خوشی منانا فطری بات ہے۔ خوشی منانے کے انداز بھی ہوتے
ہیں۔ تقاضے اور قانون بھی ہوتے ہیں۔ خوشی و مسرت اور عید ایسی ہی منائی
جائے جیسی اسلام نے اجازت دی۔ حالات پرنظر رکھنے والے یہ احساس رکھتے ہیں
کہ ہمارے قومی وجود میں ہزاروں زخم ہیں۔ ہزاروں نشتر ہیں۔ شام و فلسطین میں
لہو خیزی کا سانحہ سرد نہیں ہوا۔ یمن کے غریب مسلماں زخموں سے نڈھال ہیں۔
افغانستان و عراق کی تاراجی کا دور ختم نہیں ہوا۔ساری دُنیا مسلمانوں کے
لیے قتل گاہ بن چکی ہے۔ ہمارے ملک میں گؤ رکھشا کی آڑ میں مسلمانوں کی
جانیں تلف ہوئیں۔ فرقہ پرستوں کی اسلام دشمنی عروج پر ہے۔ایسے پس منظر میں
عید کی خوشیاں غیر شرعی طریقے سے منانا بے حسی کی علامت ہے!
فلم بینی: فلم انڈسٹری ہر سال عید پر نئی فلم لاتی ہے۔جس کا مقصد مسلمانوں
کے مال کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ اطلاع کے مطابق امسال بھی مسلمانوں نے فلم انڈسٹری
کا زبردست فائدہ کروایا۔ انھیں مسلمانوں کے گاڑھے کی کمائی سے کروڑوں کا
فائدہ ہوا۔ مہینہ بھر بارگاہِ الٰہی میں فرماں برداری کا توشہ عید ہے۔ عید
نیکیوں کے موسمِ بہار کا نام ہے۔ لیکن! قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ عید کی
ساعتوں میں اسلام دشمنوں کے کلچر کو مال سے خرید رہی ہے۔ پسینے کی کمائی
یوں برباد کی جا رہی ہے۔ گناہ بھی مال دے کر خریدنا! افسوس ناک ہے!!اول تو
ایسے مراکز سے دوری ہی بہتر ہے، پھر مال کی تباہی مستزاد!
ہورڈنگز کی بھرمار: پہلے بینرز صرف سیاسی لیڈران کے دکھائی دیتے تھے۔ شاید
انھیں خود کو منوانے یا پہچنوانے کا یہی موقع ملتا ہو! لیکن اب تو دینی،
سماجی، تعلیمی سبھی حلقے بینر بازی میں آگے ہیں۔ لاکھوں روپے صرف کر کے یہ
بینر بنائے جاتے ہیں۔ جن کا فائدہ کچھ نہیں۔قوم نڈھال ہے۔ مفلوک الحال ہے۔
زخموں سے چوٗر چوٗر ہے۔ مالی خسارے اور غربت کی زد میں ہے۔ ایسے میں پچاسوں
لاکھ کے بینرز یقینی طور پر سرمائے کا اسراف و اتلاف ہی کہلائے گا۔ اخلاقی
طور پر بھی یوں تصویروں سے مزین بینرز مفید و مناسب نہیں۔ شرعی طور پر تو
جان دار کی تصویریں حدیث پاک سے ممنوع و باعثِ وعید ہیں۔ خوف و خشیتِ الٰہی
سے قوم کا عاری ہو جانا ہی ایسے معاملات میں مبتلا ہونے کا باعث ہے۔جس کے
ازالے کی صورت پر غور کرنا چاہیے۔
مساجد سے دوری: مساجد پاکیزہ مقامات ہیں۔ جہاں سے وابستگی قوم کی زندگی کی
علامت ہے۔ قوم کی روحانی زندگی مساجد سے جڑی ہے۔ ماہِ رمضان میں مساجد سے
رشتوں کی تجدید ہوتی ہے۔ ایک ماہ کی تربیت سے تو نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ
تاحیات وابستگی رہے۔ لیکن عید کی خوشیوں میں مساجد سے ہجوم و اژدہام ایسا
غائب ہوتا ہے کہ پھر جمعہ جمعہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اِس بابت بھی احتساب کی
ضرورت ہے۔ اپنی تباہی کے اسباب و وجوہ پر غور کریں تو ایک سبب مساجد سے
دوری ہے، نمازوں سے کوتاہی ہے، خانۂ خدا کی ویرانی ہے۔
