منشیات مافیا بھی دہشت گرد ہیں
(Abdul Jabbar Khan, Rajan Pur)
تمباکو نوشی، بیڑی، پان ، گٹکا ، شیشہ دراصل اس دلدل
میں غرق ہونے کا راستہ ہیں جس میں جانے کے بعد کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا،
اس موت کی وادی میں جانے کتنی ماؤں کے شیر جوان پتر اپنی جوانی تباہ کر چکے
ہیں، کئی گھر اجڑ چکے ہیں، اور کئی اجڑنے والے ہیں ، کسی علاقے محلے اور
شہر میں رہنے والا جوان جو سینہ چوڑا کر کے چلتا تھا آج گلیوں میں بھیک
مانگتا ہے ، گندگی سے کچرا جمع کرتا ہے ، جو کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا
چوری کرنے کا آج چوریاں کرتا ہے ، ماں رو رو کر آندھی ہوگئی ، باپ پریشانی
میں مریض بن گیا ، اور بہن کا سر سفید ہو گیا پر کوئی رشتہ نہ آیا ، وجہ
گھر کا وہ شیر جس سے سب کی امیدیں اور خوابوں کی تعبیریں وابستہ تھی وہ غلط
سوسائٹی میں آ کر منشیات کا عادی ہوگیا، آج اس سے شہر اور محلے کا بچہ بچہ
نفرت کرتا ہے ایک وقت تھا جب اسے سب ہیرو کہے کر پکارتے تھے ، اب وہ ہیرو
گھر کی تمام قیمتی اشیاء بیچ کر منشیات کے دھواں میں اڑا چکا ہے
اکثر منشیات کے عادی افراد کو ابتداء میں تمباکونوشی اور دیگر ایسی چیزوں
کا عادی بنایا جاتا ہے کہ وہ باآسانی منشیات کے زہر کو اپنے منہ سے لگا لیں،
نوجوانوں کو گھر سے باہر سکول و کالج میں دوستوں کی ایسی سوسائٹی مل جاتی
ہے جو اسے نشے کی لت لگا دیتی ہے ، اس کے علاوہ والدین کی طرف سے عدم توجہ
، گھریلو ناچاکی ، پیسے کی کمی یا زیادہ فراوانی ، تعلیم میں کمزوری ، یا
پھر محبت میں ناکامی کی وجہ سے نوجوان ذہنی سکون تلاش کرنے کے لیے ایسی
سوسائٹاں اور دوستوں کی کمپنیاں اپنا لیتے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی نشہ
آوار چیز سکون حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہو۔
منشیات کا زہر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور اس کو پھیلانے میں دنیا میں
منشیات فروشوں کا مضبوط نیٹ ورک قائم ہے ، جن میں خفیہ ایجنسیوں سے لے کر
سیاست دان ، بزنس ٹیکون ، اور بڑے عہدے رکھنے والے اہلکار ، ٹرانسپوٹرز ،
آئرلائن کا عملہ ، شپپنگ کمپنیاں شامل ہیں یہ لوگ اتنے مضبوط ہیں اور منظم
ہیں کہ کسی ملک میں بھی منشیات فروخت کرسکتے ہیں، جہاں اس کی سزا موت ہی
کیوں نہ ہو۔ منشیات کے دھندے کی جڑیں دہشت گردی سے نکلتی ہوئی بڑے سفید پوش
بابو لوگ تک آتی ہیں پر ان کی گردنوں تک ہاتھ ڈالنا ہر کسی کے بس کی بات
نہیں
اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 20 کروڑ افراد نشے کے عادی ہیں اور ان کی
تعداد میں بڑی تیزی سے آضافہ ہورہا ہے ، اسی طرح سالانہ 40 لاکھ نشے کیعادی
افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی
تعداد 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اسی طرح پاکستان میں ڈھائی لاکھ افراد ہر
سال نشے کی عادت کے باعث موت کے منہ چلے جاتے ہیں جو مختلف قسم کی منشیات
اور اس کے استعمال کے الگ الگ طریقے اپناتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا
استعمال کرنے والوں میں 80 فیصد مرد اور 20 فیصد خواتین شامل ہیں۔ پاکستان
میں 66.22 فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر 20 سے 29 سال ہے اسی طرح 18.92
فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر 15 سے 19 سال ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں
اسلامی معاشرے کے ساتھ مشرقی روایات بھی موجود ہیں لیکن نشے کے عادی افراد
کی مجموعی تعداد میں 20 فیصد خواتین بھی شامل ہیں ، جن میں سے 80 فیصد
