مجھے ایک عالم نے بتایا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں
شادی کی تکمیل کیلئے لڑکی والوں سے مال طلب کیا جاتاہے۔ایک صاحب نے یہ بھی
بتایا کہ شادی کیلئے لڑکی کے اہلخانہ سے گاڑی طلب کی جاتی ہے۔اﷲ کی قسم میں
متحیر ہوگیا کہ کیا مردوں کی مردانگی اس حدتک کم ہوچکی ہے کہ وہ لڑکی اور
اس کے اہلخانہ کے مال و متاع کی طرف نظر ملتفت کیے رہتے ہیں۔یہ تقلید کہاں
سے مسلمانوں میں در آئی ہے؟مردکی غیر ت و حمیت کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ
عورت اس پر خرچ کرے ؟کیاوہ انسان مباشرت کی قیمت وصول کرتا ہے؟!
اسلام نے تو مردپر لازم قراردیاہے کہ وہ اپنی اہلیہ پر خرچ کرے اور اس کے
نان و نفقہ کی ذمہ داری کو سنبھالے اور عورت پر اس طرح کا کوئی حکم عائد
نہیں کیا گیا۔سورہ طلاق میں بیان ہواہے کہــ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی
سے خرچ کرنا چاہیے،اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو
کچھ اﷲ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (استطاعت کے مطابق)خرچ کرے ،کسی
شخص کو اﷲ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے۔‘‘سوء
اتفاق ہے کہ معاشرہ الٹے قدموں پر چلنا شروع ہوچکاہے۔گویا ایسا محسوس
ہوتاہے کہ لڑکی اور اس کے گھروالے مردکو مہر دینے کی کوشش میں مصروف عمل
ہوکر پریشان ہوتے ہیں۔ایسا کیسے ہورہاہے؟
نبی کریمؐ سے استفسار کیا گیا کہ بہترین خرچ کیا ہے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا
کہ’’بہتر دینار وہ دینار ہے جو اہل و عیال پر خرچ کیا جائے۔۔۔‘‘لالچ و حرص
اور طمع کی وجہ سے بعض مرد مکروفریب کے ذریعہ سے مال دار عورتوں سے شادی
کرنے کیلئے دوستی کی پینگیں بڑھاتا ہے یعنی اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے
سسر کے ساتھ بیٹھ کر ان سے حسب خواہش کچھ ضروریات طلب کرے۔ظاہر ہے کہ ایسی
عادات اور ثقافت کا اسلامی تہذیب و ثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں
ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مرد فقیر و غریب ہے اور عورت مالدار تب بھی مرد
پر لازم ہے کہ وہ اس پر خرچ کرے نہ کہ اس سے طلب کرتا رہے۔اسی وجہ سے فقہاء
نے کہا ہے کہ عورت کی تنخواہ اور اس کے مال میں مرد کو کوئی اختیار نہیں کہ
وہ اس میں تصرف کرے۔البتہ اگر کوئی بیوی اپنے خاووند کو غریب و فقیر سمجھتے
ہوئے زکوٰۃ اس کو دیدے تو اس کو جائز قرار دیا گیاہے۔مگر مرد پر یہ بھی
ضروری ہے کہ وہ بیوی کی جانب سے زکوٰۃ اداکریگا اگر چہ وہ امیر ہو یا غریب۔
اگر کوئی بیوی اپنی رضا اور رغبت سے شوہر کی مالی معاونت کرتی ہے تو یہ
جائز و درست ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’اور عورتوں کو ان کے مہر
راضی خوشی دے دو،ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے شوق سے
خوش ہوکر رکھ لو۔‘‘مگر یہ کہ مرد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہے کہ بیوی اس کی
خدمت کرے تو اس بات کی اسلامی شریعت میں کوئی اجازت نہیں ہے۔اور نہ ہی ایسا
عمل اخلاق کے تقاضوں کیے مطابق ہے اسی طرح یہ مرادنگی کی امتیازی صفت کے
بھی خلاف ہے۔ایسا شوہر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا جس میں محبت اور مودت کی
بجائے وہ حرص و لالچ میں گرفتار ہو۔ایسی رسوم و رواج اور عادات مختلف ذرائع
سے اسلامی معاشرے میں منتقل ہوگئی ہیں ۔یہ تمام عادات نسل بعد نسل بطور
وراثت کے چلتی آرہی ہیں لیکن ان گھٹیا اور ذلیل رسو م کا دین سے کوئی تعلق
نہیں۔
قرآن کریم اور احادیث نبوی میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی کہ جس میں عورت کو
مرد پر خرچ کرنے کا کہا گیا ہو۔اسلام نے عورت ذات کی عزت افزائی کرتے ہوئے
اس کو ایسی ذمہ داریوں سے بری وآزاد کردیا ہے ۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ
اﷲ تعالیٰ نے جب حضرت آدمؑ کو متنبہ کیا تھا کہ شیطان کے بہکاوئے میں مت
آنا تو اس بارے میں ارشاد ہواکہ’’کہاہم نے آدم کوکہ یہ(شیطان)تمہارا اور
تمہاری اہلیہ کا دشمن ،کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ تمہیں جنت سے نکلوا دے پھر آپ
نادم ہوں‘‘۔اگر چہ اس آیت میں واقعہ حضرت آدم و حضرت حوادونوں کا بیان
ہواہے مگر اس میں پریشانی و ندامت اور مشکلات کا سامنا کرنے سے متعلق
تحذیرو تنبیہ مذکر کے صیغہ سے آئی ہے اس سے واضح یہ ہوتاہے کہ کام کاج کی
محنت و مشقت آدمی ہی اٹھاتاہے تاکہ وہ کام کاج کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ
پالے جس قدر اﷲ تعالیٰ نے اس کو فرصت و آسانی اور کشادگی عنایت کی ہے۔اس
میں مرد کو مکر و فریب اور دھوکہ دہی و بخل و کنجوسی سے کام نہیں لینا
چاہیے اور نہ ہی بیوی سے مددطلب کرنی چاہیے کیونکہ اس سے مرد کی عزت نفس
مجروح ہوتی ہے اور اس کو اﷲ کی طرف سے ہبہ شدہ صفت قوامیت کمزور پڑجاتی
ہے۔اس لئے ایسا کوئی فعل و عمل کرنا درست نہیں جس کی وجہ سے شان و شوکت پر
حرف آئے۔
درج بالا واقعہ سن کر میں متعجب و حیران ہوں کہ کسی آدمی کی اگربچیاں زیادہ
ہوں تووہ ان کو کیسے بیاہے گا کہ سماج میں تو شادی کرنے کیلئے مطالبات کی
لمبی فہرست تھما دی جاتی ہے کہ جہیز میں یہ دو اور فلاں چیز دو۔جبکہ اسلامی
شریعت نے تو عورت کے پیٹ میں آنے والے بچے کا خرچ اور ولادت کے بعد رضاعت
کا خرچ مرد کو اداکرنے کابھی پابند کیا ہے۔ مگر اس کو تبدیل کرکے بیوی یا
اس کے والد سے مال لینا گویا مرد کو خریدا جارہاہے یہ تو بہت بڑی ذلت و
رسوائی کی بات ہے۔اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ موجودہ دورمیں مناسب
زندگی بسر کرنا مشکل ہوگی ہے ایسے میں چہار جانب گھروں میں غربت و افلاس کا
ڈیرہ ہے ۔ان مشکل حالات کے پیش نظر اگر بیوی اپنے مرد سے محبت و مودت کے
باعث خانگی امور میں مدد کرتی ہے تو اس میں مضائقہ نہیں تاہم اس پر جبر و
اکراہ یا زبردستی نہیں کی جاسکتی۔اور اسی طرح ضروری ہے کہ مہرکی مقدار کو
بھی اتنا نہ بڑھایا جائے کہ کوئی شخص نکاح کرنے کو معیوب یا مشکل سمجھ کر
ترک کردے۔
آج کے زمانے میں شریعت اسلامیہ کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اس بات کی
دین میں ذرا بھی گنجائش نہیں کہ دائیں یا بائیں سے کوئی رسم لے کر اس کو
تہذیب اسلامی میں شامل کرلیا جائے۔دنیا میں بہت سے غیر مسلم ایسے ہیں جو
عورت کو اس کا شرف و وقار نہیں دیتے اور نہ ہی اس کو آزادی دیتے ہیں بلکہ
وہ اس کے وجود سے ہی نفرت کرتے ہیں تو ایسے افکار کے حاملین سے کنارہ کشی
اختیار کرنا ضروری ہے۔بہت سے لوگ عورت کو مال کے عوض حاصل کرتے ہیں اور اس
سے مباشرت کرنے کے ساتھ متمتع ہوتے ہیں مگر اس کی عزت اور عظمت کا نہ تو
لحاظ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی رائے اور بات کو اہمیت دیتے ہیں۔
اسلامی معاشرے میں عورت کو بہت سے مشاکل کا سامنا ہے کہ جاہلیت کے زمانے
میں جس طرح عورت کو بے وقعت و بے قیمت سمجھا جاتاتھا اس کو پیدائش کے ساتھ
ہی زندہ درگور کردیتے تھے۔افسوس کے آج بھی صنف نازک سے متعلق وہ نفرت شکل
کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہے کہ عورت کی زندگی کے بدلہ میں اس سے مال و متاع
کی طلب کی جاتی ہے۔واضح ہونا چاہیے کہ عورت سے مرد کی جانب سے کوئی بھی چیز
طلب کی جائے خواہ شادی سے پہلے یا بعد میں وہ حرام ہے۔آدمی کیلئے جائز نہیں
کہ وہ اس کو لے اور کھائے۔اور افسوس کی بات ہے کہ یہ برائی آج کے مسلم اور
پاکستانی معاشرے کے بہت سے مردوں میں داخل ہوچکی ہے۔ |