تحریر: انیلہ افضال، لاہور
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں
بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی
معاشرے یا قوم کو ترقی کرنی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کے افراد
کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زمہ داریوں اور فرائض کا نا صرف احساس
ہو بلکہ افراد ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی حتیٰ الوسیع کوشش بھی کریں۔
یہاں کوشش کا لفظ استعمال کرنے کی بین وجہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہمیں
ہمارے حقوق کا تو پورا پورا ادراک ہے مگر فرائض کی بات آتے ہی ہم ’’چوچے‘‘
بن جاتے ہیں۔
بچپن سے لے کر پچپن تک ہمیں صرف حقوق کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور یہ بات
ہمیں اچھی بھی لگتی ہے۔ مثلاً، ماں کے دودھ پر بچے کا حق ، باپ کی دولت پر
اولاد کا حق۔ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے
بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو وہاں پر بھی ( انتہائی معذرت کے ساتھ)
اسلامیات اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں بھی صرف حقوق ہی پڑھائے جاتے ہیں،
والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، غریبوں کے حقوق، ہمسائیوں
کے حقوق، قیدیوں کے حقوق، مسافروں کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ فرائض کا یہاں بھی
کوئی تذکرہ نہیں اور کسی نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری تو آخر میں لکھ
دیا۔‘‘ ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہیں‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
اسکول میں داخل ہونے والا تین چار سال کا بچہ جب 23برس کا ہو جاتا ہے
یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ڈگری اور منہ میں ’’
ساڈا حق، ایتھے رکھ ‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
ہمارا پیارا وطن پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن اس کا مطلب
ہرگز یہ نہیں تھا کہ یہاں کے عوام ہمہ وقت مساجد میں ہوں گے اور صوم و
صلوٰۃ اور حج و عمرہ کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو کوئی دوسرا کام نا ہو گا
اور اتنے نیک لوگوں کے لیے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی اور من و سلویٰ کا
اہتمام ہو گا بلکہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی اصولوں کے تحت زندگی بسر
کرنا اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا تھا۔
کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقا کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس
کے افراد اپنے معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں، کیونکہ وہ
اعمال اور ذمے داریاں صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیع
دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگلے کچھ ہی دنوں میں ملک میں انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو جائے گی آ پ
سے التماس ہے کہ سب نہیں تو کم سے کم ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتوں کے
منشور کا مطالعہ کیجئے گا ۔ آپ کو یقین کی حدوں سے پرے دعوؤں اور خوبصورت
وعدوں کے علاؤہ کوئی تیسری چیز نظر نہیں آئے گی ۔ پکی گلیاں، کشادہ سڑکیں،
لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، سکول، طبی مراکز ، اور روزگار کے مواقع؛ مگر یہ کوئی
نہیں کہتا کہ آپ کسی حق کے حقدار تبھی ہیں جب آپ اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ آپ
ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر حکومت کی نااہلی کا رونا خوب روتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک باآواز بلند ملک، قوم اور معاشرے کی درستی کی بات کرتا ہے
مگر صاحبو! ذرا غور کرو تو یہ ملک، یہ قوم، یہ معاشرتی اور کوئی نہیں بلکہ
میں اور آپ ہیں ۔ ہمیں قطاً کوئی ضرورت نہیں کہ ہم ملک و قوم کے غم میں
کڑھتے رہیں۔ ہمیں معاشرے کا ٹھیکیدار بننے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اور ہر
بات پر من حیث القوم کا جام پی کر کسی نالی میں لکھنے کی بھی کوئی ضرورت
نہیں بلکہ صرف میں اور صرف آپ بطور ایک فرد کے خود کو ٹھیک کر لیں تو یہ
ملک، یہ قوم اور یہ معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہم بطورِ فرد یا شہری اپنی کوئی ذمے داری پوری
نہیں کر رہے۔ ہم میں سے اکثر اپنی ’’اختیاری ‘‘ذمے داریاں احسن طریقے سے
پوری کر رہے ہیں۔ یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جو ہمارے بس میں ، ہمارے اختیار میں
ہوتی ہیں اور جن کی ہم سے جواب طلبی ہوتی ہے ۔
جیسے ایک استاد کی ذمہ داریاں، ایک باپ کی ذمہ داریاں، ایک بینکر کی ذمہ
داریاں، ایک صنعت کار کی ذمہ داریاں وغیرہ ۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ ذمہ
داریاں جو پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے طور پر لاگو ہوتی ہیں۔اس کے بعد آتی
ہیں وہ ذمہ داریاں جو کسی پر بحیثیت فرد کے اخلاقی طور پر فرض ہیں۔ جیسے
ٹریفک قوانین کی پابندی، وقت کی پابندی، قطار کی پابندی، خواتین کا احترام
وغیرہ۔ یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والے تقریباً
کامیاب رہتے ہیں۔
ایک تیسری قسم کی ذمہ داری بھی ہے جو مندرجہ بالا دونوں ذمہ داریوں کا
مجموعہ ہے جس میں پیشہ ورانہ اور اخلاقی دونوں قسم کی ذمہ داری فرد واحد پر
عاید ہوتی ہے مثلاً سفارش، رشوت، نظر اندازی، اقربا پروری وغیرہ۔ یعنی اس
ملت اسلامیہ کے افراد اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں پوری تو کرتے ہیں۔گر
اخلاقیات کی ڈنڈی مارنا نہیں بھولتے۔
اب ایک نظر ان اصولوں پر جو بطور پاکستانی شہری ہم پر فرض ہیں اور جن کا
تقاضا یہ مملکت خدا داد اپنے شہریوں سے کرتی ہے۔
1:۔ اسلامی قوانین کو ملک کی بنیادی اساس مانتے ہوئے اپنی زندگیاں اسلامی
تعلیمات کے مطابق بسر کریں۔
2:۔ پاکستان کے شہری ایسے جمہوری نظام کی حمایت کریں جس میں سب کے لیے
آزادی، احترام، عزت، تکریم اور مساوات کا نفاذ ہو۔
3:۔ پاکستان کے شہریوں کو محب وطن ہونا پڑے گا اور آزمائش کی گھڑی میں ملک
و قوم کے لئے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
4:۔ ہر پاکستانی کو رزق حلال کی طلب کرنی ہوگی یہ ہمارا دینی تقاضا بھی ہے
اور اس سے رشوت، سفارش اور اقربا پروری کی بھی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔
5:۔ تعلیم یافتہ اور مہذب شہری ہی قوموں میں نئی روح پھونک سکتے ہیں لہذٰا
تعلیم پر خصوصی توجہ دینی ہو گی اور یہ کام انفرادی سطح پر بھی کرنا ہو گا۔
6:۔ شہریوں کو چاہئے کہ وہ ملک کے قوانین کی پابندی کریں اور اداروں کے
ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔
7:۔ سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بننے کی بجائے قومی وقار، ترقی اور
یک جہتی کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے۔
8:۔ نکمے ، ناکارہ اور سست شہری ریاست کا بوجھ ہوتے ہیں لہٰذا محنت کیجئے
اور محنت کش بنیئے۔
9:۔ اپنے تمام ٹیکس مکمل اور بر وقت ادا کیجئے۔
10:۔ فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیں۔
11:۔ دوسروں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔
12:۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لہٰذا اسلامی اخوت اور عظمت کے لیے کام
کیجیے۔
13:۔ اپنے تمام فرائض پوری ذمہ داری اور توجہ سے ادا کریں۔
|