خواتین امیر گھرانوں اور ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہیں جو نشہ صرف ذہنی
سکون اور تسکین حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں
منشیات کا کاروبار کرنے والا مافیا نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں ، یہ
مافیا سکول، کالج، اور یونیورسٹوں میں اپنے پنجے مضبوط کر چکے ہیں اور
منشیات فروشی میں ضرورت مند طالب علموں اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ شامل کر
منشیات فروشی پر لگا دیا ہے ، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کے اندر کام کرنے
والا عملہ درجہ چہارم کے ملازم، کینٹین اور ہاسٹل کا عملہ بھی اس گھناؤنے
کاروبار میں ملوث پایا جاتا ہے ، جبکہ تعلیم اداروں کے اردگرد قائم ہاسٹلز
، ہوٹل اور چائے خانوں کے علاوہ بس اڈوں پر بھی منشیات فروخت کی جاتی ہے
اور یہ سارا دھند کسی بااثر شخص ، اور کالی بھیڑوں کی سرپرستی میں چلایا
جاتا ہے۔
ملک میں ہر سال سننے کو یہ ملتا ہے کہ منشیات کی روک تھام کے عالمی دن پر
اتنی من یا ٹن منشیات جلا دی گئی لیکن جن سے اتنی بڑی مقدار میں منشیات
برآمد ہوئی آیا وہ بھی گرفتار ہوئے یا فرار ہو گئے ، اگر گرفتار ہو بھی گئے
ہیں تو کتنے لوگوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے میرے خیال میں کسی ایک کوبھی
نہیں ، کیونکہ اس مافیا میں ملوث طاقتوروں کا ٹولہ کیس کو پہلے سے ہی کمزور
کر دیتا ہے اور دوسری طرف ہمارا پیچیدہ عدالتی نظام جس سے ایسے مجرم جلد
رہائی پا کر باہر آجاتے ہیں. ، یہ مافیا لوگ پھر اور گھروں کی بربادی شروع
کر دیتے ہیں۔
اب ذرہ یہ تلخ حقائق بھی ملاخط فرمائیں ہم کہتے ہیں کہ دھشت گردی کی جنگ
میں ہمارے 70 ہزار شہری و فوج اور پولیس کے جوان شہید ہوئے ہیں ، ہم دھشت
گردی کی جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے اور دس سال میں ہمارے کتنے لوگ
ناجائر مارے گئے ؟ 70 ہزار ، اب ادھر منشیات کی طرف غور کریں ہمارے ملک میں
ہر سال ڈھائی لاکھ افراد نشے کی عادت کی وجہ سے مرتے ہیں اور ہمارے ہاں ہر
سال 45 ارب روپے کی منشیات استعمال ہوتی ہے ، تو کبھی کسی سیاست دان ، کسی
حکمران ، نے اس بات کا نوٹس لیا ہے دھشت گردی سے تو زیادہ نقصان ہمارا
منشیات کر رہی ہے اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی کیا ضرورت ہے
، وہ یہ زہر ہماری نوجوان نسل کو مارنے کے لیے دے رہے ہیں جس میں ہماری 64
فیصد آبادی پر مشتمل نوجوان نسل ان کے نشانے پر ہیں اور ہمارا نوجوان اس
مافیا سے یہ زہر لے کر اپنی موت خرید رہا ہے دوسری طرف وہ اس مافیا کو پیسے
دے کر اور مضبوط کر رہا ہے ، جبکہ یہی پیسہ ہمارے خلاف دھشت گردی، تخریب
کاری ، اور ملک کے امن امان کو خراب کرنے پر ہمارا دشمن خرچ کر رہا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک منشیات کی روک تھام کے لیے اپنے قوانین میں اصلاحات کر
رہے ہیں اور سخت سزاؤں کی وجہ سے اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش
کرنے میں لگے ہوئے ہیں کچھ عرصہ قبل ترکی کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ
تعلیمی اداروں کے گرد منشیات فروخت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں۔ ترکی نے
منشیات کی روک تھام کے لیے سخت پالیسی بنا رکھی ہیں ، اسی طرح خلیجی ممالک
میں منشیات فروشوں کے سرتن سے جدا کر دیے جاتے ہیں ، انڈونیشا میں منشیات
کے کاروبار میں ملوث افراد کو سزائے موت زہر کا انجکشن لگا کر دی جاتی ہے ،
