تھوڑا ٹھہر

خودکشی پر مائل دکھی افراد کی تسلی کے لئے خون دل سے لکھی گئی تحریر

یہ عنوان میں نے کسی افسانے کے لئے سنبھال کے رکھا تھا مگر کئی دنوں سے محسوس ہورہا تھا,مجھے اب دیر نہیں کرنی چاہیئے اور اس عنوان سے جڑے اپنے خیالات بیان کرنے چاہیئے کیا پتہ کسی ایک بھی دکھی انسان کے کام آگئے تو میری خوش نصیبی اور سعادت ہے.

میں اخبار میں خودکشی کے واقعات ضرور پڑھتا ہوں.روزانہ تین چار واقعات تو رپوٹ ہوتے ہی ہیں.وجہ خودکشی گھما پھرا کے مایوسی ہی نکلتی ہے...مجھے سمجھ نہیں آرہا اپنا مدعا کیسے, کہاں سے شروع کروں؟میں آج اپنے ان بہنوں, بھائیوں,دوستوں اور بزرگوں سے مخاطب ہوں جن کے لئے زندگی ایک بوجھ بن چکی ہے.جن کے پاس جینے کے لئے کوئی وجہ نہیں.جن کی زندگی مسائل اور پریشانیوں نے تلخ بنائی ہوئی ہےاور اب وہ مایوس ہیں .اور کبھی کبھی یا اکثر مر جانے میں ہی عافیت سمجھنے لگتے ہیں.

میں کچھ افسانوی یا میٹھی میٹھی باتیں کرکے بھی اپنی گلو خلاصی نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں اور نہ ہی ہمارے لئے جنت ہے.بنسبت پچھلے چند عشروں کے ملک و معاشرے میں مسائل بھی بڑھ چکے ہیں اور ہر کوئی سکون و اطمینان کی تلاش میں مارامارا پھر رہا ہے...مگر زندگی سے فرار ان مسائل کا حل بھی تو نہیں...ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں...ماں باپ , بہن بھائی, دوست عزیز ,رشتے دار سب کی ہم سے توقعات وابستہ ہیں...اس لئے ہزاروں وجوہات ہیں جو بتاتی ہیں کہ جینا بہت ضروری ہے...اگر ہم زندگی سے تھک جائیں تو زندگی کی یہ کہانی کتنی بے مزہ بن جائے گی...سب کی توقعات کا خون ہو جائے گا ,ناشکری ہوجائےگی...شیطان جیت جائےگا انسانیت ہار جائے گی.شعر محسوس کیجیئے...
کیسے کہ دوں کہ تھک گیا ہوں میں
جانے کس کس کا حوصلہ ہوں میں

