جب بھی سورج اپنی روشنی سے رات کے اندھیرے کو مات دے کر
پوری دنیا کو روشن کرتا ہے تو اسی کے ساتھ انسان، چرند، پرند اپنی نیند سے
بیدار ہوتے ہیں، تو وہ بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے۔اپنے چھوٹے سے گھر
میں بنی کھڑکی سے باہر کی رونق کو دیکھنے کے لئے کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاتا
ہے۔سامنے ایک خوب صورت، حسین منظر، ہر طرف سر سبز کھیت ، درخت اور ہوا میں
رس گھولتی پرندوں کی چہچہاہٹ۔اس کو سرشار کر دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بلکل
اس جیسے، اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔اور اپنے سننے والوں کے
لئے باعث لطف بھی۔
وہ ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا رہتا۔مایوسی کے عالم میں اپنے آپ کا
موازنہ ان سے کرتاہے تو بلکل نہ خود میں کوئی کمی محسوس کرتا نہ ان میں
کوئی اضافہ۔ان کے بھی اتنے ہی پر جتنے میرے اور بلکل ایک جیسے، ان کا کے
جسم کا ڈھانچہ بھی ویسا جیسا میرا۔لیکن پھر بھی وہ اپنی زندگی سے اس قدر
خوش اور میں رنجیدہ،اکیلا، او روہ بھری صحبت میں زندگی کے مزے لے رہے
ہیں۔پورا دن اسی مایوسی سے باہر کے حسین منظر کو دیکھتے رہتا مگر اڑنے کی
حسرت کو دل ہی میں لئے سورج کے ڈھلنے کے کا ساتھ ہی سو جاتا۔ اس کے دن یوں
ہی مایوسی میں ہی گزتے تھے، مگر اس کو اڑنے سے زیادہ گرنے کا ڈر تھا۔
شاید اس دن بھی وہ مایوسی سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک بلکل
اسی طرح کا طوطا اس کے درخت پہ بنے گھر کی سامنے والی ٹہنی پہ آ کر بیٹھتا
ہے ۔ اس مایوس طوطے سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ارے، پریشان لگ رہے ہو کیا
معاملہ ہے سارے اس خوشگوار موسم میں چہچہا رہیں ہیں اور تم یوں ہی اداس
بیٹھے ہو ۔تم اس حسین منظر سے لطف اندوز کیوں نہیں ہوتے؟آوٗ چلیں، موج مستی
کرنے۔ وہ ایک دم سے بولا نہیں، نہیں، کہیں میں گر نہ جاوٗں،سہمتے ہوئے اسے
ٹال دیا۔ کیسی باتیں کرتے ہو، اڑنے کی لئے پر کے ہوتے ہوئے بھی گرنے کا ڈر،
تم کیسے گرو گے۔یہ دیکھو میں اڑ کے دکھاتاہوں۔ میں بھی تو بلکل تم جیسا
ہوں۔ چلو آو اب اڑو تم بھی۔
پریشانی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں تو آج تک نہیں اڑا، میں بھلا کیسے اڑ
پاوٗں گا۔ میں تو اتنی بلندی سے گر کر مر جاوٗں گا۔تم بے فائدہ پریشان ہو،
اتنے اصرار پر بھی وہ نہ مانا پر اسے ایک دوست ضرور مل گیا۔ وہ روزانہ اس
کے پاس آتا اوروہ گپ شپ لگاتے،طوطا ہر روز اسے اڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش
کرتا مگر بے سود۔ ایک دن اس طوطے نے اسے کہا کہ دیکھو، تم اڑنے کی اہلیت کے
ہوتے ہوئے بھی یوں ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں بند اپنی زندگی بغیر کسی لطف
کے گزاردو گے،دیکھو تمہیں اپنے اڑنے سے زیادہ گرنے کا ڈر ہے، اور تم اس ڈر
کو اپنے اوپر حا وی کر کے اپنی زندگی کو مایوسی میں ہی گزار دوگے، جب تک تم
اس ڈر کی چادر کو اتار و گے نہیں ، تم کبھی اڑ نہیں سکوگے۔
اس بات کی دھاک اس کے د ل میں بیٹھ گئی۔اس نے اڑنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ
پرامید تھا شاید زندگی میں پہلی پرتبہ،وہ بھی دوسرے پرندوں کی طرح اڑ کے
رہے گا، لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں اس کی خود پر عدم اعتمادی اس کے عاری آ
جاتی، اور وہ اڑنے سے قاصر رہتا۔ آخر کار اپنے دوست کی مسلسل موٹی ویشن پر
وہ بلکل پر امید، پر اعتماد اور اپنی پہلی اڑان کے لئے پر جوش تو تھا مگر
کچھ ڈرا سا سہما ہوا۔
آج اس نے زندگی کی پہلی اڑان بھرنی تھی، وہ اپنے چھوٹے سے گھر سے نکلا،
ٹہنی کے سرے پر کھڑا ہوا اور ڈڑتے ، سہمتے اپنے پر کھولے اور اڑان بھری، وہ
اڑا، مگر بلندی کی سمت بھڑنے کی بجائے زمین کی سمت۔ گرنے میں شاید چند
لمحوں کا وقفہ تھا کہ اس نے اپنی تمام تر طاقت اپنے پروں میں دھکیلنے میں
لگائی اور زمین کے بلکل قریب سے بلندی کی طرف سفر طے کرنے لگا۔ اس نے میدان
مار لیا، اس نے وہ کر دکھایا جس کا اہل ہوتے ہوئے بھی ڈر کی وجہ سے وہ نہ
کر پاتا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔بہت زیادہ خوش کیونکہ اب وہ اپنی زندگی اپنی
خواہشات کے مطابق جئیے گا۔کیونکہ وہ ایک چھوٹے سے گھر کی غلامی سے آزاد ہو
چکا تھا۔ اور وہ بھی دوسرے پرندوں کی طرح اڑ سکے گا۔
اس کہانی کے پس منظر سے اندازہ لگائیں، شاید ہی وہ طوطا کبھی اپنی زندگی
میں کبھی اڑ پاتا کہ اگر اس کو ایک ایسا دوست نہ ملا ہوتا جو اس کو اڑنے پر
ابھارتا۔ اس کو اس کی اہلیت پر حوصلہ افزائی نہ کرتا۔ اور اسے بلندیاں
چھونے پر آمادہ نہ کرتا۔اور اگر اس کوخود اعتمادی نہ ہوتی، اگر اسے اڑنے سے
زیادہ گرنے کا ڈر ہوتا تو کیا کبھی وہ اپنی خواہشات کے تابع زندگی گزار
سکتا؟ شاید کبھی نہیں۔ کیونکہ زندگی میں کامیابی کے لئے خوداعتمادی اور
حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو خود پر اعتماد نہیں۔ اگر کسی کو
ناکامی کا ڈر کامیابی سے زیادہ ہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
لہذا آپ بھی اپنی زندگی میں ایسے دوست بنائے جوآپ کو احساس کمتری کا شکار
نہ ہونے دیں۔ بلکہ آپکی اہلیت پر آپ کی حوصلہ افزائی کریں ۔اور خود بھی
ایسے دوست بنئیں ۔ آپ اپنی اہلیت جانئیے ،اپنے آپ کر اعتماد کریں، کیونکہ
خود اعتمادی ہی آپ کو کامیابی جیسا انمول ہیرا دے سکتی ہے۔ اپنے اوپر سے
ناکامی کے ڈر کی چادر اتار پھینکیں ورنہ آپ کی مثال اس پرندے جیسے ہو گی جو
اڑنے کی اہلیت ہوتے ہوئے بھی گرنے کے ڈر سے کبھی اڑ نہیں پائے گا۔
|