کھیلوں کے دوران بعض دفعہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو
تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں، جیسے محمد علی کلے کو ایک چھوٹے سے حادثے نے
عظیم باکسر بنادیا، میونخ اولمپک کے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم کے کھیلنے پر
تاحیات پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ایسے ہی چند واقعات نذر قارئین ہیں۔
سائیکل کی چوری نے محمد علی کلے کو عظیم باکسر بنادیا
محمد علی کلے کا شمار تاریخ کے عظیم ترین باکسرزمیں ہوتا ہے لیکن انہیں ایک
دل چسپ واقعہ کی وجہ سے وہ باکسر بنے اور چند ہی سالوں میں باکسنگ کے کھیل
میں شہرت کی بلندیوں پرجاپہنچے ۔ وہ امریکی شہر لوئسویل کے ایک پسماندہ
علاقے میں پیدا ہوئے اور سیاہ فام ہونے کی وجہ سے بچپن میںاپنے سفید فام ہم
وطنوں کی تنگ نظری کا شکار رہے۔ جبوہ 12 سال کے تھے تو ایک روز کلے اپنے
ایک دوست کے ساتھ لوئسویل شہر کے سالانہ کنونشن میں گئے اور وہاں آئس کریم
اور پاپ کارن کھانے کے بعد باہر آئے تو دیکھا کہ ان کی سائیکل چوری ہوچکی
تھی۔ وہ شدید برہم ہوئے اور قریب موجود پولیس اہل کارجومارٹن، جوباکسنگ جم
کے انسٹرکٹر کے فرائض بھی انجام ددیتے تھے، شکایتلے کر گئے انہوں نےمذکورہ
افسر سے سائیکل چوری کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ چور انہیں مل جائے
تو وہ اس کی ایسی مرمت کریں گے کہ اسے نانی یاد آجائے گی۔جو مارٹن نوعمر
بچے کے جارحانہ انداز سے بہت متاثر ہوا اور اسےچور سے لڑنے سے پہلے باکسنگ
سیکھنے کا مشورہ دیا۔ یہ کلے کے باکسنگ کیریئر کی جانب پہلا قدم تھا اور جو
مارٹن ان کے پہلے استاد تھے۔ وہ اس وقت اپنے ابتدائی نام کیسیس مارسیلس
Cassius Marcellusسے پہچانےجاتے تھے۔انہوں نے بہت ہی مختصر مدت میں باکسنگ
کے کھیل پر عبور حاصل کرلیا اور اس قدر ماہرانہ انداز میں باکسنگ کھیلنا
شروع کردی ہے کہ سب حیران رہ گئے۔انہوں نے1960 میں پہلی بار اپنے آبائی
قصبے لوئسو یل میں باکسنگ پہلا مقابلہ جیتا جس کے بعد اسی سال انہیں روم
اولمپکس میں امریکی دستے میں شامل کیاگیا۔ انہوں نے اولمپک چیمپئن کا اعزاز
حاصل کرکے طلائی تمغہ جیتا۔ان دنوں سونی لسٹن ، امریکا کا ایک پروفیشنل
باکسر تھا،جسے دنیا کا خطرناک ترین باکسر سمجھا جاتا تھا۔ وہ اپنی دہشت اور
خوں خواری کی وجہ سے ریچھ کے لقب سے معروف تھا اور دنیا بھر کے باکسروں پر
اس کی ہیبت طاری تھی۔ 1962ء میں اس نےہیوی ویٹ عالمی چیمپئن فلائیڈ پیٹرسن
کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دے کر اس سے ٹائٹل چھینا تھا۔ نوجوان محمد علی
کلے نے اس خوف ناک باکسر کے ساتھ لڑنے کااعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال
دیا۔ کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھ کہ ایک نوجوان باکسر لسٹن جیسے
خطرناک ریچھ کے سامنے ٹھہر پائے گا۔25فروری 1964 کوفلوریڈا کے میامی بیچ
پرمقابلہ منعقد ہوا، ابتدا میںہی محمد علی کلے نے جارحانہ انداز اختیار کیا
اور سونی لسٹن پر ایسے مکے برسانا شروع ہوئے کہ چھٹے راؤنڈ میں جاکر اس نے
اپنے ساتھیوں سے کہنا شروع کردیا کہ وہ ساتویں راؤنڈ میں نہیں جائے گا
لیکن جب اسے ساتویں راؤنڈ کیلئے تیار کیا جانے لگا تو وہ چیخ اٹھا کہ بس
اب وہ اور نہیں لڑسکتا، کلے فاتح رہا اور اس نے سونی لسٹن کو ہرا کر عالمی
ہیوی ویٹ چیمپئن کا اعزازحاصل کیا۔
کلے نے سونے کا تمغہ دریا میں پھینک دیا
1960 میںمحمد علی کلے نےروم اولمپک مقابلوں میں پولینڈ کے باکسر ربینوف
پیٹرکواسکی کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا لیکن جب وہ اسے لے کر وطن واپس
آئے تو تلاش معاش میں وہ دریائے اوہائیو کے قریب واقع ایک ریستوران گئے۔
انہوں نے اس کے مالک سے اپنا تعارف کرایا اور اولمپک گیمز میں جیتنے والا
طلائی تمغہ دکھایا لیکن ریستوران کے مالک نے نسلی تعصب کی بنا پر انہیں
ملازمت دینے سے انکار کردیا۔ ریستوران سے باہر نکل کر انہوں نے غصے میں
آکر اپنا تمغہ دریا میں پھینک دیا۔ اس واقعے نے امریکا میں کافی شہرت حاصل
کی جب کہ سیاہ فام افراد کی سوسائٹی نے نسل پسرتاننہ پالیسی پر سخت احتجاج
کیا۔ 1996 میں اٹلانٹا اولمپکس کے موقع پرانٹرنیشل اولمپک کمیٹی نے انہیں
اولمپکس کی مشعل تھمائی گئی، مشعل کے سفر کے اختتام پر توانہیں سونے کا
تمغا دیا گیا جو اس تمغے کے بدلے میں تھا جو انہوں نے دریائے اوہائیو میں
پھینک دیا تھا۔
پاکستانی ٹیم نے اولمپک میڈلز پیروں میں پہنے
بہترین کارکردگی پر طلائی، نقرئی اور کانسی کے تمغے گلے میں پہنائے جاتے
ہیں لیکن ایک مقابلے میں شکست کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے انہیں پیروں میں
پہنا۔ 1972کے میونخ اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم کو ریفریز کےمتنازعہ
فیصلوں کا سامنا رہا، خاص طور سے اسے فائنل میچ میں شکست سے دوچار کراکےنہ
صرف اولمپک ٹائٹل سے محروم کیا گیابلکہ اس کے کھلاڑیوں کے کھیلنے پر تاحیات
پابندی بھی عائد کردی گئی۔دو مرتبہ اولمپک چیمپئن بننے والی قومی ہاکی ٹیم
، اسد ملک کی قیادت میں سیمی فائنل کے مرحلے تک پہنچ گئی، جہاں اس کا
مقابلہ بھارت سے ہوا جسے شکست دے کر وہ فائنل میں آئی جہاں اس کا مقابلہ
میزبان ٹیم مغربی جرمنی سے تھا۔فائنل مقابلہ بہت سخت تھا، اس کے علاوہ
امپائرنگ بھی جانب دارانہ تھی،جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کواپنے اعزاز
کے دفعہ میں مشکلات کا سامنا تھا۔ س میچ میں پاکستان ہاکی ٹیم ، کھیل کے
آغاز سے ہی ارجنٹائن کےامپائر، سرویٹو اور آسٹریلیا کے رچرڈ جیول کے
متنازعہ فیصلوںسےسخت ناراض تھی۔پاکستانی ٹیم کےمقابلے میں جرمن ٹیم کو
متعدد پینالٹی کارنز اور پینالٹی اسٹروکس دیئے گئے لیکن قومی ٹیم کے
کھلاڑیوں نے سخت مقابلہ کرکے ناکام بنادیئے۔ میچ کے اختتامی لمحات تک کوئی
بھی ٹیم گول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ میچ کے 60ویں منٹ مبں جرمن
فارورڈ، مائیکل کروز نے گول کردیا جو پاکستانی کھلاڑیوں کے نزدیک متنازعہ
تھالیکن جرمنی کی ٹیم کو میونخ اولمپک کا فاتح قرار دیا گیا۔ اس شکست سے
پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی تو برہم تھے ہی لیکن تماشائی بھی ریفریز کےجان
دارانہ فیصلوںسے مشتعل تھے۔ میچ کے اختتام پر وہ گراؤنڈ میں داخل ہوگئے
اور انہوں نے میچ آفیشلز کی میزوں کا رخ کیا۔ ایک تماشائی نے گندے پانی کی
بالٹی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر رینی فرینک کے سر پر انڈیل دی۔ پولیس
نے بڑی مشکل سے صورت حال پر قابو پایا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے لاکرز پر اپنا
غصہ اتارا اور انہیں توڑ دیا۔ میڈلز کی تقسیم کےموقع پر انہوں نے مغربی
جرمنی کے جھنڈے کے سامنے کھڑا ہونے سے انکار کردیا اور اس کی طرف پشت کرکے
کھڑے ہوئے۔ انہوں نے رنر اپ ٹیم کی حیثیت سےچاندی کے تمغے گلے میں پہننے سے
انکار کردیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے چاندی کے تمغوں کو توڑ ڈالا اور
کچھ نے تو انہیں اپنی ہاکی اسٹکس اور جوتوں پر گھمانا بھی شروع کردیا، جب
کہ شہناز شیخ نے اولمپک میڈل اپنے جوتے پر وصول کیا ، جس پر عالمی ہاکی
فیڈریشن نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم پر تاحیات پابندی
عائد کر دی جو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدرایئرمارشل نور خان کی سخت کوششوں
کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد ختم ہو سکی۔ تاہم کپتان اسد ملک سمیت کئی قومی
کھلاڑی دوبارہقومی ہاکی ٹیم کا حصہ نہ بن سکے۔
سائیکلسٹ جو فتح سے چند کلومیٹر کی دوری پر زندگی کی بازی ہار گیا
اپریل 2018 میںپیرس روبے سائیکل ریس کے دوران بیلجیئم کا 23سالہ سائیکلسٹ
مائیکل گولیرٹس دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا۔ بیلجیئم کی نمائندگی کرنے
والی ویرنداس ولیم ٹیم کے حکام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نوجوان کی
ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا ہے اور اسے ناقابل یقین واقعہ
قرار دیا ۔ جب ریس کا آغاز ہوا تو گولیرٹس فنش لائن نے تیز رفتاری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ابتدائی مقابلے میں سبقت حاصل کرلی تھی۔لیکن وہ جب فنشنگ
لائن سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پرتھے، اچانک بے ہوش ہوکرٹریک پر گرگئے ،
انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرانس کے شہر لیل کے ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم
وہ جان بر نہ ہوسکے ۔ ڈاکٹر نے موت کی وجہ حرکت قلب بند ہونا قرار دی ۔
کامن ویلتھ چیمپئن شپ میںویٹ لفٹر کہنی تڑوا بیٹھی
گولڈکوسٹ نیوزی لینڈ کی متنازع خاتون ویٹ لفٹر لوریل ہبرڈ کامن ویلتھ
چیمپئن شپ کےفائنل راؤنڈ میں اپنی کہنی تڑوا بیٹھیں۔ پلس 90 کلوگرام
کیٹیگری کے فائنل راؤنڈ میں کیوی ایتھلیٹ 120کلوگرام کا بوجھ نہ سہارسکیں
اور کہنی کا جوڑ نکل جانے کے باعث میگا ایونٹ سے باہر ہوگئیں۔ واضح رہے کہ
40 سالہ ایتھلیٹاوریل نے بہ طور خاتون ایتھلیٹ کامن ویلتھ گیمز میں شرکت
کی۔ اس سے قبل وہ اپنے ملک میںنیشنل مقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے جونیئر
چیمپئن بھی رہ چکی ہیں۔
غلطی سے کیا گیا گول ،فٹ بالر کی موت کا سبب بن گیا
1994ء کا برازیل فٹ بال کا عالمی چیمپئن بنا لیکن اسی ٹورنامنٹ کا ایک میچ
کولمبیا کے کھلاڑی کی موت کا سبب بن گیا۔امریکا میں منعقد ہونے والے فٹ
بالکی 15ویںعالمی چیمپئن شپ کے مقابلے امریکامیں منعقد ہوئے۔ 22 جون کو
روزبال،پاسا ڈینا فٹ بال اسٹیڈیم میں امریکا اور کولمبیا کےدرمیان گروپ میچ
کا انعقاد ہوا۔ میچ کے دوسرے ہاف میں دونوں ٹیمیں ایک ایک گول سے برابر