جانوں کا اتلاف: جان بڑی قیمتی ہے۔ زندگی بڑی عظیم نعمت ہے۔ یہ اﷲ کی عبادت
کے لیے ہے۔رسول پاک ﷺ کی اطاعت کے لیے ہے۔ زندگیوں کی قدر کی جانی چاہیے۔
عید کی خوشیوں میں بے جا تفریحات نے حیات کی قدر ختم کر دی ہے۔ ہر سال سنتے
ہیں کہ فلاں تفریحی مقام پر حادثہ پیش آیا۔ جان چلی گئی۔ فلاں تالاب و ڈیم،
فلاں ندی و مقام پر ڈوبنے سے اتنے نوجوان انتقال کر گئے!! یہ کیوں ہوتا ہے؟
اس پر غور کیا جائے۔ ہمیں اپنی جانوں کی قدر نہیں۔ زندگی کے آداب و ڈسپلن
سے بے خبر ہو کر جی رہے ہیں۔ اگر اپنے فوائد و نقصانات پر غور کر کے اگلا
قدم اٹھائیں گے تو یقینا خسارے سے محفوظ رہیں گے۔ امسال بھی کئی جانیں
لاپروائی سے گئیں۔ ہاں! موت آنی ہے وہ آئے گی ضرور !لیکن اپنی کوتاہیوں سے
جانوں کا ضیاع عقل مندی نہیں!! اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ والدین
کو بھی، نئی نسل کو بھی، جذبات پر قابو پا کر راہیں متعین کرنی ہو گی۔ سوجھ
بوجھ سے آگے بڑھنا ہوگا۔
روح کی تربیت کیجیے: روحانی امراض نے قوم کو بے راہ روی کا شکار بنا دیا
ہے۔ روحانی سکون اﷲ والوں کی بارگاہوں میں ہے۔ ان کے تذکروں میں ہے، ان کی
یادوں میں ہے، ان کی زندگیوں میں ہے۔ اس لیے ایسے تفریحی مقامات جو قومی
وقار کے منافی ہیں جیسے فلم کے مراکز، عریانیت و تماش گاہیں، بے حیائی کے
اڈے، ایسے مقامات چھوڑ کر اﷲ کے ولیوں کی بارگاہوں میں باوضو حاضری دیں،
مساجد کو آباد کریں، سجدوں سے روح کی صفائی کریں۔ علم دین حاصل کریں۔ دینی
کتابیں مطالعہ میں لائیں۔ اپنی مذہبی و روحانی زندگی کی تعمیر کریں۔ حصولِ
علم کو مطمح نظر بنائیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آقا ﷺ کی سیرت کا
مطالعہ رکھے۔ ’’سیرتِ مصطفیﷺ‘‘ از مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی بڑی مفید و عام
فہم کتاب ہے۔ اسے مطالعہ میں لائیں اور دیکھیں کہ کیسی عظیم سیرت تھی ہمارے
آقا ﷺ کی۔ یوں ہی قوانین اسلامی سے واقفیت بھی ضروری ہے،’’ قانونِ شریعت‘‘
بڑی مشہور اور پُر مغز کتاب ہے جس کا مطالعہ مسائل سیکھنے میں بڑا مفید
ثابت ہوگا۔وضو،غسل، نماز کا طریقہ بھی سیکھیں۔ خواتین کے لیے ’’جنتی زیور‘‘
بڑی مفید کتاب ہے۔ بچیاں اسے ضرور پڑھیں اور دیکھیں کہ مقدس خواتین اسلام
کی مبارک زندگیاں کیسی نمونۂ عمل تھیں۔
بہر کیف! مدعا یہ کہ بے جا تفریح، فضول خرچی، مال کی بربادی، جان پر کھیل
کر تفریح کا حصول سخت محرومی ہے۔ گناہوں کا ارتکاب ہے۔ اس سے بچنے میں ہی
فائدہ ہے۔ معاشرے کی تباہی و بربادی والے کام کبھی بھی مفید نہیں ہو سکتے۔
والدین کو چاہیے کہ آدابِ زندگی سکھائیں۔ اولاد کو چاہیے کہ اپنے کسی بھی
قدم کو اٹھانے سے قبل یہ دیکھیں کہ نفع بخش ہے یا نقصان دہ۔ تا کہ غلط روی
سے بچ کر اچھی راہ چل سکیں اور جانوں کی بربادی سے بچ سکیں۔ اﷲ تعالیٰ قوم
کو عقلِ سلیم دے۔ برائی سے بچنے اور نیکیوں کی راہ اپنانے کی توفیق دے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔ |