ہم لوگ بھی عجب ہیں اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب فلاں
شخص فوت ہو اور کب ہم اُس کی شان میں رب اللسان ہوں۔ہمار ا ضمیر اِس حد تک
گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے کہ زندہ انسان کو سراہا جانا ایسا لگتا ہے جیسے
اپنے گردے کسی کو عطیہ کر دئیے ہوں۔ ہماری قوم نے جس کو ہیرو کا تاج اُس کی
وفات کے بعد پہنانا ہوتا ہے اُس کے زندگی میں خوب اُس کی دھلائی کرتی ہے
اُس کی ذات میں بے شمار کیڑئے نکالے جاتے ہیں۔ حتیٰ کے اُس بے چارہ کو یہ
خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ اے کاش میں فلاں شعبے میں نمایاں کام نہ ہی کرتا اور
یوں اپنی ہی قوم کے ہاتھوں لعن طعن سے بچا ر رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری
سوسائٹی میں جس شخص نے بھی کوئی نمایاں کام کیا ہوتا ہے وہ اِس کارکردگی کے
بعد ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات تو اُس کی اکتاہٹ اِس حد تک پہنچ
جاتی ہے کہ اُسے یہ گمان رہتا ہے کہ جس معاشرے میں رہ رہا ہے وہ اجنبی
دُنیا ہے۔ یوں پہلے تو وہ صاحب اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کارنامہ ہائے انجام
دینے میں صرف کیے ہوتے ہیں اور بعد ازاں سراہے نہ جانے کے سبب زندگی کا باق
حصہ دل و دماغ پر بوجھ لیے گزارتے ہیں۔
ایک صاحب کے ساتھ کافی عرصہ تعلق میں رہا موصوف کمال کے انسان تھے نڈر بے
باک اور نیک۔ زندگی بھر اُن کے گرد وپیش کے لوگ اُن کو کہاکرتے کہ بابا
پاگل ہو گیا ہے لوگوں سے اُن صاحب کی سچائی ہضم نہیں ہوتی تھی۔اور پھر اُن
کی موت کے بعد تو جیسے اُن کے ناقدین کی دُنیا ہی بدل گی اُن کو نہ جانے
کیا کیا القابات عطا کر دئیے گئے۔ جس شخص کا مذاق اُڑایا جاتا تھا اور جسے
کہا جاتا تھا کہ یہ دماغی طور پر کھسکا ہوا بابا ہوا ہے۔ اب وہی لوگ اُس کی
یاد میں سیمینار کرواتے پھر رہے ہیں۔ اُس کی عظمتوں کے لیے میگزین چھپ رہے
ہیں۔ کیا منافقت ہے۔ اناؤں کی تجارت کا یہ کیا انداز ہے کہ انسان اتنا بے
قدر ہو چکا ہے کہ اُس کی تضحیک کی جار ہی ہے۔ پاکستانی سوسائٹی کا مزاج ہی
یہ بن چکا ہے کہ ہر کسی کو نیچا دیکھانا اور پھر اُس کی ذات میں وہ کیڑے
نکالنا کہ ابلیس بھی شرماے، کہ اِس طرح کی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے
حضرت انسان ۔ایک صاحب ہیں جو کہ اِس وقت ملک کے نامور شخصیت بنے بیٹھے ہیں۔
زمانہ طالب علمی میں پرچے آوٹ کروا کر پاس ہوے لیکن اب وہ خود کو کوئی
اوتار سمجھتے ہیں ۔ اِسی طرح ہمارے معاشرئے میں یہ ضرب المثل عام ہے کہ
غریب کی جوانی کی طرف کوئی نہیں دیکھتا یعنی نو لفٹ فار غریب۔یہ سار کچھ
بیان کرنے کا مقصد اتنا سا ہے کہ اِس معاشرئے میں دین کی اخلاقی اقدار کہاں
ہیں۔ دین کے نام پر مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں لیکن دین کی بنیادی اساس پر
عمل کرنا بہت دور کی بات ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جو حشر ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ ہوا کہ ٹی وی پر آکر
اُن سے کہلوایا گیا کہ میں نے بیرون ملک سے پیسے لیے۔ یہ حشر ہوا ہے ایک
عظیم سائنسدان کا ۔ جو کہ پاکستان کا محسن ہے ایسا کیوں کیا گیا کہ اِس طرح
پوری قوم کو کرب میں مبتلا نہیں کرد یا گیا کہ اورنوجوانوں کو یہ پیغام
نہیں گیا کہ خبردار وطن کی خیر خواہی سوچنے کی ضرورت نہیں جو وطن کی خیر
خواہی کا سوچتا ہے اُسے ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح عبرت کا نشان بنا دیا
جاتاہے۔بھٹو، ضیا کو کیا کیا نہیں قوم نے کہا۔ حالانکہ اِن دونوں کا کردار
تو ہے معاشرے کے لیے۔
معاشرہ جب زندہ لوگوں کو احترام نہیں دے سکتا تو گویا وہ اِن زندگی لوگوں
سے اکتسابِ فیض بھی نہیں کر پاتا۔زندگی بھر معاشرے کے لیے بہتری کا ساماں
مہیا کرنے والوں کے ساتھ زندگی میں اچھا برتاؤ نہ کرنے کے سبب اچھائی کرنے
کے رحجان میں کمی واقع ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو وطیرہ بن چکا ہے
کہ لوگ اگر کسی کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے بھی ہوں اور کرنا چاہتے بھی
ہوں تو نہیں کرتے کیونکہ اُن کے خیال میں کام کر دینے کی وجہ سے زیادہ جگ
ہنسائی مقدر بنے گی یوں کام نہ کرنے میں ہی وہ اپنی عافیت سمجھتے ہیں یا
اِس لیے کسی کی بھلائی نہیں کرتے کہ جس سے اِس شخص کا کام کروایا جائے گا
اُس شخص کا احسان مند رہنا پڑے گا۔
موجودہ دور میں یہ مشاہدہ عام ہے کہ چھوٹے موٹے کام کرنے سے بھی لوگ گریز
کرتے ہیں صر ف اِس لیے کہ ایسا کرنے سے اُنھیں بھی کسی کا کام کرنا پڑے گا
یا وہ احسان کیے گئے کام سے بڑا کام مجھے کہہ دے گا۔جب اِس طرح کی سوچ
معاشرے میں عام ہو جاے تو پھر سماجی فلاح و بہبود کا باب تو بند سمجھیں۔ جس
دین کے ہم پیرو کار ہیں وہاں تو اِس بات کی تائید ملتی ہے کہ تم سے ہر کوئی
دوسرے کی رعیت ہے اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سال کیا جاے گا۔ہمسائے کے
حقوق کے حوالے سے اتنی تاکید ہے کہ خالص رشتے داروں سے بھی زیادہ۔ اے کاش
ہم زندہ لوگوں سے بھی پیار کرنا سیکھ جائیں تاکہ وہ مرتے وقت سکون کی موت
کو سینے سے لگائیں۔ نیکی کے کام کرکے اُنھیں کوئی پچھتاوا نہ ہو۔
|