جب انسانی معاشرے میں معاشی تنگ دستی پیدا ہوتی ہے تو اس
سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی اورحقیقی اسباب کا پتہ چلایا
جائے اوران اسباب کے تدارک کے لئے درست حکمت عملی اختیار کی جائے۔مولانا
عبید اللہ سندھی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ان بنیادی اسباب پر بحث کرتے ہیں
اور ان کے تدارک کے لئے حقیقی اور قابل عمل حل بھی پیش کرتے ہیں،ان کا کہنا
تھا کہ معاشرے سے طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی معاشرے کے تمام
طبقات میں دولت کی گردش کو رواں دواں رکھا جا سکتا ہے۔اور معاشی حقوق کا
تحفظ بھی اس وقت ہو سکتا ہے جب معاشرے کا اقتصادی نظام اجتماعیت کی کفالت
کے نظرئیے پر مبنی ہو۔صرف ایک مخصوص طبقے کی کفالت پر استوار معاشی نظام
انسانوں کے معاشی حقوق کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔لہذا ضروری ہے کہ معاشرے
میں ایک اجتماعی طور پر ایسا اقتصادی نظام موجود ہو جو ایسے مواقع پیدا کرے
جہاں ہر شخص اپنی محنت سے معاشی جدو جہد کر سکے اور اپنی خاندانی کفالت کے
ساتھ ساتھ قومی ترقی میں بھی کردار ادا کرے۔
اگراپنے معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو طبقاتی نظام معیشت کی وجہ سے تمام
وسائل دولت پر ایک مخصوص طبقہ داد عیش دے رہا ہے ۔اور اکثریتی محنت کش طبقہ
وسائل اور مواقع سے محروم تنگ دستی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔اور یہ
محروم المعیشت طبقہ ہمیشہ کے لئے سرمایہ دار طبقہ کا دست نگر بن کر زندگی
گذارتا ہے۔اس کیفیت سے نکالنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں دو طرح کے نقطہ
ہائے نظر موجود ہیں اول کا مطمع نظر معاشرے کے اندر سے انفرادی سطح پہ
غریبوں کی مدد کرنا اور دوم کا طبقاتی نظام کے خاتمے کے لئے انقلاب برپا
کرنا،اگر گذشتہ ستر سالہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں نے جس طریقہ کار
کو اپانایا ہوا ہے اس کے نتیجے میں ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں
ہو سکا۔اول الذکر مکتبہ فکر کی رہنمائی کے لئے مولانا عبید اللہ سندھی
فرماتے ہیں’’چند بھوکے انسان ہیں ان کے لئے روٹی کا انتظام نہیں ہے ان کے
لئے ایک دن کا انتظام کر دینے سے ان کی بھوک کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اس
کا انتظام سوچنے کے لئے کافی وقت اور توجہ کی ضرورت رہے گی۔یہ ہے بڑا فکرجو
جب تک پورا نہ ہو جائے سامنے رہنا چاہئے۔‘‘(۱)
مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’فارغ البال لوگوں کا فرض ہے کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں اپنے محتاج
بھائیوں کی خبر گیری کریں۔لیکن کسی محتاج کو چند لقمے دے کر اس کا پیٹ بھر
دینا خبر گیری میں داخل نہیں ہے۔رسول اکرم ﷺنے ایک آدمی کو لکڑیاں بیچ کر
خود کمانا سکھایا ،یہ ہے اصل محتاجوں کی خبر گیری کرنا ۔آج کل ہماری
سوسائٹی میں جس ذلیل طریق سے محتاجوں کو ٹکڑہ دیا جاتا ہے یہ ان کو تباہ
کرنے کا بدترین ذریعہ ہے ضرورت ہے کہ محتاجوں کی خبر گیری کے لئے جا بجا
منظم محتاج خانے ہوں۔جہاں محتاجوں کو اس طرح کھلایا پلایا جائے کہ ان کی
انسانیت کو صدمہ نہ پہنچے اور جو لوگ کام کر سکتے ہیں ان کے لئے کام بہم
پہنچایا جائے یا ضرورت ہو تو ان کے لئے آلات کار بہم پہنچائے جائیں یہ ہے
ان کی خبر گیری۔‘‘(۲)
اس تناظر میں آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ معاشرے میں عام
طور پہ یہ روش موجود ہے کہ وقتی طور پہ غرباء کی یا فقیروں کی روٹی وکپڑا
وغیرہ سے مدد کر لی جائے،اور اطمینان کر لیا جائے کہ ہم نے انسانیت کی خدمت
کر لی ہے۔دراصل یہ معاشرے کی حقیقی خدمت کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس سے
بھی آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہیکہ معاشرے میں ایسے
منظم ادارں کو رواج دیا جائے جو کہ ایک طرف معذور اور لاچار افراد کی مدد
بھی کریں لیکن ان کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر،اور دوسری طرف وہ افراد جو
بیکاری کا شکار ہیں اور ان کے اندر کوئی نہ کوئی کام کرنے کی صلاحیت ہے تو
انہیں کام پہ لگایا جائے۔اور انہیں محنت سے کما کر پیٹ پالنے کی طرف مائل
کیا جائے،اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے جو کہ ہاتھ پھیلا نے کے
عادی ہو چکے ہیں۔ہمارے معاشرے میں لاتعداد ایسے ادارے معاشرتی خدمت کے
مختلف حوالوں سے کام میں مصروف ہیں۔ان کا یہ کام معاشرے کے مختلف مسائل کو
حل کرنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو رہا ہے۔لیکن یہ ادارے اندرونی اور
بیرونی اداروں اور شخصیات سے فنڈز لیتے ہیں۔اور ان فنڈز کا بہت ہی کم حصہ
عوامی مسائل کو حل کرنے پہ خرچ ہوتا ہے۔تحقیقی تجزیہ کیا جائے تو اس حقیقت
کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ مقامی،علاقائی عادات،رحجانات اور تقاضوں سے ہٹ
کر بیرونی سوچ اور رحجانات کے مطابق پالیسیوں سے لیس خدمت کے ادارے معاشرے
میں اجنبی نظر آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہیکہ وہ لوگوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا
کرنے کی بجائے اکثر اوقات نہ صرف خود بیرونی امداد پہ انحصار کرتے ہیں بلکہ
یہی عادت آہستہ آہستہ سوسائٹی میں پھیلا رہے ہوتے ہیں۔اس عمل سے دیگر
خرابیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں مثلاً’’اہل فکرو دانش‘‘ کا ایک حلقہ کی ان
اداروں پہ تنقید یہ ہے کہ یہ ریاستی ظالمانہ استحصالی نظام میں پسے ہوئے
افراد معاشرہ کو ریاستی اداروں کے استحصال کے خلاف شعور دینے کی بجائے ان
کے وقتی مسائل کو کسی حد تک حل کرکے،انہیں گویا مطمئن کر دیتے ہیں یا ان کے
ان جذبات کو سرد کر دیتے ہیں جو کہ استحصالی اداروں کے خلاف تبدیلی کے
حوالے سے پیدا ہوتے ہیں۔گویا ان کے نزدیک ظلم کے نظام کے خلاف انقلاب کو
روکنے کا یہ سماجی عمل این جی اوز یا سماجی خدمت کے ادارے انجام دیتے ہیں۔
اوریہ بھی عام بحث موجود ہے کہ عالمی سطح پہ کام کرنے والی این جی اوز کے
عالمی سطح کے سیاسی،معاشی مفادات ہوتے ہیں اور وہ ان مفادات کی تکمیل کے
لئے مقامی افراد اور اداروں میں اپنی جگہ بنا کر اپنے ممالک کے مفادات کے
لئے کام کرتی ہیں۔یقیناً جب آپ کسی سے معاشی مدد لیتے ہیں تو پھر آپ اس کی
پالیسی اور حکمت عملی کے پابند ہو جاتے ہیں۔اایسی این جی اوز جو کہ فقط
لوگوں میں خیرات تقسیم کرتی ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے اس کام کے
اجتماعی طور پہ کوئی نتائج پیدا نہیں ہو رہے۔وقتی مدد تو ہو سکتی ہے لیکن
معاشرے کے اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کی کوئی صورت بنتی ہوئی نظر نہیں آتی۔مفت
کا کھانے اور امداد کے لئے اداروں کی طرف دیکھنے کی عادت پکی ہوتی جا رہی
ہے۔ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مسائل کا تماشہ دیکھنا ایک عادت سی بنتی جا رہی ہے۔
اور وہ طبقہ جو’’ انقلاب‘‘ کا داعی ہے اس کی بھی غلط فہمی کو دور کرنے کی
ضرورت ہے کہ عادلانہ اقتصادی نظام کسی ’’دیو مالائی انقلاب‘‘ کے نتیجے میں
ظاہر نہیں ہو گا اور مولانا سندھی کے انقلابی نقطہ نظرو فکر کا یہ مطلب ہر
گز نہیں کہ سرمایہ داری نظام کے خلاف انقلابات کے نام پہ فلسفیانہ
موشگافیوں میں ہی ساری توانائیاں صرف کر دی جائیں، اور معاشرے کی بد حالی
اور مشکلات سے غافل ہو کر بند کمروں تک محدود ہو کر بیٹھ جائیں اور عوام کو
تنظیمی تربیتی اور معاشی استطاعت سے محروم ذلت اور پستی کے حوالے کئے رکھیں
اور اس مفلوک الحال طبقے کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لئے ان کی طرف
رخ نہ کریں،اور فقط پڑھے لکھے طبقے تک اپنے زبانی جمع خرچ کو سالہا سال تک
آزماتے رہیں۔تبدیلی کے جو بنیادی تقاضے اور قوت محرکہ(عام لوگ) ہیں ان سے
عملی طور پہ کنارہ کشی سے کبھی’’ انقلاب‘‘ برپا نہیں ہو سکتے۔بلکہ ایک
انسان دوست انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ عملی طور انسانیت کی خدمت کی مشقیں
کروائی جائیں، انقلابیوں کی عملی تربیت مسائل میں ڈوبی ہوئی عوام کیساتھ
اشتراک عمل کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی،انقلاب کے لئے صحت مند جسم اور صحت
مند دماغ اور مناسب تنظیم درکار ہوتی ہے اور اس کا’’ اصل راستہ‘‘ عام گلیوں
اور محلوں سے ہو کر گذرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا سندھی ایسے فلسفیوں اور
اہل علم پہ تنقید کرتے ہیں جو کہ فسلفیانہ مشگافیوں میں مصروف ہیں اور عملی
طور پہ انسانوں کی خبر گیری اور ان کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر کے ترقی راہوں
پہ ڈالنے کی جدو جہدنہیں کرتے۔ آپ فرماتے ہیں
’’ہم انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے فلسفیانہ موشگافیوں اور دوراز کار
بحثوں میں پڑ گئے اور کمزوروں کو کمزور رکھ کر ان کا خون چوسنے کے فلسفے کے
جواز میں بڑی بڑی بحثیں کرنے لگ گئے حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ بیکاروں (Un
employed) کو کام پر لگانیکے ذرائع پر غور کرتے۔‘‘(۳)
لہذا ’’ انقلاب برپا‘‘ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں سے رابطہ کیا
جائے،انہیں کام پہ لگانے کی ترکیب کی جائے، ان کے دکھ درد اور مشکلات کو
سمجھا جائے اور انہیں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو کر اپنا حق لینے اور اپنے مسائل
حل کرنے کا گر سمجھایا جائے۔اسی سے ان کی تنظیم بنے گی، اسی سے وہ کسی
اجتماعی عمل میں کام آنے کے قابل ہوں گے۔اس مقصد کے لئے مولانا سندھی تجویز
کرتے ہیں کہ’’اسبا و موانع کی وجہ سے جو لوگ کامیاب نہ وہ سکیں انہیں اتنی
مدد دی جائے کہ وہ اپنے کام کے آلات فراہم کر کے اپنا کام جاری کر سکیں ایک
کاریگر کے پاس اپنے کام کرنے کے اوزار نہ ہوں تو وہ ضائع ہو جائے گا اسے اس
فنڈ سے روپیہ دینا جائز ہے اس کے بعد وہ قوم کا ایک مفید فرد بن جائے
گا۔‘‘(۴)اس سے یہ واضح ہوا کہ اگر انفرادی سطح پہ یا ادارہ جاتی سطح پہ اگر
واقعی لوگوں کی مدد مطلوب ہے تو انہیں معاشی مدد اور آلات فراہم کئے جائیں
تاکہ وہ خود سے اپنی روزی کمانے کے قابل ہو سکیں۔اس کی آج کئی صورتیں ہو
سکتی ہیں مثلاً ایک موٹر مکینک، ویلڈر، کار پینٹر،کھانے کی اشیاء بنانے
والا، ڈرائیور،تجارت کی سمجھ اور تجربہ رکھنے والا، زراعت کے ساتھ منسلک
ہنر مند افراد جو کہ زرعی مشینری کو چلانے اور زراعت کے کام کے ماہر ہیں
اور بغیر اوزاروں اور مشینری کے وہ کام نہیں کر سکتے اور بیروز گار ہیں،اسی
طرح کمپؤٹر سے کام کرنے والے ہنر مند جن کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ
آٹی ٹیکنالوجی خرید سکیں اور اپنا کاروبار شروع کر سکیں نیز ضرورت مند
افراد کو مختلف شعبہ جات سے متعلقہ ان کی صلاحیتوں کے مطابق فنون سکھا کر
بھی انہیں اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا کام شروع کر سکیں اور معاشی
خود کفالت حاصل کر سکیں۔
کیا یہ ضروری نہیں کہ معاشرے کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ معاشرے
کے اندر اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی روش پیدا کی جائے ۔کسی بھی قوم کی
بڑی خدمت یہ ہیکہ اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کیا جائے اور ان میں سماجی اور
سیاسی تنظیم پیدا کی جائے۔یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب انفرادی سطح سے
لیکر اجتماعی سطح تک، خدمت خلق کرنے والے یہ ادارے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے
اصول کے تحت اپنے مسائل حل کرنے کی طرف راغب کریں گے اور ان میں مقامی سطح
پہ ایسی تنظیمیں پیدا کریں جو کہ کچھ عرصے کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت اپنے
مسائل کو خود حل کر سکیں اور یہ عمل آگے چل کرقومی سیاسی اداروں کی درستگی
یا ان میں تبدیلی کا باعث بھی ہو گا۔اپنے مسائل اپنی بساط میں رہ کر اس طرح
حل کرنا کہ کسی کی محتاجی نہ رہے۔ معاشرے میں کام کرنے والی مقامی این جی
اوز اور خدمت خلق کے اداروں کی یہ انتہائی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں
تکنیکی تربیت اور راہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر خود کفالت کا بھی شعور
پید کریں۔کم لاگت سے تعاون باہمی کے عمل سے مسائل کو حل کرنے ا ور اس کے
ساتھ ساتھ انہیں ریاستی اداروں کی حقیقی ذمہ داریوں کے شعور سے بھی بہرہ
مند کریں۔سیاسی شعور سے عوام ریاستی اداروں پہ نظر رکھ سکتے ہیں اور ان کی
فعالیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سیاسی اداروں کی اصلاح کی حکمت عملی
یہ ہو کہ اداروں کے محدود وسائل کو اس انداز سے بروئے کار لایا جائے کہ
مقامی مسائل حل ہوسکیں ۔نیزعوامی شعور کی اس قدر آبیاری ہو کہ وہ اداروں پہ
دباؤ ر برقراررکھیں کہ جووسائل موجود ہیں ان ہی کی مدد سے اور اپنی مدد آپ
کے اصول کے تحت مسائل کو حل کیا جائے۔اس طرح سے دو قسم کے مقاصد حاصل ہو
سکتے ہیں ،ایک تو ادارے کم وسائل کا نعرہ لگا کر بیرونی قرضوں کی ڈیمانڈ
نہیں کریں گے اور دوسرا عوامی شرکت کو یقینی بنا کر اور تکنیکی رہنمائی
مہیا کر کے ان کی فعالیت کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔۔اور قوم آہستہ آہستہ
اپنے محدود وسائل سے ہی اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گی اور بیرونی
قرضوں کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا۔
اگر کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا،یا وہ خود مسائل کا شکار
ہے تو اس کے حل کے لئے اور ان اداروں کی اصلاح اور انہیں اپنا کام درست طور
پہ کرنے کے حوالے سے مل جل کرجدو جہد کا احساس دلایا جائے۔اداروں کی
کارکردگی پہ نظر رکھنا اور اپنے مسائل کو حل کرنے کا شعور آگے چل کر
یقیناً’’انقلاب‘‘ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔۔۔۔۔
(حوالہ جات)
۱۔قرآنی شعور انقلاب،ازمولانا عبید اللہ سندھی،ص۹۱
۲۔ایضاً،ص۲۹۸
۳۔ایضاً،ص۳۹۵
۴۔ایضاً،ص،ص۲۰۳
بشکریہ خدا کی بستی سہ ماہی میگزین لاہور)
|