سورۃ انبیاء آیت نمبر تیس (30) میں اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا،’’اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا‘‘ قرآن مجید فرقان
حمید کی اس آیات کریمہ کی روشنی میں ہمیں پانی کی اہمیت کا خوب اندازہ ہوتا
ہے کہ پانی نعمت خدا وندی ہے اور کائنات کی بے شماراور لازوال نعمتوں میں
سے ایک اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔انسانی جسم کو 60فیصد
پانی کی ضرورت ہوتی ہے ، سا نئسی تحقیق کے مطابق ایک صحت مند جسم کو دن
میں8 گلاس پانی انتہائی ضروری ہیں ۔
کسی بھی جاندار کے زندہ رہنے کے لیے تین عناصر بے حد ضروری ہیں ہوا، روشنی
اور پانی، ان تنیوں میں سے اگر ایک عنصرکی ہماری زندگی میں کمی واقع ہو
جائے یا نکا ل دیا جائے تو زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے لیکن اگر پانی نہ
ہوتو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحت اور زندگی کو برقرار
رکھنے کے لیے ہوا ، روشنی کے بعد پانی بے حد ضروری عنصر ہے تندرستی کو قائم
رکھنے کے لیے پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا صاف ستھری ہوا کی طرح
صاف ستھر ا اور جراثیم سے پاک پانی انسانی جسم کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔
جیسے صحت مند معاشرے کے لیے خالص ہوا ضروری ہے بالکل اسی طرح صحت مند جسم
کے لیے خالص پانی کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ اگر پانی گدلا ، بدبو دار ہو یا
جراثیم سے پاک نہ ہو تو انسانی جان کو بہت سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور
بہت سے موزی امراض کے شکار ہو سکتا ہے جیسے پیٹ کے امراض، قبض،ٹائیفائیڈ
اور ہیضے کے امراض جیسی جان لیوا بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔پانی زندگی
ہیاور پانی کی اہمیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ تمام غذاؤں کوہضم کرنے میں
مدد دیتا ہے۔ بہت سی بیماریوں سے نجات دلاتا ہے جیسے پیشا ب کی جلن اور
یرقان جیسی مہلک بیماریوں سے بچا ؤ کے لیے صاف اور کثرت سے پانی پینا مفید
ثابت ہوتا ہے ۔ پانی ہمیشہ صاف ستھرا اور میل کچیل سے پاک پینا چاہیے تاکہ
بیماریوں سے بچا جا سکے ۔ ایک اچھے اور صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ
وہاں پینے کا پانی صاف اور جراثیم سے پاک ہو۔
پاکستان ایک ترقی پزیر زرعی ملک ہے اور اس کی آبادی میں دن بد ن اضافہ ہو
رہا ہے ۔لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر
کام ہورہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ملک بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن
بہت سے مسائل سے بھی دو چار ہوتاچلاجا رہاہے ۔ جگہ جگہ فیکٹریاں ، کارخانے
لگائے جا رہے ہین جن سے فضائی آلودگی تو پھیل ہی رہی ہے وہیں پانی بھی
آلودہ ہو رہا ہے جو انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ آلودگی کے
بڑے اسباب میں سے چند کاذکر کر رہا ہوں۔ کارخانوں ،گاڑیوں اور چیزوں کے
جلنے سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں اور زرات جو پانی میں شامل ہو کر پانی
کو آلودہ کر رہے ہیں۔ کارخانوں سے نکلنے والا فالتو اور مضر صحت کیمیائی
مواد جو پانی میں شامل رہا ہے ، گھریلو اور ہسپتالوں کا کوڑا کرکٹ جراثیم
ملامواد جو پانی میں شامل ہو کر پانی کو زہریلا اور جراثیم شدہ بنا رہا ہے
۔کیمیائی کھادیں ۔ کیڑے مار ادویات اور سپرے بھی پانی کو آلودہ کرنے کا
باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پانی کو آلودہ کرنے کی ایک بہت بڑی
وجہ شاپنگ بیگ کابے دریغ استعمال ہے یہ شاپنگ بیگ استعمال کے بعد جب کوڑے
کے ڈبے میں پھینک دیے جاتے ہیں تو نکاس آب کی رکاوٹ تو بنتے ہی ہیں لیکن جب
ان کو جلا یا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا زہریلادھواں پانی میں شامل ہو کر
پانی کی آلودگی کا باعث بنتا ہے ۔ شہروں میں پینے کے پانی اور گٹروں کے
پانی کے پائپ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور اتفاق سے یہ پائپ پرانے اور
بوسیدہ ہونے کی وجہ سے مختلف جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہوتے ہیں جس کے وجہ
سے صاف پانی میں گٹر وں کا پانی شامل ہو جاتا ہے اور پینے کے پانی کو آلودہ
کر دیتا ہے ۔ جس سے ہیضہ پیٹ کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یقیناََ معاشرے
میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان مین شہری آبادیوں
میں 44 فیصد آبادیاں ایسی ہیں جو صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں جبکہ
90فیصد دیہاتی آبادیا ں ہیں جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔پاکستان
کونسل آف ریسرچ ان واٹر ایسویٹس (PCRWR) کے مطابق صاف پینے کے پانی کا
مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ایک اندازے کے مطابق تقریباََ 2 لا کھ
سالانہ کے حساب سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔
صاف پانی تو مسئلہ ہے ہی لیکن اس سے زیادہ تشویش نا ک بات یہ ہے کہ پانی کی
سطح مزید نیچے ہوتی جار ہی ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو اگلے چند سالوں میں
ملک پاکستان کوپانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔پاکستان کی زمین