تھیں۔ لیکن کھیل کے آخری لمحات میں کولمبیا کے دفاعی کھلاڑی آندرے
اسکوبار،امریکی کھلاڑیوں کا کولمبین گول پوسٹ پر حملہروکنے کی کوشش میں
غلطی سے گیند کو اپنے ہی گول میں ڈال بیٹھے۔ امریکا اس گول کی وجہ سے
مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ کولمبیا سے ماہرین اور شائقین کو خاصی
امیدیں وابستہ تھیں لیکن ٹیم نے مایوس کن کارکردگی دکھائی اور گروپ مرحلے
ہی میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔کولمیبا میں فٹ بال کے شائقین نے بھی شدید
ردعمل کا اظہار کیا، جب کہ سٹے بازکولمبیا کے فائنل میں پہنچنے کی شرط
لگاچکے تھے۔27 سالہ اسکوبار کا گول سٹے بازوں کے لیے بھی مالی خسارے کا
باعث بنا، اسی لیے جب اسکوبار ورلڈ کپ کے اختتام کے بعد اپنے وطن واپس
پہنچے تو صرف 10 دن بعد میڈیلن شہر میں انہیں 6 گولیاں ماری گئیں، جس سے وہ
جاں بحق ہوگئے۔ موقع واردات پر موجود عینی شادین نے پولیس کو بتایا کہ
اسکوبار کے قاتل نے گولیاں مارتے ہوئے "گوووووول" کی صدا بھی بلند کی تھی۔
اس قتل پر کولمبیا کے فٹ بال شائقین کو سخت صدمہ پہنچا اور پورے ملک میں اس
کا سوگ منایا گیا۔کولمبیا کی شکست سے قطع نظر، اسکوبار کی آخری رسومات میں
ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ سوگواروں نے شرکت کی۔
زیڈان کی اطالوی کھلاڑی کو ٹکر، جو فرانس کی شکست کا باعث بنی
فرانس میں پیدا ہونے والے زین الدین زیڈان کا شمار دنیاکے عظیم فٹ بالرز
میں ہوتا ہے، جنہیں 2004میں یوئیفا گولڈن جوبلی پول میں ’’نصف صدی کے
بہترین فٹ بالر‘‘ کا اعزاز دیا گیا جب کہ انہیں آل ٹائم کے عظیم کھلاڑی
ہونے کا رتبہ بھی حاصل ہے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی ایک مرتبہ ایسا واقعہ پیش
آیا جو ان کے فٹ بال کیرئیر پر اثر انداز ہوا۔ 2006ءمیں 18واں فیفا ورلڈ
کپ کے مقابلوں کی میزبانی جرمنی کے حصے میں آئی۔ 9جولائی کو برلن کے
اولمپیااسٹیڈیون میں ورلڈ کپ کا فائنل اٹلی اور فرانس کے درمیان کھیلا گیا،
فرانسیسی ٹیم کی قیادت زیڈان کررہے تھے جو ان کے کیرئیر کا آخری میچ
تھا۔آخری وقت تک مقابلہ برابر تھا، اضافی وقت کے دوران اچانک فرانس کے
کپتان زین الدین زیڈان نے حریف دفاعی کھلاڑی مارکو میٹارازی کو زبردست ٹکر
مار کر زمین پر گرا دیا۔ ریفری نے اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے زیڈان
کومیدان سے باہر کی راہ دکھا دی ۔ یہ فٹ بال کے کھیل کا ایک انوکھا واقعہ
تھا، میدان میں موجود 69 ہزار تماشائی اور دنیا بھرمیں ٹی وی اسکرین پر میچ
دیکھنے والےفٹ بال کےکروڑوںشائقینحیران تھے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ زیڈان
نے اپنے آخری بین الاقوامی مقابلے میں ایسی حرکت کی جو نہ صرف ان کے
کیریئر کے مایوس کن اختتام کا سبب بنی بلکہ فرانس کو بھی بعد ازاں پنالٹی
شوٹ آؤٹس میں شکست ہوئی۔ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے اختتام کے بعد مذکورہ واقعے
کی جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اطالوی فٹ بالرمینا رازی نے مذہبی
تعصب کی بنیاد پر میچکے دوران زیڈان کی بہن کے بارے میں انتہائی نازیبا
الفاظ استعمال کیے تھے جس پر فرانسیسی کپتان نے انہیں ٹکر مار دی۔ زیڈان نے
