سیلفی جدید عہد کے نوجوانوں کا پسندیدہ ترین مشغلہ تصو
رکیا جانے لگا ہے۔ یہ ہر عمر کے افراد کی پسند بن چکی ہے۔دُنیا ترقی کی
مَنازل طے کرنے میں مصروف ہے اور ہم جَدید دور کی ایجاد کردہ ’سیلفی‘ بڑے
اِنہماک سے دوسروں کے ساتھ لینے میں مشغول ہیں۔سیلفی کا یہ بڑھتا ہوا رجحان
معاشرے میں اَنا پَرستی کو فروغ دے رہا ہے۔سیلفی کلچر جہاں نوجوانوں کے لئے
اپنی شخصیت اور سرگرمیوں کے اظہار کا ذریعہ ہے وہیں ان میں خود نمائی کی
بیماری پروان چڑھانے کا باعث بھی ہے۔آج اچھا خاصا بظاہر سنجیدہ اور متاثر
کن دکھائی دینے والی ہستی جب آڑے ترچھے زاویوں سے، ٹیڑھے میڑھے منہ بنا کر،
ہونٹوں کو منہ چڑانے کے انداز میں سکیڑ کر جب دیوانہ وار سیلفی لینے میں
مشغول ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کی شخصیت کو گہن لگ گیا ہے۔ اس کی
اصلیت عیاں ہو گئی ہے، اسے دیکھنے والوں کے اذہان پر کوئی اچھا تاثر قائم
نہیں ہوتا۔سیلفی کا یہی شوق اپنی تصویریں اتارنے والے افراد کو عوامی
مقامات پر ایسی حرکتیں کرنے اور ایسے خطرات قبول کرنے پر بھی مجبور کر دیتا
ہے جہاں ذاتی سلامتی کے حوالے سے ذمہ دارانہ رویہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور
نتیجہ اکثر فوٹولینے والی کی اپنی موت یا زخمی ہو جانے کی صورت میں نکلتا
ہے۔ ہمارے شہر میں بھی عید کی سیر و تفریح والے دنوں میں دور د راز علاقوں
میں کم عمر بچے خطرناک جگہ سیلفی لیتے ہوئے دکھائے دیئے،منع کرنے پر منہ
زوری او ر دادا گیری گالی گلوج تک کرنے پر اُتر آئے۔ یہ تربیت کا اثر ہے۔یہ
سیلفی کا جنون بہت خطرناک ہے، روزانہ صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے فیس بک
کھول کر دیکھاجاتا ہے کہ نئی لگنے والی تصویر پر کتنے کمنٹس آئے ہیں اور
کتنے لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ رشتے جو آپ کی
توجہ کے منتظر ہیں ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ فیس بک کا استعمال کم کر
کے اپنے حقیقی رشتوں کو وقت دیا جائے۔اس فوٹو سیلفی کی وجہ سے خاص طور پر
نوجوانوں میں ظاہری اطوار و بناؤ سنگھارپر توجہ زیادہ ہے اور باطنی اخلاق
اور اصلاح قلب کی طرف ان کی توجہ کم ہے۔آڑی ترچھی بالوں کی کٹنگ ، کیمیکل
سے رنگین بال ،ہاتھوں میں بریسلیٹ ، ظاہری طور پر خوبرو دِکھنے کیلئے
جمخانوں میں جسمانی مشقّت جو جسمانی ٹارچر کی حد تک کی جا رہی ہے۔۔لیکن صحت
پر ہونے والے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ظاہری حسن میں بالوں کی تراش و
خراش کا مذاق اور معیار گرتا جا رہا ہے۔ نوجوانوں میں خوبصورت نظر آنے کا
رجحان زیادہ تر فلمی ستاروں کو دیکھ کر پروان چڑھتا ہے۔فیشن، ہیر اسٹائل،
داڑھیوں کی تراش خراش، وغیرہ پر مکمل توجہ اور اعمال اخلاق کردار سے بے
اعتنائی افسوس ناک ہے۔وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نو جوانوں اور
تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس
لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ |