیں ارے بھائی شادی دو لوگوں کے نہیں دو دلوں
کے روحوں کے میل کا نام ہے میاں بیوی معاشرے کی بنیاد ہیں۔عورت کبھی مرد کے
مقابل نہیں ہو سکتی نا ہی مرد عورت کے یہ جانتے ہوئے بھی ہم شادی جیسے
قیمتی خوبصورت بندھن کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اصل میں ہر انسان کے جذباتوں
میں سوچوں میں فرق ہے کوئی کسی کی جگہ لے کے ویسا سوچ نہیں سکتا ہم غلط
نہیں ہیں بس ہمارے نظریے ایک دوسرے سے الگ ہیں،چاہے وہ شادی کی زندگی میں
ہوں سیاسی ہوں یا معاشی ذرا سوچیں آپ کو بھی تو ایک عورت نے پال پوس کے بڑا
کیا ہے آپکی بہترین پرورش کی ہے نرمی سے بانہوں میں سمیٹا ہے ۔ہر بچے کی
پہلی درسگاہ اسکی ماں کی گود ہے اگر وہی ماں بے سکون ہو گی حقیری میں ڈوبی
ہوئی ہو گی با عزت ہو کے بھی بے آبرو ہو گی تو کیسے ایک نسل کامیابی کی
تکمیل کو پہنچے گی؟اگر بات بگڑ گئی ہے تو بیٹھ کے بات کر کے سلجھائی جا
سکتی ہے ھاتھ اٹھانا ،گالی گلوچ کرنا، جان سے مار دینا یہ غیرت نہیں جہالت
ہے صرف جہالت۔
|