غم اور زندگی کا آپس میں چھولی دامن کا ساتھ ہے.دنیاکے تمام عظیم انسان غم اور پریشانیوں کامقابلہ کرتے ہوئے ہی عظیم بنے ہیں.اور اپنا مقررہ وقت بِتا کر اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہیں.دراصل انسان جتنا بڑا ہوتا ہے اتنا ہی اس کا غم بڑا ہوتا ہے...میں اپنے ادب کی دنیا کی بات کروں گا...دنیا میں جتنا بہترین ادب تخلیق ہوا,غم کی وجہ سے ہی ہوا...زیادہ تر ٹریجیڈی ہی زندگیاں بدلتی ہیں...غم کیا چیز ہے؟خوشی کیا ہے؟ اس بارے بھی کافی دلچسپ مواد موجود ہیں.خصوصاً علامہ اقبال کا فلسفہ غم پڑھنے لائق چیز ہے.دراصل غم ہی ایک مستقل اور دائمی چیز ہے جب یہ نہیں ہوتا تو ہم کہتے ہیں خوشی آگئی.بہرحال غم و مصیبت کی اصلیت اور حقیقت جاننےسےبھی غم کافی حد تک کم ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ درد وغم سہتے ہوئے مزا آنے لگتا ہے...غم و مصیبت میں بندہ خدا کو نہ بھولے تو رحمت اور درجات کی بلندی کا باعث بن جاتا ہے...غم و مصیبت میں صبر اور خوشی و راحت میں شکر ہی بندگان خدا کا شیوہ رہا ہے...یقیناً آپ کی زندگی میں بھی ایسا ہوا ہوگا کہ جب آپ سخت پریشان ہوتے ہیں.اور ہر طرف سے مایوس ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ بس سب کچھ ختم...اب میری حالت نہیں بدلنے والی مگر پھر کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے,یا ایک نعمت کسی بھی شکل میں ایسی مل جاتی ہےکہ ہم اپنا سارا غم بھول جاتے ہیں...زندگی مسکرانے لگتی ہے.اور یوں لگتا ہے جیسے ہم نے کوئی غم دیکھا ہی نہیں. اس رویے بارے قرآن پاک میں بڑا خوب صورت انداز اختیار کیا گیا ہے. سورۃ یونس کی آیت پاک میں اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے."اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے,بیٹھے اور کھڑے (ہر حالت میں) ہم کو پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہےجیسے ہمیں کسی تکلیف میں پکارا ہی نہ ہو......."

زندگی غم اور خوشی کے تسلسل کا نام ہے...صرف خوشیاں ہی خوشیاں تو جنت میں ہی ممکن ہیں.جس کے لئے ہم نے یہ تھوڑی سی زندگی صبر و شکر کے ساتھ گزارنی ہے...آج میری آنکھوں کے سامنے ان دوستوں اورجاننے والوں کی صورتیں رقص رہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا چراغ خود ہی بجھا دیا یا بجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے...کاش وہ جان لیتے کہ یہ دنیا والے بڑے بے پروا ہیں تین دن سوگ منانے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں...اور سب کچھ بھلا دیتے ہیں...جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہوں...مرنے والا مرحوم بن جاتا ہے...اور بس.... سوچنے کی بات ہے.کیا موت ہی ان پریشانیوں کا حل ہے...؟ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟ بخاری شریف کی ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ کیجیئے."جو شخص اپنا گلہ گھونٹ کر خودکشی کرتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلہ گھونٹتا رہے گااور جو تیز دھار آلے سے خودکشی کرتا ہے وہ جہنم میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا."

آج میرا قلم سراپا التجا ہے.میں زندگی سے مایوس اپنے بہن بھائیوں,دوستوں اور بزرگوں سے مخاطب ہوں...تھوڑا ٹھہر...!کہ اندھیری رات کے بعد صبح بھی تو آتی ہے.طوفان سے الجھنے والوں کو بالآخر کنارا مل ہی جاتا ہے...غم کے بادل چھٹ بھی جاتے ہیں اور زندگی کا آسمان صاف ہو بھی جاتا ہے...زندگی کا سفر طویل بھی تو نہیں آج نہیں تو کل بلاوا آہی جانا ہے...ابھی تو بہت کام باقی ہے....ماں باپ کی محبتوں اور مشقتوں کا صلہ دینا ہے....تھوڑا ٹھہر...! کہ بہن بھائیوں کی محبتیں سمیٹنی ہیں ان کا حال اور مستقبل محفوظ اور خوشگوار بنانا ہے...بچوں کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک دیکھنی ہے...بے کسوں کا سہارا بننا ہے...بھوکوں کو کھلانا ہے...رونے والوں کے آنسو پونچھنے ہیں...تھوڑا ٹھہر...!کہ ابھی کہانی ادھوری ہے...گرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے...ناکامیوں سے سیکھ کر کامیابیاں سمیٹنی ہیں...بس چار دن ہی کی تو بات ہے...تھوڑا ٹھہر....! تھوڑا ٹھہر...!
 

Mian Shams Ul Haq
About the Author: Mian Shams Ul Haq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.