چند دن قبل اپنے آفس میں داخل ہوا تو ڈاکٹر
امیرفیاض صاحب دروازے کے سامنے پڑے کولر کے قریب کرسی پر بیٹھے پانی پی رہے
تھے ان سے علیک سلیک ہوئی اور چائے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول نہیں کی
تاہم کچھ دیر بیٹھے رہے اوراس محدودوقت میں بہت اچھی باتیں کیں جن میں
زیادہ تر ان کی لکھی ہوئیں کتابوں کے حوالے سے تھیں میں بہت متاثر ہوا جاتے
وقت اپنا لکھا ہوا آرٹیکل میرے حوالے کیا ،ڈاکٹر صاحب چلے گئے اور مجھے
اپنے کلینک آنے کی دعوت بھی دی،میں آرٹیکل لے کر اپنے کمرے میں چلا اس پر
سرسری نظر ڈالی جو برمامیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے
تھا،پھرمیں اپنے کام میں مصروف ہوگیا ،اس کے دوسرے یاتیسر ے دن بعد مجھے
ڈاکٹر موصوف نے کال کی اورکہاکہ تم نے کلینک کا چکر نہیں لگایا،،مصروف تھا
اس لئے نہ آسکا مگر جلد آجاؤں گا،، میں نے جواب دیا اوررابطہ منقطع ہوگیا
اورپھر اس کے اگلے دن میں ملابابا روڈ پر واقع ان کے کلینک گیا
اندرجاکردیکھا تو پہلے تو گمان ہواکہ میں کلینک کی بجائے کسی لائبریری میں
چلاآیا کیونکہ وہاں پر موجود الماریوں میں ادویات کی بجائے کتابیں ہی
کتابیں نظرآرہی تھیں تاہم اپنی دائیں طرف واقع ایک اور دروزارے کی طرف
دیکھا توڈاکٹر صاحب اپنی کرسی پربیٹھے کسی کا کتاب کا مطالعہ کررہے تھے ،شائد
یہ ان کا معمول تھا، مجھے دیکھا تو اٹھ کر بڑی گرم جوشی اور پر تباک
اندازمیں میرا استقبال کیا اور پھر بیٹھے نہیں بلکہ مختلف المارویوں سے
کتابیں نکال کر مجھے تحفہ کے طور پرپیش کیں جو ان کی لکھی ہوئی تھیں اورپھر
میرے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے ،غورسے دیکھا تو میرے لئے یہ فیصلہ
کرنامشکل ہوگیا کہ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کے بارے میں سوچوں یا ان کی
شخصیت کے بارے میں ،ان کے کلینک کے اندرالماریوں میں دوائیاں کم اور کتابیں
زیادہ نظر آرہی تھیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاتھا کہ اس شخص کو
کتابوں کے ساتھ جنون کی حد تک محبت ہے۔
قارئین یقین جانئے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں ایسی کوئی بات ضرور تھی جس
نے مجھے ایک بار پھر قلم اٹھا نے پر مجبورکردیا،ضلع سوات کے مرکزی شہر
مینگورہ سے کچھ ہی فاصلہ پر واقع ایک خوبصورت گاؤں قمبر کے رہنے والے ڈاکٹر
امیر فیاض صاحب کا نام لکھاریوں کی دنیا میں کسی کیلئے نیا نہیں کیونکہ
موصوف کی اب تک پندرہ کتابیں چھپ چکی ہیں اور مزید دو کتابیں عنقریب منظر
عام پر آنے والی ہیں ،ان کی تمام کتابیں معلومات سے بھری ہوئی ہیں اس کے
علاوہ وہ ایک مقامی اخبار میں مستقل طورپر کالم بھی لکھتے ہیں جوقارئین میں
کافی مقبول ہیں ،ایک طرح سے وہ بحیثیت ڈاکٹر دکھی انسانیت کی خدمت بھی
کررہے ہیں اوربذریعہ قلم بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کی پرکشش شخصیت ،نرم لہجہ اور علم بھری باتیں بندے کو اس بات پر
مجبورکررہی ہیں کہ وہ گھنٹوں گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنتا
رہے ،میں بھی یہی چاہتاتھا مگر وقت کی کمی اور مجبوریوں کی وجہ سے بعض
اوقات بندے کو اپنی خواہشات کو پاؤں تلے روندنا پڑتا ہے میں نے بھی یہی کیا
اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے اجازت چاہی رخصت کرتے وقت ڈاکٹر صاحب نے مجھے
گھر کے بنائے ہوئے آٹے کے کھچورنما کیک بھی شاپر میں ڈال کر دئے اورکہاکہ
گھر جاکر کھا لینا اورمجھے رخصت کردیا۔
ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے نکل کر اپنے گھر تک جاتے ہوئے میں صرف انہی کے بارے
میں سوچ رہا تھا ،گھر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے ان کی کتابوں پر نظر
دوڑائی کافی صخیم کتابیں تھیں،سوچ رہاہوں کہ اس شخص نے اتنی کتابوں کیلئے
کتنی معلومات حاصل کی ہوں گی کیونکہ کتاب لکھنا تو اتنا آسان کام نہیں بلکہ
بڑا مشکل کام ہے اور اس مشکل کام کو ڈاکٹر صاحب نے انجام دے کرثابت کردیا
کہ ان میں ایساکرنے کا بھرپورحوصلہ موجود ہے ۔
مجھے یاد آگیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے بعد وہ اپنے
مداحوں کیلئے ایک مزاحیہ کتاب لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں مجھے امید ہے
کہ ڈاکٹرصاحب کی وہ کتاب بھی دیگرشاہکاروں کی طرح قارئین کو پسند آئے
گی،دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی عمر دراز کرے آمین ۔
خداکرے زور قلم اورزیادہ |