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش نے ان سب سے بڑھ کر قدم اٹھایا ہے بنگلہ دیش میں
انسداد منشیات کی ملک بھر میں مہیم چلائی گئی ، جس میں ریپڈ ایکشن بٹالین
یا آر اے بی نامی فورس نے اپنا مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے ایکشن لیا ، فورس
دوران کاروائی منشیات فرشوں کو موقع پر گولی مار دیتی تھی بنگلہ دیشن میں
سکیورٹی فورسز کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں منشیات کا کاروبار کرنے والے
120 مشتبہ افراد اس فورس کے ہاتھوں مارے گئے۔
ہمارے ملک میں منشیات کے حوالے سے دومسائل ہیں جن میں ہماری حکومتیں سنجیدہ
نظر نہیں آتی ہیں ، اور نوجوان اس لت میں بڑی تعداد میں لگ رہے ہیں افسوس
کا مقام تو یہ ہے ، منشیات فروش طاقت ور مافیا ڈھڑلے سے یہ کاروبار کر رہا
ہے جبکہ دوسری جانب حکومتی سطح پر کوئی ایسا بڑا ادارہ موجود نہیں جو ایسے
منشیات کے عادی افراد کی بجالی کا کام کر سکے ، ملک میں ایسے ادارے این جی
اوز کی سرپرستی میں چلائے جا رہے ہیں ، جن کو بظاہر تو خیراتی ادارے کہا
جاتا ہے لیکن اندر کچھ اور ہی ہوتا ہے ، ایسے ادارے اکثر مارکیٹوں میں
دوکانوں کے اوپر چوبارے لے کر بنائے گئے ہیں ، جن میں کوئی خاص سہولیات اور
ڈاکٹر و ماہر نفسیات تک دستیاب نہیں ہوتے ، چھوٹے چھوٹے کمروں میں دس سے
بیس افراد کو قید کیا ہوتا ہے جن کے وراثا سے ماہانہ 15 سے 40 ہزار روپے
بٹورے جاتے ہیں ، ان افراد کو زنجیروں میں جکڑ کر ان پر تشدد کیا جاتا ہے ،
ان کو نشے کے متبادل گولیاں فراہم کی جاتی ہیں جو ان کے دماغ کوسن رکھتی
ہیں ، جن کے ورثا زیادہ پیسے ادا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو ان کو ڈرپ میں
طاقت کے انجکشن لگائے جاتے ہیں ، وہاں داخل ہونے والے مریض چار دن کھانا
نہیں کھا سکتے ایک ہفتے بعد وہ خوراک کی مقدار لینا شروع کرتے ہیں ، لیکن
اس سارے علاج کے دوران اس بات کا پتہ نہیں لگایا جاتا کہ یہ شخص منشیات کا
عادی کیوں بنا ، ان کے پاس کوئی ماہر نفسیات ہوگا تب ہی اصل جڑ کو پکڑ سکیں
گے بس یہ لوگ ایک مولوی صاحب سے درس دلوا دیتے ہیں۔ اور علاج کا طریقہ کار
جدید میڈیکلی و نفسیاتی طور پر نہیں کیا جاتا ہے۔
علاج کے بعد جب ایسے افراد دوبارہ اسی سوسائٹی میں آتے ہیں تو ان کو دروان
علاج ان کو نفسیاتی طور پر مضبوط تو بنایا نہیں گیا ہوتا جس کی وجہ سے چند
ہفتے اور مہینے بعد پھر منشیات لینا شروع کر دیتے ہیں ، اکثر منشیات کے
عادی افراد نشہ پورا کرنے کے لیے میڈیکل سٹورز سے انجکشن خرید کر لگاتے ہیں
، اور ایک ہی سرنج سے کئی افراد نشہ لیتے ہیں اس سے یرکان اور ایڈز کے
پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے ، میڈیکل سٹورز والے بھی منشیات کے عادی افراد کو
اپنی کمائی کا اچھا ذریعہ سمجھتے ہیں یہ حضرات 30 روہے کا انجکشن ایسے
افراد کو 300 روپے میں بغیر نسخے بلیک میں فروخت کرتے ہیں جن کو ہیلتھ
کمیشن چیک نہیں کر رہا ہے۔
اگر ملک میں نوجوان نسل کو بچانا ہے تو منشیات کی روک تھام کے سلسلے میں
بنگلہ دیش جیسا بڑا قدم اٹھا کر پاور فل منشیات مافیایا کا خاتمہ کرنا ہوگا
، سخت قوانین کو بنانے کے ساتھ مختلف اداروں میں ایسی کالی بھیڑوں کا خاتمہ
کیا جائے جو اس مافیا کی سرپرستی کے علاوہ ان ساتھ اس کاروبار میں ملوث ہیں
، ساتھ ہی منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے اداروں کی حکومت مانٹرنگ کرے
اور ہر ضلعی ہسپتال میں کم از کم چھ بستر پر مشتمل ایک وارڈ ضرور قائم کر ے
جن کے لیے دیگر ڈاکٹرز کے ساتھ ماہر نفسیات بھی تعینات کیے جائیں جو ایسے
مریضوں کی کونسلنگ کریں۔ |
|