معمول کے مطابق اولڈ سیکرٹریٹ جی پی او سے گزرتے ہوئے
عارف مصطفائی آ ف نیلم کو فٹ پاتھ سے جھک کر اخبارات کے گندھے ہوئے ٹکڑے
اٹھائے دیکھ کر دل بہت خوش ہوا وہ آگے آگے تھے مگر خواہش جاگی اسکے ہاتھوں
کو چوم لوں اسلئے آواز دی تو اپنے وہی پرانے انداز میں دیکھتے ہوئے خوش ہو
کر بغل گیر ہو گئے اور ہاتھوں کو بوسا نہیں دینے دیا یہ اخبار کے ٹکڑے
اسلئے اٹھا کر ایک کونے میں رکھ دئیے کہ ان پر مقدس نام اور مقدم کلام کا
درج ہو گا ، انکا تقدس پامال نہ ہوپہلے گھی کے کنستروغیرہ پولز کے ساتھ لگا
دئیے جاتے تھے تاکہ اس طرح کے اوراق اٹھا کر ان میں ڈال دئیے جائیں ۔مگر
بہت عرصے سے یہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔شاید اب لوگ اپنے اپنے کاموں میں
اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ اس طرف توجہ دینا محال ہو چکا ہے ۔عارف مصطفائی
اے ٹی آئی کے سرگرم کارکن ہوا کرتے تھے اور اخبار والوں سے بھی انکا تعلق
رہ چکا ہے اس تعلق پر رابطہ رہتا تھا جو بہت خوشگوار ہوا کرتا تھا ،عارف
مصطفائی کے ساتھ بغل گیر ہونے کے بعد اخبارات میں مقدس نام اور کلام کے
حوالے سے بات ہوئی جنکا کہنا تھا علماء کو مہم چلانی چاہیے اخبارات روٹیوں
، پکوڑوں وغیرہ سمیت سبزی فروٹ کی پیٹیوں کے اندر اور بہت سی جگہوں پر
استعمال ہوتے ہیں لہذا اخبارات میں مقدس نام کلام نہیں ہونا چاہیے ، میرے
والد محترم ایس ایم مبین بھی پیدل چلتے پھرتے ہیں انکی عادت میں شامل ہے
راستے میں سے اسی طرح کیل سمیت چنبے والی چیزیں اٹھانا تاکہ کسی کو تکلیف
نہ ہو تو مقدس ناموں اور کلام کا کتنا بلند مقام ہے اسکا احساس ہوتا تو
شاہد اخبار روغیرہ کے ٹکڑے سڑکوں پر نہ ملتے مجھے میری بڑی پھوپھی امی تین
سال کی عمر میں دریا کی وادی سے سمندر کے شہر لے گئیں تھیں انکی اولاد
نرینہ نہیں تھی لہذا انکا لاڈلہ میں اور اپنی رات کی رانی دن کا راجہ
چمبیلی سرخ سفید گلابوں سمیت پودوں والے دوباغیچے ہوتے تھے شام مسجد میں
کلام مقدس کی پڑھی کیلئے جاتے تین ساڑھے تین بچوں کے ساتھ قاری حضرات کا
تدریس کا سلسلہ چلتا جسکے انچارج پروفیسر صاحب تھے ایک دن ان سے پوچھ لیا
آپ کہتے ہیں صحابہ کرام کلام پاک کی تلاوت سنتے تھے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی
لڑیاں جاری ہو جاتی تھیں ، مگر یہاں اور پھر جمعتہ المبارک کے خطبات سمیت
روز سنتے میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے مگر پروفیسر صاحب نے کہا ایک وقت آئے
گا تم کو جواب مل جائے گا پھوپھی ما ں کی ستائیس رمضان کو وفات کے بعد واپس
مظفرآبادآیا تو آج تک یہاں فٹ نہیں ہو سکا مگر زلزلے کے بعد رمضان المبارک
میں ہی خیال آیا قرآن ترجمے سے پڑھا جائے سحری نماز کے بعد قرآن کا اردو
ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو اتفاق سے رب کے رحیم و کریم ہونے کی آیات سنامنے
آئیں اور ترجمع کے ساتھ پڑھتا گیا خود بخود آنکھوں سے رحیم کریم کی محبتوں
کا زکر پڑھ کر آنسوؤں کی لڑی جاری ہو گئی بارہ پندرہ سال بعد جواب مل گیا
پروفیسر صاحب یاد آئے اور دل سے انکے لئے دعا بھی جاری ہو گئی یہ سب کچھ
بیان کرنے کا مقصد یہ کہ قرآن عربی میں ضرور پڑھناسکھائیں مگر اپنی اردو
میں زبان میں پڑھانے اور پڑھنے کی ترغیب دیں تو شاہد نہیں یقیناًسڑکوں سے
اخبارکے ٹکڑے نہ ملیں ، اس حوالے سے یقیناعلماء اخباری مالکان انتطامیہ کو
سوچتے ہوئے حل تجویز کرنا چاہیے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل چیف جسٹس
اسمبلی بھی غور کرئے اخبار میں اول تو مقدس نام کلام شائع نہ کئے جائیں اور
خاص ایام پر شائع ہونے والے دن اخبار فروخت خرید وفروخت نہ کیئے جائیں انکے
سمندر یا مٹی میں دبانے سمیت جو بھی طریقہ ہے اس پر عمل کیا جائے ، تاکہ آج
کے گناہ گار دور میں کم ازکم مقدس نام کلام کے حامل صفحات وغیرہ کی اجتماعی
غفلت کے باعث بے حرمتی ختم ہو سکے ۔انسان کے عبادات سمیت تمام کاموں میں
پہلا اصول ادب و احترام ہے اگر یہ دل سے ختم ہو جائے تو سب کچھ بے کار ہوتا
ہے ۔ دعا ہے سب جہانوں کے پالنے والے اور سب جہانوں کیلئے رحمت والے ہمیں
اور ہمارے سب بزرگوں ، دوست احباب پر رحمتیں فرمائے آمین
|