سر سبز و شاداب او ر زرخیز زمین جو کہ نعمت خدا وندی ہے ۔ اس زمین پر
جنگلات بھی ہیں جو کسی بھی ملک کی ترقی اور آب و ہوا کو متوازن رکھنے کے
ضامن ہوتے ہیں درخت زمین کا زیور ہیں درختوں کی حفاظت کر کے ہم اس زمین کو
جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔درخت کسی جگہ کی آب و ہوا کوتبدیل کرنے میں اہم
کردار ادا کرتے ہیں۔درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہوتے
ہیں تو ہوا میں نمی کا تناسب موزوں رہتاہے۔ اور آب وہوا خشک نہیں ہونے
پاتی۔ یہی بخارات اوپرجاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں جس سے بارش
ممکن ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی درخت بادلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور مو سم
معتدل ہو جاتا ہے ۔جب بارش سے سیلاب آتے ہیں تو جنگلات کے درختوں کی جڑیں
زمین کو اسفنج کی طرح بنادیتی ہیں۔اور یہ زمین بہت سا سیلابی پانی روک لیتی
ہے۔ جس سے سیلاب کے پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اس لئے وہ زمین کا کٹاؤ
کرنے کے قابل نہیں رہتا اور زمین کی زرخیزی بھی بڑی حد تک ضائع ہونے سے بچ
جاتی ہے۔ دراصل درختوں کی جڑیں مٹی کے ذرات کوباہمی طورپر اچھی طرح پکڑلیتی
ہیں۔ جس سے زمین نہ صرف سیلابی پانی کے کٹاؤ سے محفوظ رہتی ہے بلکہ سیلاب
کے گزرجانے کے بعد ہوا کے کٹاؤ سے بھی زمین کی اوپری سطح کی زرخیزمٹی کو
اڑاکر دورچلے جانے سے روک لیتی ہے
پاکستان میں جگہ جگہ رہائشی سکیمیں متعارف کرا ئی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے
درخت کاٹے جا رہے ہیں اور سر سبز شاداب اور زرخیز زمین کو کبھی ختم کیا جار
ہا ہے جس کی وجہ سے ماحولیات پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں گرمی
کا زور بڑھ رہا ہے ۔ ایک وقت تھا جب دوبئی میں درجہ حرارت بہت زیادہ رہتا
تھا لیکن آج وہاں درخت لگائے جا رہے ہیں اور گرمی کی شدت پر کافی حد تک
کنٹرول کیا جا چکا ہے لیکن پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجو د یہاں پر
ہر سال گرمی کا زور بڑھ رہا ہے جس کی اہم وجہ صرف درختوں کی کٹائی اور
ززخیز زمینوں پر رہائشی سکیمیں ہیں۔درخت زمیں کی زرخیزی کو قائم رکھتے
ہیں،پیارے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ
پاکستان کی خوبصورتی کو بڑھانے کے ساتھ اس کی فضا میں بسنے والوں کے لئے
تازہ ہوا کا بھی بندوبست کرتے ہیں اوردرختوں کی ہریالی سے موسم خوبصورت ،
ٹھنڈا اور معتدل رہتا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور اہم مسلہ پانی کی حفاظت کرنا
ہے جس پر بالکل توجہ نہیں دے جا رہی ، اگر اس مسلے پر آج توجہ نہ دی گئی
اور اس پر کوئی حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو آنے والا کل پاکستان کے لیے بہت
بھیانک ثابت ہوگا۔
ایک رپورٹ کی مطابق بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے
ڈیم مکمل کر چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے
جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے ، پانی کے حوالہ سے ہمارا
مستقبل بہت دردناک ہے، دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان
دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور اوپر
بیان کردہ منصوبہ جات اور ڈیمزکی صورت حال سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس پر عمل
کر رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے
11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم
بنا رہا ہیدریائے چناب پر مزید24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر
مزید190ڈیم فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں
۔لیکن افسوس ہم آج بھی آپس کی لڑائیوں میں محو ہیں ہمارے لیڈران ایک دوسرے
کے گریبانوں کو نوچنے میں مصروف ہیں ۔ سب اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں
کسی بھی سیاسی پارٹی نے ملک میں پانی کو محفوظ کرنے درختوں کی کٹائی سے
روکنے کے لیے کوئی مثبت حکمت عملی اختیار نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان
مختلف مسائل کا شکار ہے ۔اگر مجھ جیسے ناتواں کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے
لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان
موضوعات پر بات نہیں کرتے؟آج سرسبز شاداب پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ہم
بھی آنے والے مستقبل کوصاف ہودار اور روشن بنانے کے لئے ایک پودا ضرور
لگائیں یہی وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہم حکومت وقت سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ
ڈیم بنائیں تا کہ پانی کو محفوظ کیا جاسکے اور سرسبز شاداب و زرخیززمین پر
رہائشی سکیموں کے مالکان کے ساتھ مل کر مثبت حکمت عملی اختیار کریں تا کہ
سر سبز زمین کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔محکمہ ماحولیات اس بات کا پاپند ہے
کہ جب بھی کوئی سڑک، پیٹرول پمپ، کارخانہ یا کوئی رہائشی سکیم بنائی جائے
تو اس جگہ جتنے درخت کاٹے جائیں گے وہ ادارہ اتنی ہی تعداد میں درخت لگانے
کا پابند ہے لیکن اس پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟ |