محکمہ ہائر ایجو کیشن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس
نے سات سال سے سرکاری کالجوں میں تعینات 268 خواتین لیکچرز کو جو ایک عرصے
سے مسلسل غیر حاضر تھیں فارغ کردیا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ محکمے کی تاریخ
میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خواتین اساتذہ کے خلاف بیک وقت یہ کاروائی
کی گئی ہے، جس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔یہ خواتین
پنجاب کے مختلف اضلاع میں مختلف کالجوں میں تعینات تھیں اور مسلسل غیر حاضر
تھیں۔اتنا بڑا اور شاندار کام کرنے پر تعلیم والے صرف مبارک باد کے مستحق
ہی نہیں بلکہ انہیں تمغہ حسن کارکردگی بھی ملنا بہت ضروری ہے۔
مجھے یہ خبر پڑھ کر اندازہ نہیں ہو رہا کہ محکمے کو اس خبر کی اشاعت سے
اپنی کارکردگی بہتر دکھانی مقصود ہے یا کسی فرد واحد کو اپنی یا پھرکچھ اور۔
سیدھی سی بات ہے کہ جو کام محکمے میں ہر سال ہونا چاہیے وہ سات سال بعد کیا
جائے تو تعداد بڑی بن جائے گی۔ اگر تعدادہی کارکردگی کا معیار ٹھہرا ہے تو
بہتر تھا کہ مزید ایک سال انتظار کر لیا جاتا۔ انشا اﷲ تعداد تین سو سے
تجاوز کر جاتی۔ہڈ حرامی اور کاہلی کے مارے افراد کے اس دیس میں جس فرد واحد
نے یہ کمال دکھایا ہے یقیناً تمغہ حسن کارکردگی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ
وہ نہ صرف تاریخ رقم کر رہا ہے بلکہ ایک نیا ریکارڈ بھی بنا رہا ہے۔ ویسے
ہائر ایجو کیشن میں ایک عرصے سے جو مافیاز مصروف عمل ہیں ۔ ایک مدت سے وہ
صرف ریکارڈ بناتے ہیں کام نہیں کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اصل اہداف سے ان کی
واقفیت ہی کم ہے۔اس خبر نے مجھے ماضی کی بہت سی ایسی ہی نایاب باتیں یاد
دلا دی ہیں۔
نوے کی دہائی میں میرا ایک دوست چودہ پندرہ سال باہر گزار کر پاکستان واپس
آیا اور مجھ سے خصوصی ملنے آیا کہ ایک کام ہے۔ پوچھا تو کہنے لگا ’’ جانے
سے پہلے چند سال لیکچرر شپ کی ہے ۔ آج کل واپس آ کر فارغ ہوں کوئی صورت کہ
اسی نوکری پر بحال ہو جاؤں‘‘۔ میں نے کہا کہ ممکن نہیں اتنے سال کون کسی کا
انتظا ر کرتا ہے۔وہ بڑا مایوس ہوا۔ جاتے جاتے مجھے کہنے لگا کہ بھائی کسی
ایسے بندے سے جو رولز کو پوری طرح جانتا ہو پوچھ لینا شاید کوئی صورت نکل
آئے۔ میرے والد انہی دنوں ریٹائر ہوئے تھے اور ان کا شغل گھر اور مسجد کے
علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ گورنمنٹ آف پنجاب میں سیکرٹری رہے تھے اور ایسے
رولز کو پوری طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ہم نے ان سے بات کی ۔ کہنے لگے
پندرہ سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔ میں تو چھ ماہ میں بغیر اجازت یا بغیر اطلاع
کے غائب رہنے والے شخص کو فارغ کر دیتا تھا۔ پھر پوچھا کہ بیٹا تمہارا اس
وقت ایڈریس کیا تھا۔ میرے دوست نے بتایا کہ میرے والدین کا گھر ، جہاں آج
بھی وہ رہتے ہیں۔ والد صاحب کہنے لگے وہاں کوئی نہ کوئی نوٹس آیا ہو گا۔ جس
کی اطلاع انہوں نے آپ کو نہیں دی ۔ چند نوٹسز کے بعد محکمے نے آپ کوفارغ کر
دیا ہو گا۔ میرا دوست بولا کہ کبھی کوئی نوٹس نہیں آیا۔ میرے والدین لمحے
لمحے کی خبر مجھے دیار غیر میں دیتے رہے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ نوٹس آیا ہو
اور مجھے خبر نہ ملے۔ والد صاحب بولے ، ’’حیرانی کی بات ہے۔ کنفرم کر لو
اور اگر واقعی ہی ایسا ہے تو کل سیکرٹریٹ چلے جاؤ۔ متعلقہ سیکشن آفیسر کو
کہو کہ تمہیں نوٹس جاری کرے جو تمہارا قانونی حق ہے۔ وہ نوٹس جاری کرے گا۔
نوٹس میں لکھا ہو گا کہ تم بغیر ا طلاع اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہو، نوٹس
ملنے کے پندرہ دن کے اندر محکمے کو رپورٹ کرو ، ورنہ تمہیں نوکری سے برخاست
کر دیا جائے گا۔ نوٹس وصول کرتے ہی محکمے کورپورٹ کر دینا۔ باقی کام بعد
میں ہوتے رہیں گے‘‘۔ ایک ہفتے بعد میرا دوست مجھے مسکراتے ہوئے ملا کہ انکل
نے جس طرح کہا تھا میں اسی طرح سب کچھ کیا اور آج فلاں کالج رپورٹ کر آیا
ہوں۔ 2012 میں میرا وہ دوست محکمہ تعلیم سے باعزت ریٹائر ہوا۔ بیچ والے
پندرہ سالوں کوسروس میں شامل کرنے کے لئے اس نے کیا کچھ کیا۔ کون کون سی
فائل دائیں یا بائیں ہوئی اور کونسی غائب ، یہ ایک لمبی داستان ہے مگر ہر
چیز ہو گئی۔ہاں ایک بات طے ہے کہ اس ملک میں ہر کام ہو سکتا ہے۔بس پہیے
ضروری ہوتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کا ایک اور د لچسپ واقعہ یاد آیا۔ لاہور کے ایک گرلز ڈگری کالج
کی خاتون پرنسپل ریٹائر ہوئیں اور پنشن کے لئے اپلائی کیا۔اے جی آفس کے
ظالم اہلکاروں نے بڑا ظلم کیا۔ ان کی پنشن روک لی۔پتہ چلا کہ پرنسپل صاحبہ
نے اپنی سروس کے دوران یہ کمال دکھایا کہ محکمہ تعلیم کے تمام کاغذوں میں
اپنی عمر دو سال کم کر لی۔ بیچاری بھول گئیں کہ سروس کی ابتدا میں انہوں نے
اپنے میٹرک کے سرٹیفیکیٹ کی ایک مصدقہ کاپی اے جی آفس میں بھی جمع کرائی
تھی۔یہی معمولی سی بھول ان کے لئے عذاب بن گئی۔ اے جی آفس والوں کے اس
ظالمانہ فیصلے کے خلاف محترم پرنسپل صاحبہ لاہور ہائی کورٹ چلی گئیں ۔ ان
کا موقف تھا کہ میں نے قوم کی خدمت دو سال زیادہ کی ہے۔ حکومت کو ہدایت کی
جائے کی وہ اس دو سالہ خدمت کے عوض مجھے پنشن کے علاوہ خصوصی انعام بھی دے۔
بعد میں رابطہ نہ ہونے کے سبب مجھے نہیں پتہ کہ ہائی کورٹ نے انہیں کیا
خصوصی انعام دیا۔
لاہور کے ایک پرائیویٹ کالج کے مرحوم مالک مشہور استاد جو پیر اور صوفی بھی
تھے، بڑے بااثر تھے۔ان کی بہن نے ایم اے کیا اور لیکچرر شپ کے لئے اپلائی
کیا۔اسی سال اور اسی بیج میں ان کے ساتھ ان کی دو ہم نام کلاس فیلوز نے بھی
اپلائی کیا۔سوئے اتفاق ان کی دونوں کلاس فیلوز سلیکٹ ہو گئیں مگر محترم
استاد صاحب کی بہن انٹریو میں کوالیفائی نہ کر سکیں۔استاد محترم نے اپنے
مریدوں سے مدد چاہی۔ خاتون کی ہم نام دو خواتین اس سال سلیکٹ ہو چکی تھیں۔
مریدوں نے فوراً کام دکھایا اور ان کی ہمشیرہ کو بھی ملتان جائن کرنے کا
حکم نامہ لا دیا۔ اس حکم نامے میں صرف باپ کا نام درج نہیں تھا۔خاتون نے
جوائن کیا اور مزے سے نوکری کرتی رہیں۔ بیس پچیس سال گزر گئے۔ ایک دن راہ
میں ان سے ان کی ایک اسی ہم نام سلیکٹ ہونے والی کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی
۔ اس نے پوچھا کیا کر رہی ہوں ۔ استاد محترم کی بہن نے فخر سے بتایا کہ
لاہور کے فلاں مشہور کالج میں پانچ سال سے اسسٹنٹ پروفیسر ہوں۔ان کی کلاس
فیلو پریشان ہو گئی ۔ اس نے اپنے میاں کو بتایا کہ جس سال وہ سلیکٹ ہوئی
تھیں اس سال تو محترمہ فیل ہوگئی تھیں۔ بعد میں کسی سال ان کی سلیکشن اگر
ہوئی ہے تو انہیں مجھ سے جونیئر ہونا چائیے۔ عجیب بات کہ مجھے اسسٹنٹ
پروفیسر ہوئے دو سال ہوئے ہیں اسے پانچ سال کیسے ہو گئے۔یہ شکایت سیکرٹری
ایجوکیشن کو کی گئی۔ بہت تگ و دو اور چھان بین کے بعد یہ بات عیاں ہوئی کہ
استاد محترم کی بہن بغیر سلیکشن کے پچیس سال سے زیادہ ملازمت کر چکی ہیں۔
ای اینڈ ڈی رولز کے تحت انکوائری ہوئی۔ انکوائری افسر نے کمال مہربانی کی۔
ان کی عمر اس وقت اٹھاون سال سے کچھ زیادہ تھی۔
انکوائری آفیسر کی سفارش پر انہیں باعزت ریٹائر کر دیا گیا۔
یہ تو محکمہ تعلیم ہے۔ انجینرنگ ،صحت اور دوسرے محکموں کی داستانیں اس سے
بھی زیادہ شاندار ہیں۔ پولیس پہ اگر کچھ کہنا شروع کیا جائے تو ایک شاندار
کتاب وجود میں آ جائے گی۔سچی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں آوے کا آوہ ہی بگڑا
ہوا ہے۔ پہلے لوگ کوئی اچھا کام کر کے کریڈٹ لیتے تھے ، اب چونکہ کام کرنے
کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے اس لئے غلطی سے بھی اگر کوئی کام کر لے تو اس
کی تشہیر بھی خوب کرتا ہے۔ لوگ غنیمت سمجھتے ہیں کہ چلو کسی نے کچھ تو کیا۔
|