بعد ازاں واقعے پر معافی ضرور مانگی لیکن واضح کیا کہ انہیں اپنی حرکت پر
کوئی افسوس نہیں ہے۔ بہرحال، زیڈان کی اس ٹکر کے ساتھ فرانس کا تیسری بار
ورلڈ کپ جیتنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
بھولو پہلوان اور بوڑھے امام بخش کا مقابلہ
قیام پاکستان کے بعدعمائدین کا ایک وفد ملک محمد شفیع اور چودھری دین محمد
ٹھیکیدار کیقیادت میں دریائے راوی کے کنارےکامران کی بارہ دری آیاجہاں
گاماں پہلوان نے مہمانوں کی ضیافت کا انتظام کیا ہوا تھاکو دریا کے کنارے
پھلوں کے باغ میں جہازی چارپائیوں پر بٹھایا اور دل و جان سے ان کی خدمت
کی۔ اس وقت رستم زماں کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ ان کی آؤ بھگت
میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھاکیوں کہ یہ تمام مہمان گاما پہلوان کے
دیرینہ حریف رحیم سلطانی والا کے شہر سے آئے تھے۔ ملک شفیع نے وفد کے
ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”بابا جی! یہ لوگ گوجرانوالہ سے بڑی
امید لے کر آئے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ بھولو اور یونس پہلوان کے درمیان ایک
بڑی کشتی کرائی جائے“،‘‘ یونس کا بڑا چرچا ہے، اسے رحیم بخش پہلوان نے تیار
کیا ہوا ہے اس لئے وہ عام پہلوان تو رہا نہیں“۔ گاماں پہلوان نے کہا۔ ”میں
تو کہتا ہوں بس اگلے مہینے دنگل کرا دو“۔بھولو پہلوان اور یونسکے مقابلے کا
اعلان کیا گیا ۔بھولو کو موہنی روڈ (لاہور) اور یونس پہلوان کو کھیالی والا
(گوجرانوالہ) میںمقابلے کے لیے تیارکیا جانے لگا۔ چند روز بعد بھولو پہلوان
کو اوکاڑہ لے جایا گیا۔ رات کا آخری پہربھولو کی ریاضت کیلئے مخصوص تھا
اور بھولو خاندان کے معروف پہلوان خود نوجوان بھولو کی تربیت کرتے تھے۔ایک
روز اکھاڑے میں امام بخش، گاماں پہلوان، حمیدا پہلوان بذات خود لنگوٹ کسے
ہوئے بھولو کے سامنے کھڑے تھے۔ بھولو کو اپنے سامنے قائم فولادی دیوار کو
گرا کر ان کے عقب میں موجود بیس پہلوانوں کو زور کرانا تھا۔ بھولو نے سب سے
پہلے امام بخش پر حملہ کیا جو درمیان میں پہاڑ کی مانند کھڑا تھا۔ امام بخش
نے اپنے چھبیس سالہ شیر کو نظر بھر کر دیکھا اور پھر65سالہ امام بخش نے اسے
پلک جھپکتے ہی اٹھاکر نیچے گرا دیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ کڑیل جواں بھولو
، اما م بخش کی بوڑھی ہڈیوں کا دباؤ برداشت نہ کر سکا اور چلایا۔ ”ابا جی
خدا کے واسطے ذرا دباؤ کم ڈالیں“۔”ناں بھئی پتر! اس طرح تو نہیں ہوتا“۔
امام بخش نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ”ہمت کر اور نیچے سے نکل کر دکھا“۔”ابا
جی! میں نے ہاتھ پیر ہلایا تو کہیں آپ کی ہڈی پسلی نہ ٹوٹ جائے“۔ بھولو نے
طنز کیا۔ باپ بیٹے میں دوستوں جیسی بے تکلفی تھی۔ ”پرواہ نئیں“۔ امام بخش
نے کہا۔ ”زیادہ باتیں نہ کر اور جلدی اٹھ“۔ بھولو نے زور لگایا اور امام
بخش کو زمین پر گرا کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس نے تمام
پہلوانوں کو شکست دے کر تربیتی راؤنڈ جیت لیا۔ مقررہ تاریخ کو یونس سے
مقابلے میں نہ صرف اس نے یونس کو ہرا بلکہ کچھ عرصے بعددنیا بھر کے
پہلوانوں کو شکست دے کر رستم زماں کا گرز حاصل کیا۔ |